کالمز

میں، پھول اور یادِ ماضی!!!

مرزا اسد اللہ خان غالب نے غالباً اس لیے کہا تھا؎

یادِ ماضی عذاب ہے یارب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

Karimiانسان جتنی بھی جمیلہ کاوشیں کریں یا عظمیٰ ارادے باندھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شگفتہ یادیں کبھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ایک ‘سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بیتے دنوں کی یادیں جب کتابی صورت میں نظرنواز ہوئیں تو ‘شاید پھر نہ ملیں ہم کی صدائے بازگشت ہرسو سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں تھا اور میری یادیں تھیں کہ شاید پھر نہ ملیں ہم کے تکرار کے باوجود بھی ہم روبرو رہے، ملتے رہے، بچھڑتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ‘فکرونظر’ کی نظرنوازیاں بھی یادوں کی برات میں شامل ہوتی رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یادوں کی ایک ایسی برات جو ‘تیری یادیں’ کی دسترخواں میں جام زیست نوش کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں، پھول اور یادِ ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا ہم سب پا بہ رکاب ہیں۔ جہاں یادیں ہوں وہاں پھول، چاند اور چاند چہرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے لازم و ملزوم ہوتے ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ادھورا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکثر قارئین کو مجھ سے شکایت ہے کہ میری تحریروں میں پھولوں اور چاند چہروں کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میرے مطابق ان دو چیزوں سے محبت کیے بنا انسانیت کی معراج تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے ایک کے بغیر جہاں تصویر کائناب کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے تو دوسرے کے بغیر کائنات کی خوبصورتی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ شائد اس لیے یہ دونوں میرے لیے غیرمعمولی ہیں۔ آج اپنے اسٹیڈی میں بیٹھ کر میں کتاب ‘فکرونظر’ کی دوسری اشاعت کی پروف ریڈنگ کر رہا تھا کہ ایک تحریر نے مجھے آج سے ایک عشرہ پہلے سکردو پہنچایا دیا تھا۔ جہاں ایک محترمہ سے یا یوں سمجھ لیجئے گا کہ ایک چاند چہرے سے ایک دلچسپ مکالمہ ہوا تھا جس کو آپ میری اس کتاب کے صفحہ نمبر۲۴۱ میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے وہ پیراگراف آپ کی بینائیوں کی نذر کیا جایا ہے:

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میری ڈیوٹی سکردو میں تھی۔ اپنے آفس میں بیٹھے اخبار پڑھ رہا تھا۔ ڈاکٹر حسینہ، ہمیشہ کی طرح آج بھی آفس لیٹ آئی تھیں، آتے ہی مجھے مخاطب کرکے کہا کہ سر، آپ کو پھول بہت پسند ہیں ناں؟ کیونکہ کھلتے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر انسان خود پوری طرح کھل جاتا ہے، سارے دُکھ، ساری تکلیفوں کے باوجود اپنی منزل تک پہنچنے کی اس کی تمنا دُگنی ہوجاتی ہے۔ نہ جانے اس بی بی کو کیا ہوا تھا کہ آتے ہی سوالات کا بوچھاڑ کر دیا تھا، میں نے ان کی دلائل کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ایک زمانہ تھا کہ پھول مجھے بہت پسند تھے اور ان کتابی باتوں پر میں بھی آپ کی طرح یقین کرتا تھا، شاید تب تک زندگی نے مجھے کچھ سکھایا ہی نہیں تھا، پر اب میں جان گیا ہوں کہ پھول جتنے بھی خوبصورت کیوں نہ ہوں، انہیں مرجھانا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بی بی نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا، مرجھانے سے پہلے وہ اپنی خوشبو دوسروں کو دے جاتے ہیں، آپ بھی سوچئے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اس بی بی کی آخری بات اگر مرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسی تاثیر تھی کہ تب سے مجھے پھولوں سے بہت محبت ہے۔ میں جب بھی ویک اینڈ پہ گھر جاتا ہوں میرا بیشتر وقت اسٹڈی اور پھولوں کی آبیاری میں گزر جاتا ہے۔ کاش بحیثیت انسان ہم بھی مرجھائے جانے کے خوف کے بغیر پھولوں کی طرح دوسروں کو خوشبو دے سکیں تو شاید ہم پر انسان ہونے کی تہمت نہ ہوگی بلکہ انسانیت کے معراج کو پہنچ چکے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آج آپ سب سے یہی کہنا ہے کہ انسان نہ صحیح، انسانیت بہت بڑی چیز ہے جو ہماری پہنچ سے دُور ہے، صرف پھول بن کے دوسروں کو خوشبو دیجئے تو یہ دُنیا مثلِ ارم بن سکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button