کالمز

میرے لئے سر سید احمد خان

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر چلا س نانگا پربت کے دامن میں ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں بونر ہے .اس گاؤں میں امن و محبت اور خوشیوں کی بہاریں تھیں گاوں کے سب لوگ ایک دوسرے کے دکھوں اور خوشیوں میں شریک ہونا اپنا فریضہ تصور کرتے تھے.خو شیوں اور محبتوں سے مالا مال اس گاؤں میں کوئی نعمت اگرنہ تھی تو وہ علم کی نعمت نہ تھی .اچانک ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس نے تاریخ بدل دی.گاؤں میں کسی اور علاقے سے ایک مہمان کی آمد ہوتی ہے، مہمان کے اعزاز میں محفل سجتی ہے محفل کی صدارت گاوں کے سر پنج کر رہے تھے . محفل میں مہمان نے ایک ایسا سوال کر دیا جو گاؤں والوں کے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن میرے بابا شاید اس سوال کی اہمیت سے آگاہ تھے.مہمان نے سوال کیا کہ اس گاؤں میں سکول کتنے ہیں اس پر محفل کو سانپ سونگھ گیا ماحول کو با نپتے ہوئے سر پنج نے جو جواب دیا یہی وہ جواب تھا جس نے میرے بابا کو انقلابی بنا دیا .سر پنج نے کہا کہ ہم گاؤں میں سکول بننے نہیں دیتے ہیں اس کہ وجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب،حکمران اور رعا یا کا فرق ختم ہو جاتا ہے .سرپنج کے جواب نے اور کسی کے سر پر ہتھوڑے برسائے یا نہیں لیکن میرے بابا کو اس جواب نے گاؤں کی روایات کا باغی ضرور بنا دیا محفل سے آٹھ کر گھر آئے اور اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں نے اپنے خاندان اور گاؤں کے لوگوں میں علم کی روشنی عام کر نی ہے .بس پھرکیا تھا خاندان میں ہی بابا کے خیالات کو مسترد کر دیا گیا .بابانے اس صورتحال میں ایک اور فیصلہ کیا کیوں نہ اس گاؤں سے ہجرت کروں اور جتنے میرے وسائل ہیں ان کے مطابق اپنے خاندان اور علاقے کے بچوں کو دوسرے کسی علاقے میں لے جا کر تعلیم حاصل کراوں . چنانچہ میرے بابا اپنی دھن کے پکے تھے جو عہد کرتے پورا کرتے بابا نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استور کا رخ کیا وہاں میرے دادا محترم حاجی عبد الغفور پہلے سے پاک فوج میں صوبیدار کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے انہوں نے میرے بابا کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں بھر پور ساتھ دیا.اس وقت بابا خود صاحب اولاد نہیں بنے تھے تو علم کی شمع جلانے کی ابتدا اپنے چچا زاد بھائی احمد خان سے کی اور انہیں کاندھوں پر اٹھا کر بونر سے استور کا سفر پیدل طے کیا۔

چچا زاد بھائی کو استور کے سکول میں داخل کر کے دوبارہ بونر آئے خاندان کے دوسروں بچوں کو بھی اسی طرح کاندھوں پر اٹھا کر باری باری پیدل سفر طے کرتے رہے میرے بابا کے اس پیدل سفر کی ہی کرامات ہیں کہ ہم علم کی روشنیوں سے مستفید ہو رہے ہیں .اگر وہ پیدل سفر نہ کرتے تو شاید میرے سمیت میرا خاندان عقل و شعور سے ہی پیدل ہوتا .یہ شاید 1985کا سن ہوگا اس وقت میری عمر چھ برس ہوگی استور میں لے جا کر سکول میں داخل کرا دیا گیا مجھ سے پہلے بابا نے خاندان آور گاؤں کے بہت سارے بچوں کو سکول میں داخل کرا دیا تھا یوں جہا لت سے علم کی طرف ہمارے جس سفر کا آغاز میرے بابا کی قیادت میں ہوا تھا وہ سفر آج بھی جاری ہے.میرے بابا ب بھی اگر سرپنج کے جواب کو خاموشی سے ہضم کرتے تو شاید میرے ہاتھ میں آج قلم نہیں بانسری اور بندوق ہوتی اور بونر کی کسی چرا گاہ میں بکریاں چراتا،کیوں کہ میرے گاؤں میں آج بھی اس کے علاوہ کوئی روزگار نہیں .میرے با با نے جس روشن تحریک کا آغاز کیا تھا وہ تحریک جاری ہے بابا کا خواب تھا کہ بونر کا ہر بچہ اور بچی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو بابا کی زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ 22 اگست 2013 کو سفر آخرت پر روانہ ہوئے .بابا میں وعدہ کرتا ہوں جو خواب آپ نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کے لئے آپ پوری زندگی جدو جہد کرتے رہے اس خواب میں رنگ بھر نے اورآپ کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھنے کے لئے کوششیں کرتے رہیں گے،،.میرے بابا ٹھیکیدار غلام جان نے خودکھبی سکول کا رخ بھی نہیں کیا تھا اور ایک دن بھی سکول میں نہیں پڑھاتھا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کی نشست و بر خاست انداز گفتگو اور زندگی کے طور اطوار اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قدرت نے انہیں ابتدا سے ہی علم کی دولت سے سرفراز کیا ہے.علم سے ان کی دوستی کا اندازہ کیجئے کہ بونر سے جب استور گئے تو دیکھا کہ وہاں اخبار نہیں ملتے تو انہوں استور میں پہلی دفعہ اخبارات کی ایجنسی لی اور پاکستان کے بڑے اخبارات اور رسائل منگوا کر علم کو عام کیا.اہل علم افراد کی بیٹھک ہی بابا کے ساتھ ہوتی تھی

اخبار اور کتابوں کا مطالعہ خوب کرتے۔ ہمیشہ ہمیں سچ بولنے اور انسانیت کی بلا تفریق خدمت کا درس دیتے۔ بابا کی دوستی کی بھی مثالیں دی جاتی ہیں دوستوں سے وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی .ان کے حلقہ احباب بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ سچائی.وفاداری اور ایمانداری ان کی زندگی کے لازمی جز تھے.ان کا دستر خوان ان کی پوری زندگی میں مہمانوں کے لئے کھلا رہا جس دن کوئی مہمان دستر خوان پر نہ ہو کھانا دل سے نہیں کھاتے.میں کہتا بابا کھانا کھاؤ تو کہتے بیٹے آج مہمان نہیں کھانے کا دل نہیں کرتا. .بس بابا کی اگر کوئی حسرت تھی تو وہ یہ کہ ہمارے علاقے میں جہالت کی جگہ علم کی روشنیاں لے لیں .بابا آپ کے جانے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ننگے سر تپتی دھوپ میں کھڑا ہوں سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بٹک رہا ہوں لیکن باپ کے سائے کی چھاوں میرے مقدر میں نہیں .بابا آپ کی جب یاد آتی ہے تو بس میں اللہ سے التجا کرتا ہوں کہ رب کریم مجھے اتنی ہمت اور وسائل مہیا کر کہ اپنے بابے کا خواب جو انہوں نے علم کی روشنیوں سے بونر کو روشن کرنے کا دیکھا تھا اس کی تعبیر کر سکوں .بابا آپ جیسے عظیم لوگ کھبی مرتے نہیں صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہو کر دلوں میں بسیرا کرتے ہیں سو آپ بھی زندہ ہیں اپنے کردار کی عظمت کی بدولت.بابا میرے لئے سرسید احمد خان،ہیرو اور محسن تو آپ ہیں آپ کی ہی محبتوں اورکو ششوں کی بدولت آج میرے ہاتھ میں قلم ہے آپ نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشن دنیا کے باسی بنا دیا آج اگر ہمارے خاندان اور علاقے کے بچے علم حاصل کر رہے ہیں تو یہ شمع ہی آپ نے جلائی تھی.ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اپنے سایہ رحمت میں جگہ عطا فر مائے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button