کالمز

دیامر ڈیم متاثرین کیلے ایک اچھی خبر

 تحریر۔اسلم چلاسی

پہلی مرتبہ دیامر میں یہ محسوس کیا جا رہا ہکہ صوبای حکومت کم از کم عوام کی درد کے ساتھ ساتھ معاملے کی نزاکت کو بہاپنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ورنہ تو دوچار سال دیامر کے عوام نے ایسے گزار دیے جیسے درندوں کی بستی میں آدم خورو ں کی راج ۔آسمان سر پر مگر دلجوی اور اشک شوی کیلے سواے مایوسی اور بے بسی کے سواء کچھ نہیں تھا۔راج چند انتظامی شہنشاہوں کی تھی،مگر غریب کا بھلی چڑہا ہو ا تھا۔با اثر کی اثر اتنی تھی کہ غریب اور لاچار کا چارہ کار کہا تھا؟اکلوتا کلکٹرصاحب کھبی اسلام آباد کھبی گلگت کھبی چنار تلے کیمپ آفس میں براے جمان رہتے۔در در کی ٹھوکرے کھانے والے غریب بابوں کے رحم کرم پرچیختے چلاتے رہے مگر سنتا کون؟سونہ تانبہ گدھا گوڑا جانے کیا کیا جادوے چھڑیاں گھماے گیے۔گول چکور دایروں میں پٹوار کی سرکارکیا چلی مورخ بھی حیران لکھے تو کیا کیا لکھیں؟سفید چادر پر شیطانی زبان الجھ سلجھ میں جو گیم ہوا وہ تو اس ڈیم کی اصل گیم ہے۔سادح لوح عوام کو ڈبل کا چکمہ ادہر سے ادہر کا اثرہ جانے کیا کیا نہیں ہوا ۔واردات پے واردات نے بنیادی سوچ جزبہ حب الوطنی کو پھیکا کردیا۔تو دوسری طرف ابتداے وعدے وعید سب غبارے کے ہوا ثابت ہوگیے۔واپڈانے جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا ۔اعتماد سازی کے طور پر تعلیمی اداروں کو گود لینے اور صحت کے شعبے میں کچھ اقدامات اٹھانے تھے وہ نہیں اٹھا یا۔محکمہ واپڈامتاثرین کو ترجیحی بنیادوں پرملازمتیں دینے کا پابند تھا مگر مجال ہکہ ایسا ہوتا۔اور نا ہی آبادکاری کے حوالے سے کوی پیش رفت نظر آی ۔جس پر ضلع بھر میں سخت تشویش اور گٹھن محسوس کی جارہی تھی۔لیکن وزیر اعظم کے حالیہ اعلان حوصلہ افزا ہے۔جس میں انہوں نے دیامر کا جلد د ورہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی متاثرین کی آبادکاری کیلے تین ارب روپے فوری جاری کرنے کی نوید بھی سنای۔اس اعلان کے بعد دیامر کے فضا میں موجود بے چینی میں قدرے کمی واقع ہوی ہے اور پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا جارہا ہکہ وفاقی سطح پرمتاثرین کیلے کچھ کیا جانے لگاہے۔ورنا گزشتہ پانچ سالوں کا حکومتی رویہ دیکھا جاے تو ایسا لگتاتھا جیساکہ حکومت عوام پر احسان کر رہی ہے۔حالانکہ یہ ڈیم دیامرکی ضرورت نہیں ہے بلکہ وفاق کی ضرورت ہے۔ہرے بھرے کھیتوں کے آٹھ سے دس لاکھ ریٹس عوام نے نہیں لگاے بلکہ وفاق نے اپنے کارندوں کے زریعے مسلط کی۔سات سال تک گلگت بلتستان کے زمینوں کے ریٹس دس گنا بڑ گیے مگر دیامر کے زمینوں کی احمیت صرف پچیس فیصدرہی۔جس وقت وفاق اور عوام میں ڈیم کے زد میں آنے والے زمینوں کے ریٹس آٹھ سے دس لاکھ طے ہورہے تھے اس وقت گلگت میں زمینوں کی قیمت دو سے تین لاکھ فی کنال تھی۔اور جب متاثرین کو معاوضات کی ادایگی شروع کردیا گیا تو گلگت کے زمینں تیس سے پینتیس لاکھ تک پونچ چکے تھے۔مگر دیامر ڈیم متاثرین کووہی رقم ادا کردی گیی جو مختص تھی۔اب عالم یہ ہکہ ادہر زرعی اراضی آٹھ سے دس لاکھ میں ہتھیا لی گیی مگر اج پہاڑ کے دامن میں بے آب و بنجر ایک قطعہ اراضی تیس لاکھ میں بھی نایاب ہے۔ اونے پونے ریٹس کے ساتھ ساتھ ڈنڈی مار مافیا کے پے در پے واردات کے باوجود بھی ادھر کے حب الوطنی کا یہ عالم ہکہ کوی چو چرا رکارڈ نہیں ہوی۔باوجود اس کے کہ سترہ ہزار ایکڑ عوامی اراضی خالصہ سرکار کہلای۔زمینوں کے ساخت تبدیل کردے گیے ہزاروں کنال اراضیات کو معمولی اسموں کی تبدیلی سے غیر مضروعہ سے بنجربنادیا گیا۔لوٹ مار کا بھی ایک حد ہے اب تو صبر کا پیمانہ لبریز تھا مگر گلگت بلتستان کی صوبای حکومت نے بہتر ترجمانی کرتے ہوے وفاق کو زمینی حقایق سے آگاہ کیا اور پہلی مرتبہ وفاق نے متاثرین کا لفظ استعمال کیا ورنہ تو ابھی تک حکومت کا مقصدصرف دیامر ڈیم رہا ہے ۔خیر دیر آ ید درست آید اب بھی وقت ہے متاثرین کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا جاے یہ تین ارب ناکافی ہیں اس سے ازا لہ ممکن نہیں ہے ۔البتہ یہ ایک اچھی خبرہکہ وفاق کو متاثرین کے قربانی کا احساس ہونے لگا ہے۔اور آنے والے دنوں میں مزید بہتری محسوس کی جا سکتی ہے۔ دیامر ڈیم ملکی استحکام کی ضامن ہے اس کے بنیادوں میں فراڈ دغابازی اور مکروفریب سے کام لیا گیا تو مستقبل میں اچھے نتایج کے امید نہیں رکھے جا سکتے ہیں۔جس قوم نے اپنے صدیوں پر محیط تاریخ اورایک عظیم منضم معاشرے کو ملک و ملت پر قربان کیا اس قوم کی حب الوطنی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔جو قربانی اس ملک کے باقاعدہ شہری نہ دے سکے وہ قر بانی دیامر کے مفلوج الحال قوم نے دیکر پاکستان سے اپنی گہری ایمانی وابستگی کا ثبوت دیا ہے۔ورنا آپ کے دو چار کوڑیوں کا حساب تو واضح ہے کچھ مضاربہ سیکنڈل کا نام ہوا۔کچھ پٹوار کی سرکار ہڑپ کر گیی۔آج عالم یہ ہکہ بڑے بڑے جاگیر دار مرلوں پر مشتمل مکانوں میں سسٹم کے منہ پر طماچہ بنے ہیں۔اتنا بڑا پروجیکٹ جس میں پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو چند لوگوں کے ہاتھوں میں دیکر بہتر نتایج کی امید کھوتا سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اگر واقع یہ ملکی نوعیت کا منصوبہ ہے اور وفاق اس منصوبے کی تعمیر میں سنجیدہ ہے تو اپنے سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور ساتھ ہی کفارہ کی ادایگی بھی کرے۔جو لوگ اس لولے لنگڑے سسٹم کے شکار رہے ہیں ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے تاکہ آیندہ ملک کے نام پر قربانی کسی قوم سے لینی ہو تو بہ آسانی لی جا سکے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button