کالمز

بزرگ شہریوں کے حقوق

سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ایک طرف حکومتی ذمہ داران اور سیاسی جماعتیں کاغذوں کے ذریعے اپنے آپ کو عوامی حقوق کا علمبردار قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکروں میں سر گرداں ہیں تو دوسری طرف عوام کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق کا رونا رائے ۔حاضر سروس ملازمین ہوں یا ریٹائرڈ حضرات، مرد ہوں یا خواتین،بچے ہوں یا بوڑھے سبھی اپنے آپ کو حقوق سے محروم سمجھتے ہوئے حاکم وقت سے اپنے جائز حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں اور حقوق کے حصول کے لئے سب نے اجتماعی تنظیموں کے ذریعے آواز بلند کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ65سال سے ایک علاقہ خود تمام تر حقوق سے محروم چلا آتا ہو تو وہ عوام کو کیا حقوق دے گا۔گزشتہ ہفتے عالمی یوم صحت کے حوالے سے ایک مقامی ہوٹل میں بزرگ شہریوں کے حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران میرے ایک مہربان نے گزارش کی تھی کہ ہمیں اپنے قلم کے ذریعے بزرگ شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ تحریر کرنا چاہیے۔اس تقریب میں گلگت شہر کے انتہائی بزرگ مرد و خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اور اپنے ہم عمر افراد سے گفتگو کے دوران سب کے چہرے کھلتے اور مسکراتے نظر آرہے تھے ۔

SAFDAR ALI SAFDARتقریب کے شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت اور سماجی بہبود کے ادارے معاشرے کے تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کے لئے تو کوششیں کر رہے ہیں لیکن بزرگ شہریوں کو ہر طرف سے نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان میں احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔تقریب کے دوران معلوم ہوا کہ ایک سماجی ادارے کے توسط سے گزشتہ برس بزرگ شہریوں کے حقوق اور ان کی عزت و احترام سے متعلق نئی نسل کو شعور و اگاہی دینے کی غرض سے ایج ڈیمانڈایکشن کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جسکی صدارت کی ذمہ داری معروف بزرگ سماجی شخصیت اور ہلال احمر گلگت بلتستان کے چےئرمین جناب آصف حسین کو سونپی گئی ہے۔ بلاشبہ آصف حسین کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خداد صلاحیتوں سے نوازا ہے اور ان صلاحیتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے انہوں نے گلگت بلتستان میں سماجی و معاشرتی ترقی کے حوالے سے بھی گران قدر خدمات سر انجام دئیے ہیں ۔اس وقت بھی وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کئی اہم اداروں کے لئے اپنی رضاکارانہ خدمات وقف کئے ہوئے ہیں۔

بزرگ شہریوں کے حقوق کی تنظیم کے صدر کی حیثیت سے اپنے خطاب میںآصف حسین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں آج تک بزرگ شہریوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جن میں پنشن کا حصول، ہسپتالوں میں امتیازی سلوک، سستی اور آرام دہ سفری سہولیات کا فقدان اور سیرو تفریح کے مواقعوں کی عدم دستیابی سر فہرست ہیں ۔اس تقریب میں ممبر قانون ساز اسمبلی و پارلیمانی سیکرٹری ورکس محترمہ یاسمین نظر بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرما تھیں جنہوں نے اپنے خطاب میں گزشتہ برس اپنے دورہ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں بزرگ شہریوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا جا تا ہے اور بزرگوں کفالت کی ذمہ داری حکومت ایک اہم فریضہ کے طور پر ادا کر رہی ہے۔جبکہ امریکی عوام بھی بزرگوں کو انتہائی قدر اوراحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔لیکن ہمارے پاس بزرگوں کی عزت و احترام کے حوالے سے قدیم روایات اور اسلا می تعلیمات موجود ہونے کے باوجود بھی ہم اپنے بزرگوں کا اس قدر خیال نہیں رکھتے جو ان کا حق اور ہمارا فرض بنتا ہے۔انہوں نے اس موقع پر بزرگ شہریوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کے لئے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان میں خصوصی بل بھی پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔

لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد عملدرآمد کون کرائے گا؟یہ بہت بڑا سولیہ نشان ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومت کے تین سالہ دور میں 24 نکات پر کاغذی قانون سازی تو کی گئی ہے لیکن بد قسمتی سے عملی طور پر ان قوانین پر کہی بھی عملدرآمد ہو تا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔لہذا میری ناقص رائے کے مطابق بزرگ شہریوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی سے بھی بزرگوں کی عزت و احترام سے متعلق نئی نسل کو شعور و اگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جہاں ہماری نوجوان نسل اخلاقی گراوٹ کا شکارہورہی ہے وہی پر ہم اپنے قدیم علاقائی روایت سے بھی دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں نت نئی مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button