کالمز

نیب کا قانون 

سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ نیب رضا کارانہ واپسی کے قانون کا استعمال نہیں کر سکتا یہ غلط قانون ہے سپریم کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ کسی غلط قانون کو کا لعدم قرار دے اس پر واویلا مچا یا جا رہا ہے شور قیامت بر پا ہے مگر یہ شور عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے سنائی نہیں دیتا نیشنل اکاونٹیبلیٹی بیورو (نیب ) کا قیام 2000ء میں عمل میں آیا یہ انٹی کرپشن کے محکمے کی طرح کا نیا محکمہ تھا اس کے دو قوانین نئے تھے ایک قانون یہ تھا کہ ملزم کو 90دنوں کیلئے بلا تحقیق جیل میں ڈالا جائے گا اور پوچھ گچھم کے دوران ملزم کے خلاف ثبوت پیش کرنے کے بجائے ملزم سے اس کی بے گناہی کے ثبوت مانگے جائینگے دوسرا قانون یہ تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد اسکو اختیار دیا جائے گا کہ وہ قانون کا سامنا کرکے مقدمہ لڑنا چاہتا ہے یا غبن کی گئی رقم میں سے اپنی مرضی سے رضاکارانہ طور پر کچھ رقم واپس کر کے با عزت بری ہونا چاہتا ہے انگریزی میں اس قانو ن کا نام ’’پلی بارگین ‘‘(Plea bargain) یعنی سودا بازی کی درخواست ہے 16سال پہلے جب یہ قانو ن بنا اس وقت اس کا پہلا نشانہ سیاستدان تھے مخالف پارٹیوں کے سیاستدانوں کو نیب کی طرف سے تنگ کر کے بلیک میلنگ کے ذریعے حکومت کے کیمپ میں داخل کرنا اس کا پہلا مقصد تھا حکومت کے کیمپ میںآنے والوں کو ’’ہم خیا ل ‘‘کا نام دیا جاتا تھا پھر بعض بیورکریٹ بھی اس کی زد میں آگئے نیوی کا سابق سربراہ بھی اس قانون کی زد میں آیا پلی بارگین کے قانون میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی کہ رضا کارانہ واپسی کے ذریعے آنی والی رقم کا 50فیصد سرکاری خزانے میں جائے گا بقیہ 50فیصد نیب کے ا کاونٹ میں داخل ہوگا اس قانون کے تحت 7ارب روپے غبن کرنے والا ملزم 87کرروڑ روپے جمع کرکے 6 ارب13کروڑ اپنی جیب میں ڈال کر باعزت بری ہوگیا 80کروڑ روپے غبن کرنے والا 16کروڑ روپے ادا کر کے 64کروڑ روپے لیکر باعزت بری ہوگیا یہ لوگ واپس اپنے سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے ممبر بن گئے وفاقی اور صوبائی وزارتوں پر فائز ہوئے ان میں سے بعض خوش نصیب وزیر اعلیٰ بن گئے اس وجہ سے نیب کو وکلا ء اور ججوں نے دھوبی گھاٹ کا نام دیا جہاں کرپٹ لوگوں کو دھلا کر استری کر کے باہر لایا جاتا ہے اس طرح اخبارات اور دیگر الیکڑانک میڈیا میں ’’نیب زدہ سیاستدانوں ‘‘کی اصطلاح بھی عام ہوئی سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا گیا ہے کہ پلی بارگین کا قانون کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کرپٹ لوگوں کو معاشرے میں باعزت مقام دیتا ہے اس طرح کرپشن کا ناسور پھیلتا ہے سپریم کورٹ نے اپنے حکم کے ذریعے نیب کو فوری طور پر پلی بارگین سے منع کر دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ 2000 سے اب تک 16سالوں میں جتنے لوگ اس قانون کے تحت باعزت بری ہو چکے ہیں ان کی فہر ست عدالت کے سامنے پیش کی جائے اس طرح جنر ل مشرف کا بنایا ہوا ایک اور ادارہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اس سے پہلے نیشنل ری کنسڑکشن بیورو کا کام تما م ہو اتھا اس کا مختصر نام این آر بی تھا جنرل تنویر حسین نقوی اور دانیال عزیز کو جنرل مشرف نے این آر بی کے ذریعے سول بیورو کریسی کو توڑنے کا کا م سونپ دیا تھا سول بیورو کریسی کو توڑنے اورضلعی انتظامیہ کے اختیارات ختم کرنے کی وجہ سے دہشت گردی کا ناسور پھیل گیا بد انتظامی عام ہوگئی ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،گران فروشی ،چوری بازاری کو فروغ ملا اور لاقانونیت کا بازار گرم ہو ا اس لئے بڑی تباہی اور بر بادی کے بعد پرانا قانون واپس لایا گیا مجسٹریسی نظام کو بحال کیا گیا انتظامیہ کو اختیارات دیدے گئے سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے نے نیب کے قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات بحال ہوگئے تو نیب خود بخود ختم ہو جائے گا ایک اور سفید ہاتھی مر جائے گا مشرف دور میں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے نام سے بھی ایسے ادارے بنائے گئے تھے جن کا مطلب بعض دوستوں کو بڑے عہدے دینے کے سوا کچھ نہیں تھا قدرتی آفات کی صورت میں ڈپٹی کمشنر اور صوبائی حکومت کے پاس جو اختیارات تھے وہ اختیارات واپس لیکر اسلام آباد میں ایک شخص کو دیدیے گئے ریلیف کا جو کام تین گھنٹوں میں ہوتا تھا اب وہ تین مہینے لیتا ہے ری کنسڑکشن کے جس کام میں پہلے 7مہینے لگتے تھے اب اس کام میں 7سال لگتے ہیں بالاکوٹ کا نیا شہر این ڈی ایم اے کی وجہ سے 11سالوں میں بھی نہیں بنا سپریم کورٹ کی توجہ اگر این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے طریقہ واردات کی طرف مبذول ہوئی تو آفت زدہ عوام کی بحالی میں مدد ملے گی ہمارے ہاں نئے ادارے نیک نیتی سے نہیں بنائے جاتے بد نیتی سے بنائے جاتے ہیں ان اداروں پر وہ کہانی صادق آتی ہے جو بادشاہ کے گھوڑے کی مشہور اور گھسی پٹی کہانی ہے بادشاہ نے محسوس کیا کہ اس کا گھوڑا لاغر اور کمزور ہو رہا ہے اس نے سائیس پر شک کیا اور داروغہ مقرر کیا کچھ عرصہ بعد گھوڑا مزید لاغر ہوا بادشاہ نے داروغہ پر بھی شک کیا ور محتسب مقرر کیا کچھ عرصہ بعد گھوڑا مزید لاغر ہو کر مرگیا بادشاہ نے تحقیق کروائی تو پتہ لگا کہ 200درہم کا ماہانہ خرچہ مقرر تھا سائیس اس میں سے 50درہم چراتا تھا داروغہ نے کہا 50درہم مجھے دیدو ،محتسب نے کہا 50درہم مجھے دیدو اس طرح گھوڑے کے حصے میں 50درہم رہ گئے جو اس کا توشہ آخرت بننے کے لئے کافی تھے چنانچہ گھوڑا چل بسا نیب کی حیثیت بھی داروغہ اور محتسب کی سی ہوکر رہ گئی تھی اس کو دھوبی گھاٹ کہنا بے جا نہیں تھا سپریم کورٹ نے اگر چہ دیر کر دی ہے مگر درست فیصلہ کیا ہے اب دیکھا جائے گا کہ نیب زدہ لوگوں کی فہرست میں کن کن پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button