کالمز

آزادی کی خوشبو

محمد جاوید حیات

باپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔منہ آسمان کی طرف تھا ہاتھ پھیلے ہوئے تھے ۔زبان پہ اللہ کا نام تھا ۔بدن لرز رہا تھا ۔بیٹا سہما ہوا بیٹھا تھا ۔دیر تک یہ کیفیت رہی ۔پھر ابو نے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا کر چومنے لگا ۔۔باہر نعرے بلند ہو رہے تھے ۔۔۔آزادی مبارک ۔۔آزادی مبارک۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ۔۔۔بیٹے کی سمجھ میں ان نعروں کی حقیقت واضح نہیں تھی ۔اور نہ وہ ابو کے آنسوؤں کی حقیقت سمجھ سکتا تھا ۔۔ابو کی حالت تھوڑی سدھر گئی ۔تو بیٹے نے سوال کیا ۔۔ابو آپ روتے کیوں ہیں ؟۔۔۔بیٹا ہم آزاد ہوئے ۔۔بیٹے کے نزدیک رسی سے باندھنے اور کمرے میں بند کرنے کا نام قیدی تھااور رسی کھولنے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا نام آزادی تھا ۔ ۔۔بیٹے کو یہ پتہ نہیں تھا ۔کہ ذہنوں کی آزادی،افکار کی آزادی،سوچوں کی آزادی ،فیصلوں کی آزادی ،عبادات کی آزادی ،نظریات کی آزادی،ترقی کرنے کی آزادی،رشتے ناتے کی آزادی ،محبت نفرت کی آزادی، تعلیم حاصل کرنے کی آزادی،خوراک، املاک،پوشاک کی آزادی،پسندنا پسندکی آزادی،زبان قلم کی آزادی آزادی کہلاتی ہے ۔اس نے حیران ہو کر ابو سے پوچھا۔۔ابو کیا ہم قیدی تھے۔۔ابو نے کہا ہاں بیٹا ۔۔۔پھر انسو بہانے لگا۔۔ایک بار پھر اس کو گلے سے لگایا ۔۔بیٹا آج سے پہلے ہمارا یہ بدن مٹی کا یہ بت اگر چہ آزاد تھا مگر ہمارا ذہن ،سوچ ،مرضی ،مذہب،خواب ،آرزو، نفرت،محبت،پسند ناپسند سب قید تھے۔ہمارے نہیں تھے۔کسی اور کے تھے ۔۔ہماری مسجدوں میں اذانیں گونجتی تھیں ۔مگر ہم مرضی سے اپنے رب کے حضور سجدہ نہیں کر سکتے تھے ۔ہم کسی ملک کو پسندناپسند نہیں کر سکتے تھے ۔ہم اپنی مرضی کی کتاب ،اپنی مرضی کا نصاب نہیں پڑھ سکتے تھے ہم ٹھکرا ئے جاتے۔ہم جوتے کی نوک ،نفرت کی گولی ،لفظوں کے زہراورنظروں کے تیروں کا شکار رہتے ۔ہم سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ہماری شناخت نہیں تھی بیٹا ۔۔۔ہم دلدل میں پھنسے ہوئے کنکر تھے۔ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ہم فوج کو ’’اپنی فوج‘‘نہیں کہہ سکتے تھے ۔لیڈر کو اپنا لیڈر ،حکمران کو اپنا حکمران،ملک کو اپنا ملک گھر انگن کو اپنا گھر، سرحد کو اپنی سرحد،جنگل کو اپنا جنگل،سمندر کو اپنا سمندر ،دریا کو اپنا دریا نہیں کہہ سکتے تھے ۔پرندوں کی چہچہاہٹ،کوئیل کی کوکو،نسیم سحر کے جھونکے،پھولوں کی خوشبو،فضاؤں کی وسعتیں ہماری نہیں تھیں۔۔ہمیں کسی پر کوئی حق نہ تھا ۔آج کے بعد یہ سب ہمارے ہیں ۔آج کے بعد اس سرزمین کے ذرے ذرے سے خوشبو آئے گی۔آزادی کی خوشبو،ہر فرد ہر آفیسر ،ہر دفتر ، ہر لیڈر ، ہر مسجد ،ہر گھر اور ہر بچے سے آزادی کی خوشبو آئے گی ۔۔یہ راستے معطر ہونگے۔یہ صحرا خوشبو سے بھر جائیں گے۔منافقت مر جائے گی۔۔ظلم ونا انصافی کا جنازہ نکلے گا انصاف کا سورج طلوع ہوگا ۔خلوص کا چاند کھیت کرے گا۔۔

اس دن سے یہ بیٹااس خوشبو کی تلاش میں نکلا صحرا صحرا پھرتا رہا گلشن گلشن ڈھونڈتا رہا ۔۔دوران تعلیم کلاس روم میں یہ خواب دیکھتا رہا اس خوشبو کی تلاش میرے لیئے خواب بن گیا ۔۔پڑھ لکھ کر آفیسر بن گیا ۔مگر وہ جتنا ترقی کرتا گیا اس خوشبو سے محروم ہوتا رہا۔اس نے دیکھا کہ سیاست اس خوشبو سے محروم ہوگئی ہے ۔۔اشرافیہ اس خوشبو سے محروم ہو گیاہے ۔اُستاد اس خوشبو سے محروم ہو گیا ہے۔ٹھکیدار، کارخانہ دار ،جاگیردار،نمبردارکسی سے یہ خوشبو نہیں ملتی ۔اس بچے کا ابو دنیا سے چلا گیا ۔بچہ آفیسر بن گیا ۔پنشن لیا ۔ نعروں کی یہ آواز،خوشبو کی یہ خوشخبری،آزادی کی نعمت کی یہ یقین دھانی،ساٹھ سال پہلے کی بات تھی ۔اب یہ بچہ بوڑھا ہوگیا تھا ۔یہ بچہ پھر سے دنیا کا چکاچوند چھوڑکر اس ’’خوشبو ‘‘کی تلاش میں نکلا ۔روشنیوں کے شہر چھوڑے ۔۔ بڑوں کی صحبتیں چھوڑیں ،زندگی کی دلکشیاں ٹھکرا دیں۔۔۔دور ویران سرحد پہ پہنچا۔دیکھا کہ ایک نوجواں دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہاتھ میں بندوق لئے سینہ تانے دشمن کی طرف منہ کرکے کھڑا ہے ۔اس کی سانسوں سے ایک عجیب خوشبو پھوٹ رہی ہے ۔ابو کی آواز کہیں سے آئی ۔۔۔بیٹا یہ وہی خوشبو ہے ۔۔آگے بڑھا دیکھا کہ کڑک تپش میں راج مزدور ایک عالی شان عمارت کو بلند کر رہے ہیں ۔ان کے بدن سے خوشبو پھوٹ رہی ہے ۔۔ابو کی آواز دور سے آئی ۔۔بیٹا یہ آزادی کی خوشبو ہے اس نے ایک بوڑھے مزدور کے ہاتھ کو بھوسہ دیا۔۔آگے بڑھا دیکھا کہ چند معصوم بچے پھٹے جوتے پرانے کپڑے پہنے سکول کی طرف جا رہے ہیں ۔۔ان کے بدن سے خوشبو پھوٹ رہی ہے ۔۔ابو کی آواز آئی بیٹا یہ آزادی کی خوشبو ہے ۔۔۔آگے بڑھتا ہے۔راستے میں بیٹھے بابا پالش کر رہا ہے ۔برش جوتوں پہ رگڑ رہا ہے ۔ارد گرد آزادی کی خوشبو ہے ۔۔آگے بڑھتا ہے ۔مسجد آتی ہے ۔بچے قرآن عظیم الشان کی تلاوت کر رہے ہیں ۔۔بڈے اللہ کو یاد کر رہے ہیں ۔آزادی کی خوشبو فضا میں بکھری ہوئی ہے ۔۔آگے بڑھتا ہے ۔ایک جھونپڑی نما گھر ہے ۔بچے ماں کے ارد گرد ناشتے کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ماں چپاتی پکاری رہی ہے ۔چھو ٹا بیٹا کہتا ہے ۔۔ ماں سکول کے لیے دیر ہو رہی ہے ۔چودہ آگست کی تیاری ہے ۔ما ں اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتی ہے ۔کہتی ہے ۔۔’’ماں کی زندگی تجھے آزادی مبارک ہو‘‘آزادی کی خوشبو بکھرتی ہے ۔۔۔بڈھے کو ساٹھ سال بعد ابو کا بتایا ہوا آزادی کی خوشبو مل گئی ہے۔۔مگر بڈھا سوچتا ہے ۔کہ کاش یہ خوشبو ملک کے ناخداؤں کے تن بدن سے آئے ۔۔پارلیمنٹ ہاؤس سے آئے ۔۔ایوان صدر سے آئے ۔۔شاہراہوں سے آئے۔۔بڑے بڑے دفتروں سے آئے ۔۔سب آزادی کی خوشبو کو محسوس کریں ۔۔اس مٹی پہ فخر کریں ۔تو یہ سب نہ کسی کے سامنے جھک جائیں گے نہ کسی کے اشاروں پر چلیں گے یہ کسی کی خواہش کا احترام کریں گے نہ کسی کو پکاریں گے ۔۔نہ کسی کی مفاد کا تحفظ کریں گے ۔۔یہ سب اس مٹی کے لیے جئیں گے ۔۔اس کے لئے مریں گے ۔۔اسی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کریں گے ۔۔بڈھا اس جھونپڑی کے سامنے کھڑے آنکھیں بند کرکے آزادی کی خوشبو سونکھ رہا تھا ۔۔اور یہ پاک دھرتی آزادی کی خوشبو سے معطر ہو گئی تھی ۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button