کالمز

ایدھی کی خدمات کا اعتراف

تحریر :فداحسین

 ایدھی صاحب کی تدفین کی تحریریں پڑھنے سے ذہن میں طرح طرح کے سوالات اور اوہام نے انگڑائی لینے لگا ہے ۔چنانچہ ہم نے سوچا کہ ان اوہام کو ایدھی صاحب کی انسان دوستی کی ضمن میں سطور کی شکل دے کر ارباب اقتدار کی گوشوں گزار کردیں۔ہم اگر یہ نہ کرئے تو اور کیا کرئے ہمارئے پاس یہی ایک وسیلہ ہی تو ہے ورنہ کہاں ہم ایدھی صاحب کی خدمت کا ان چند سطور میںاحاطہ کرسکیں ۔ اس لئے ہماری یہ چند ٹوٹی پھوٹی سطو کو ر ان کی موجودگی (92سال تک) پر شکرانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ایدھی صاحب کی موجودگی پر شکر نہ کیا جائے تو قرآن پوچھتاہے کہ تم اللہ کی کون کونسی نعمت جھٹلاؤ گے ؟ایدھی کی موت پر ہر آنکھ اشکبار رہی ۔اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت سے لیکر گلی کوچے میں پھر نے والا مجھ جیسا نکمہ بھی۔ابھی ابھی جب میں اپنے ان خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرنے ہی لگا تومیرئے دوست نے 28سال میں پہلا مرتبہ ایدھی تدفین کو سرکاری سطح ہونے کی خبر سنانے دی۔ایدھی تمہارئے جنازئے کوکندہ دینے راحیل شریف ،قائم علی شاہ ،ڈاکٹرعشرت العباد سمیت ملک کے ناموار نامی گرامی پہنچ گئے ۔ جب یہ خبر سننے اور پڑھنے کو ملی تو دل میں ایک ارمان جاگا کہ کاش کہ ایدھی کے مقصد اور مشن کونہ صرف کندھا دیا جائے بلکہ اسے اور زیادہ وسیع بنیادوں پھیلایا جائے۔اس مقصد کو پورا کرنے میں اس وقت راحیل شر یف سے زیادہ کس میں طاقت ہے ۔پاکستان میں عام سرکاری ہسپتالوں کی کسمپرسی کی کہانیاں زبان زد عام ہے اس لئے اُس کے بارئے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرکی طرح پاکستان میں علاج و معالجہ سب سے مہنگا ہے ۔اور ملک کے دیگر اداروں کی طرح ہسپتالوںپر بھی عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔جس میں سرکاری اور پرائیوٹ دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کوگلے لگالیتی ہے۔

اگر ابھی تک پاکستان میں کسی ہستپال پر لوگوں کا اعتماد ہے تو وہ سی ایم ایچ ہے ۔مگر وہاں پر بھی صرف اانہی لوگوں کا علاج ہو سکتا ہے کہ جن کے پاس پیسے ہوں ۔سادہ الفاظ میں سی ایم ایچ کادروازہ  ،غریبوں، مسکینوں اور لاواثوں کیلئے بند ہے۔جب ضرب عضب شروع ہوا سپالار سمیت سب کی طرف سے آواز آئی یہ جنگ عوام کی تائید و حمایت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی ہے ۔اور جب اس ضرب عضب کو دوسال ہوئے تو بھی یہی کہا گیا ہے کہ اگر عوام کی تائید و حمایت نہ ہوتی ہے تو اتنی بڑی کامیابی ناممکن تھی۔ان غیر مشروط حمایت کرنے والوں میں یہی غریب ،مجبور ،بے کس ،لاوارث اور نادار لوگ بھی شامل ہیں۔افواج پاکستان میں بھرتی ہونے والے سپاہوں کی اکثریت کا تعلق انہی مجبوربرادری سے ہی ہے۔ جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد رہائش اور کھانے کے بغیرمحض بارہ بارہ ہزار تنخواہ پر بارہ بارہ گھنٹے سیکورٹی گارڈ کے فرائض انجام دیتے ہوئے ملتے ہیں۔

  سی ایم ایچ ایک عسکری ادارہ ہے ۔جہاں پر دولت مند سول لوگوں کا علاج ہونا اور غریبوں کا نہ ہونا لوگون میں عجب طرح کا احساس محرومی جنم لیتا ہے ۔خصوصا ہم جیسے بارڈر ایریا کے لوگ جو اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے سے نہ صرف انکار نہیں کرتے بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔لیکن افسوس کہ سی ایم ایچ ایچ کا دروازہ ان تمام لوگوں کیلئے بند ہے ۔ ان دولت مندوں کا علاج بیروں ملک بھی تو ہو سکتا ہے پروین شاکر کی زبانی مسئلہ پھول کا ہے  پھول کدھر جائے گا۔کاش راحیل شریف ایدھی صاحب کے جنازئے میں شرکت کے موقع پر ایدھی کے اس مشن کو سی ایم ایچ کے ذریعے آگے بڑھانے کا اعلان کرتے ۔عوام کی بڑی اکثریت جس طرح ایدھی صاحب پر اعتماد کرتے تھے اسی طرح فوج پربھی کرتے ہیں ۔ ضرورت پڑھنے پر عوام باہر نکل بھی آتے ہیں تو ایسے میں یہ ادارہ ان بے کسوں کے لئے بند ہونا مقام تعجب نہیں تو اور کیا ہے؟اگر ایسا ہو جائے تو کیا فوج کے وقار میں اور اضافہ نہیں ہو گا؟اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح راحیل شریف نے ایدھی صاحب کے جنازئے میں شرکت کی اسی طرح ایدھی صاحب کے مشن میں شرکت کرئے۔ جن علاقوں میں ایدھی کے مراکز نہیں وہاں پر فوج ایدھی سنٹر کے طرز پر سی ایم کے مراکز قائم کرئے اور ان کیلئے وہی سہولیات فراہم کی جائے جو ایدھی سنٹر فراہم کرتا ہے۔ اگر ایدھی ائر ایمبولنس سروس فراہم کر سکتا ہے تو یہ کام سی ایم ایچ بطرق احسن انجام دے سکتا ہے ۔ اس مقصد کیلئے بارڈر ایریے کے لوگوں کو خصوصی توجہ دی جائے ۔سال میںچند دن ان علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ قائم کرنا ناکافی ہے ۔ اگر ایسا جو جاتا ہے تو یہ کام ایدھی صاحب کے جسد خاکی کو سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد کے خاک کرنے سے کہیں آگے کا ہوگا اور ایدھی صاحب کو عزت و تکریم دینے اور اس کی خدمات کا اعتراف کرنے کااس سے بہتر اور کوئی طریقے نہیں ہو سکتا ۔ ورنہ ایدھی کی وفات سے اس کے مشن کو خطرات لاحق ہونے کا خدشہ جو  اب تک محض وہم و گمان تک محدود ہے کہیں یقین میں نہ بدل جائے۔اس تحریر میں اگرچہ فوجی حکام کو مخاطب کیا گیا ہے مگر سول حکام اس سے مبرا ہرگز نہیں کیونکہ لوگوں کو صحت کی سہولت پہنچانے کی ذمہ داری  فوجی حکام  سے کہیں بڑھ کے سول و سیاسی قیادت پر ہے۔ اس لئے اگر فوج ہی یہ سارا کام کرئے تو لوگ سول اداروں کی موجودگی کے جواز پر بھی سوال اٹھا نے میں حق بجانب ہونگے ۔لہذا ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف ریاستی بنیادوں پر کرتے ہوئے اس کے عظیم مشن آگے بڑھایا جائے۔ (نوٹ) ایدھی صاحب کو مرحوم لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button