کالمز

بچوں کی سزا اور تشدد میں فرق

تحریر: جاوید حیات

ایک مہینے کی چھٹی کے بعد سکول کھلا۔۔سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی شکیل استاد کے سامنے آتا ہے ۔معصوم اجلا اجلا چہرہ،آنکھوں میں چمک،پیارے پیارے ہاتھ ، کپڑے صاف ،جوتے نئے ۔۔سلام سر !ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے ۔۔استاد وہ ہاتھ اٹھا کر چوم لیتا ہے ۔۔خود جھک کر اس کو سینے سے لگا تا ہے شکیل دوسری جماعت میں پڑھتا ہے ۔۔۔پھر ادھر ادھر سے سلام سر کی آوازیں آتی ہیں استاد باری باری سب کو گلے سے لگا تا ہے ۔۔

’’سر ! دس دن بہت ہوتے ہیں ۔پشاور کیا گئے ہمارے سینوں سے دل ،آنکھوں سے روشنی ،ذہنوں سے دلچسپی ،ہونٹوں سے مسکراہٹ اور چہرے سے خوشی تک غائب ہو گئی ‘‘۔۔نویں جماعت کی پروین جو مجبورا مردانہ سکول میں پڑھتی ہیں اپنے سر کے سامنے سراپا سوال تھیں ۔وہ استاد کے ہاتھ چومنے کے لئے سر جھکائی تو استاد نے کہا ۔۔پروین ! سر مت جھکا بیٹا! سر ایک سیکنڈ کے لئے اپنے سر کے دل پہ سر رکھو اور دھڑکن سنو کہ استاد کا پاکیزہ دل اپنے شاگرد کے لئے کس طرح دھڑکتا ہے ۔۔پروین ! تم لوگ میری زندگی ہو ۔۔۔پروین کی آنکھوں سے احترام کے دو موٹے موٹے آنسو گرتے ہیں ۔اور خود اس کے دوپٹے میں جذب ہو جاتے ہیں ۔۔۔احترام کی یہ دنیا تعلیم و تعلم اور تربیت کی دنیا کہلاتی ہے ۔۔اس دنیا میں استاد کی آنکھوں میں بچہ پھول اور شاگرد کی آنکھو ں میں استاد باغبان ،استاد کی آنکھوں میں بچے ستارے اور بچوں کی آنکھوں میں استاد چاند نظر آتا ہے ۔۔اسی کا نام سچا پیار ہے جو شکیل کو استاد کی طرف کھینچتا ہے ۔شکیل کے دل میں استاد کا گھر بساتا ہے ۔۔پروین کی دنیا اس کا استاد ہے ۔۔اس کی آنکھوں میں کوئی جچتا ہی نہیں ۔۔یہی پروین قوم کی بیٹی ہے ۔غیرت قوم کی غیرت مند بیٹی ۔۔یہی قوم کی ماں ہے ،یہی قوم کی بہن ہے اس کو اس قابل بنانا ہے کہ قوم اس پر فخر کرے ۔۔۔اس شکیل کو ہر برائی سے دور رکھنا ہے ۔۔بہت دور ۔۔اس کی تربیت کرنی ہے ۔۔اس کو شیر بنانا ہے ۔۔اس پر نظر رکھنی ہے ۔۔وہ کہیں بے ترتیب نہ ہو جائے ۔۔وہ کہیں خدانخواستہ کسی کو گالی نہ دے ۔۔وہ کسی ساتھی کی کتاب نہ پھاڑے ۔۔وہ کہیں جھوٹ نہ بولے ۔۔جھوٹی قسم نہ کھائے ۔۔اپنے کپڑے گندھا نہ کرے ۔۔اس کو تربیت کی آگ میں ڈالنا ہے ۔۔پروین کو بھی اسی طرح تربیت کی آگ میں ڈالنا ہے ۔۔پھر آگے وہ کندن بن جائے گی ۔۔تربیت کے اس مرحلے میں ضروری ہے کہ وہ استاد کے غصے سے خوف کھائے اور اس کے پیار میں جل جائے ۔۔استاد کو اپنے دل میں اپنی آنکھوں میں بسا لے ۔۔تربیت کے اس کھٹن مرحلے میں کب پیار کی اور کب مار کی ضرورت پڑتی ہے یہ استاد کو پتہ ہے ۔۔فزکس یاد کرنے سے انسانیت کی تربیت نہیں ہوتی ۔۔انگریزی گرائمر یاد کرنے سے بڑوں کے ادب کی ٹرینگ نہیں ہوتی ۔۔اردو کے شعر یاد کرنے سے اپنے لباس ،تہذیب و تمدن اور اچھے اخلاق و کردار پر پورا نہیں اترا جاسکتا ۔۔ریاضی کے سوال یاد کرنے سے سچ بولنے کی تربیت نہیں ہوتی ۔۔۔اس لئے اول تربیت ہے پھر تعلیم جو ہنر کہلاتی ہے ۔۔امت مسلم کی پہلی تربیت ہوئی پھر تعلیم ساتھ ساتھ ۔۔فخر موجوداتﷺ نے گھر میں چابک لٹکانے کو کہا خود رحمت اللعالمین تھے ۔۔بچوں کی تربیت کا مرحلہ کھٹن ہے ۔۔آج کل مار اور پیار پر بڑے ڈیبیٹ ہورہے ہیں ۔۔تربیت کے مرحلے میں حد کے اندر سزا ناگزیر ہے ۔۔ایک بچے کو معا شرے کے لئے اور پوری انسانیت کے لیے مفید بنانا ہے ۔۔ایک پرامن اور محب وطن شہری بنانا ہے ۔۔مگر ہم آنکھیں بند کرکے اغیار کو دیکھ رہے ہیں ۔۔یور پ کو قبلہ سمجھ رہے ہیں ۔وہاں پیار کا تصور حیوانیت ہے ۔۔بچہ ماں باپ کا احترام کھو چکا ہے ۔۔استاد کا احترام یوں ہے کہ ہمارے یہاں کا ایک ماہر تعلیم یورپ کے دورے سے واپس آیا تو روداد سنایا ۔۔فرمایا کہ ایک سکول کے دورے پر تھا کہ ایک کلاس روم میں داخل ہوا تو استانی نے میرا تعارف کراتی ہوئی کہا کہ یہ پاکستان سے آیا ہوا ہمارا مہمان ہے ۔۔اتنے میں ایک لڑکی نے کھڑی ہو کر کہا۔۔میم یہ تمہارا شوہر تو نہیں ۔۔ہما را ماہر تعلیم بھی بڑا متاثر ہو کر کہ رہا تھا کہ وہاں کے بچے اتنے بولڈ ہیں ۔۔میں نے نہایت ادب سے کہا ۔۔اکس کیوز می سر !ہمارے ہاں اس کو بد تمیزی کہتے ہیں ہماری تہذیب میں اس کی گنجائش نہیں ان کا بولڈنس ان کو مبارک ہو ۔۔ہمارے ہاں تعلیم اعلیٰ تربیت کو کہتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔۔آج کل تعلیمی اداروں میں سزا پر پابندی ہے اس کوظلم کہا جاتا ہے ۔۔ڈاکٹر مریض کے جسم کا وہ ٹکڑا کاٹ کر پھینک دیتا ہے جو کینسرزدہ ہے نقصان دہ ہے وہ تازہ حصہ کاٹ کر تو نہیں پھینک دیتا ۔۔۔کیا ڈاکٹر کو ظالم کہا جائے گا ۔۔استاد بھی شاگرد کی ذات سے برائی نوچ کر پھینک دیتا ہے ۔۔اس کے لئے اس کو سزا دینا ہی کیوں نہ پڑے ۔۔دہشت اور بربریت اور چیز ہے ۔۔آئے دن خبر آتی ہے کہ بچے کی ٹانگ توڑی گئی ۔بچے کا بازو توڑا گیا جسم پر تشدد کے نشان ہیں ۔۔یہ وخشت ہے بربریت ہے ۔ظلم ہے مگر بچے کو برائی سے روکنے کے لئے اس کو ڈرانا ظلم نہیں انصاف ہے ۔۔آج تعلیمی اداروں میں بچے شتر بے مہار ہوتے جارہے ہیں ۔۔استاد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔ایک بے ہنگم شور ہے ایک بے ربط اجتماع ہے ۔۔تربیت کا فقدان ہے ۔۔یہ ’’پیار‘‘ کے نام نہاد عالم برداری ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں ۔۔یہ قوم بکھر جائے گی ۔۔تربیت میں سختی لازم ہے اس کا ثبوت فوجی اور پولیس اکیڈمیوں میں مثالی برداشت اور ڈسپلن کا ماحول ہے ایسے ہی ماحول میں تربیت اپنا جوہر دیکھاتی ہے ۔۔تب ڈسپلن چمکتی ہے ۔۔یہی ڈسپلن سکولوں میں سختی سے قائم کی جائے تب ایک مہذب قوم جنم لیتی ہے ۔۔تربیت کے لحاظ سے استاد کا کردار بہت اہم ہے ۔۔اس کو مجبور نہ کیا جائے وہ خود ’’پیار‘‘ اور’’ مار‘‘ میں فرق کر سکتا ہے ۔۔اسے پیار کے تقاضوں کا بڑا تجربہ ہے ۔۔اس کو بہانہ ڈھونڈنے کا موقع نہ دیا جائے ۔۔لیکن ان اساتذہ پر یقیناًنظر رکھی جائے جنکے برے سلوک سے بچے تعلیم تک چھوڑ جاتے ہیں وہ قابل معافی نہیں ہیں ۔۔مگر جس کے دل میں خلوص ہے اس کی تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button