کالمز
سی پیک۔۔۔گیم چینجر۔۔۔؟؟؟
احمد سلیم سلیمی
پچھلے چند سالوں سےCPECکازبردست چرچا رہا ہے۔ہر طرح کے میڈیا پہ اس سے متعلق خبریں،بیانات اور تجزیے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ جتنا جتنا اس کا تذکرہ بڑھتا رہا۔۔۔اس کے معاشی اور سماجی ثمرات کے کئی پہلو واضح ہوتے گئے ساتھ ہی ابہام،خدشات اور بدگمانیاں بھی جنم لیتی رہیں۔
یہ ایک فاسٹ میڈیا کا دور ہے۔کوئی بات سامنے آتی ہے تو بہت تیزی سے دیکھنے،سننے اور پڑھنے والوں تک پہنچ جاتی ہے۔مگر ایک غضب بھی ساتھ شامل ہوتا ہے۔بے لگام نیوزچینلز،سوشل میڈیا کی بے ہنگم آزادی،متعدد اخبارات و رسائل اور پھر سیاسی بقراطوں کی دانش کی خراد پہ چڑھ کر اس کی صورت کئی رنگ بدل لیتی ہے۔یوں اصل بات کہیں سو پردوں کے پیچھے سر پٹخ رہی ہوتی ہے۔مگر میڈیا کی جادو نگری میں اس کا روپ بہروپ کچھ اور نظر آتا ہے۔ایسے میں اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی کنفیوز ہو جاتے ہیں۔
CPECکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔پاکستان کے صد رنگ میڈیا نے اورہر طبقے کے جغادری دانشوروں نے اس اہم اور عظیم منصوبے کو اپنی اپنی اپروچ، اپنے اپنے مفاداور اپنے اپنے نکتہ نظر کے آئینے میں دیکھا اور اپنی پسند نا پسند کے مطابق اس کی صورت گری کی۔ایسے میں اس کا حقیقی چہرہ کہیں چھپ گیا۔اور ایک روپ بہروپ میڈیا کی سکرین پر نظر آتا رہا۔اس طرح قوموں کی زندگی کے لیے Life lineکی حیثیت رکھنے والے ایسے پروجیکٹ کی ہمہ گیرافادیت پرشکوک و شبہات کے سائے لہرانے لگے۔
لیکن بھلا ہو حکومتی اور عسکری قیادت کا کہ اس عظیم منصوبے کو تادیر ابہام اور بے یقینی کا شکار ہونے سے بچایا۔پہلے اسلام آباد میں اور اس کے دو ہی دن بعد۱۳ اگست اور یکم ستمبر۶۱۰۲ کو گلگت میں ایک شاندار اور ہمہ جہت کا نفرنس کا انعقاد کر کے CPEC کی ہانڈی میں یقین اور عمل کا تڑکا لگا دیا۔پھر نومبر ۶۱۰۲ کے دوسرے ہفتے میں چین سے دو سو کے قریب کنٹینرز شاہ راہِ قراقرم سے گزر کر گوادر پہنچ گئے اور ۳۱ نومبر کو عالمی منڈی کے لیے سی پیک ایک عملی حقیقت بن گیا اور اس خطے کے لیے ایک روشن مستقبل کاپیش خیمہ…..
پاکستان ترقی کرتی ہوئی دنیا کے مقابلے میں ابھی کوسوں پیچھے ہے۔اگر سر اٹھا کے وقار سے جینا ہے تو آگے بڑھنا ہو گا۔ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ہم قدم چلنا ہو گا۔اور CPECایک ایسا ہی عظیم ترقی کا ذریعہ ہے جو ہمارے آنے والے دور کو خوشحال اور آسودہ بنا سکتا ہے۔گوادر سے گلگت تک پورا ملک اسے اپنا روشن مستقبل سمجھتا ہے۔کوئی بھی جماعت، وہ چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،اس کی مخالف نہیں۔طریقہ کار اور منصوبہ بندی پہ اختلافات ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شدت ختم ہوتی جائے گی۔۔۔۔
CPECکی کامیابی اور اس کے مفید اثرات سے استفادے کے لیے لازم ہے کہ پوری قوم یک سُو ہو جائے۔بے جا اندیشوں اور بدگمانیوں کی جڑیں زیادہ پھیلنے نا دیں بلکہ آنے والے دور کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے خود کو تعلیم،ہنر اور موثّر صلاحیتوں کا حامل بنادیں۔۔۔
”آزادی کے بعد سے اس ملک کی روایت رہی ہے کہ اکثر ترقی کے بڑے بڑے مواقع سیاسی مصلحت،پیشہ ورانہ بددیانتی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر ضائع ہو گئے ہیں۔ایک طرح سے ”ترقی کے کیچز“ ڈراپ کرتے رہے ہیں۔CPEC بھی ایک اہم اور فیصلہ کن کیچ ہے۔اپنی اہمیت اور خطے پر اثرات کی بدولت یہ فٹبال جتنا بڑا ہے۔اگر اسے بھی گرا دیا تو پھر کئی دہائیوں تک کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے۔اس کے بعد دنیا کے اکھاڑے میں کھڑے بھی نہیں رہ سکیں گے۔سب ہمیں ٹھوکریں مارتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔۔۔
دنیا اس وقت بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ان سے آگے بڑھنے کی ہم میں صلاحیت ہے۔بس شرط یہ ہے ان کی ترقی کا راز جان لیں۔ چند اصول ہیں،اور رویے ہیں جن سے ملک ترقی کرتے ہیں۔پہلا یہ کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔جو طاقت والا اور اختیار والا ہے اسے احتساب کا ڈر ہو۔قوم و ملک کی ترقی کا پر خلوص جذبہ ہو۔دوسری چیز سماجی طبقوں میں وحدتِ فکر اور وحدتِ عمل ہو۔یعنی قوم کے رویے اور ترجیحات ایک ہوں۔
تیسری اہم بات نوجوانوں میں شعور ہو۔جذباتی نعروں اورہیجان خیز تقریروں سے بہکنے اور بھٹکنے والے نہ ہوں۔بلکہ ایک زندہ اور تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔
یہ المیہ ہے کہ اس ملک میں آزادی سے اب تک جتنا ان باتوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے اتنا ہی یہ ان کی تشکیل پزیری سے محروم رہا ہے۔جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کی بجائے ترقی معکوس کا شکاررہے ہیں۔
ماضی میں ہماری معیشت کوریا،انڈیا اور سری لنکا سے مضبوط تھی۔مگر اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے ہے۔اس کی بنیادی وجوہات میں جہاں اور باتیں ہیں وہاں سیاسی عدم استحکام،قومی مفاد کے منصوبوں میں سیاست گردی اور ترقی کے بڑے بڑے مواقع کو ذاتی مفادات کی سولی چڑھا کر اسے متنازعہ بنانا،عوام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے،ان کی اجتماعیت کی ہوا نکال کے اپنے اقتدار اور اختیار کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنا۔اور سب سے بڑھ کر اس ملک کی باصلاحیت اور انقلاب پرور نوجوان نسل کو سیاسی اور مذہبی معاملات میں الجھا کر ان کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا بھی شامل ہیں۔
CPEC صرف موجودہ حکومت کا منصوبہ نہیں۔۴۱۰۲ سے ۰۳۰۲ تک یہ منصوبہ جاری رہنے والا ہے۔اس دوران پاکستان میں تین سے زیادہ حکومتیں قائم ہونے والی ہیں۔اس لیے اسے محض ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا منصوبہ سمجھنا چاہئے۔جس طر ح ایٹم بم بھٹو دور میں شروع ہو کر نواز شریف کے گزشتہ دور تک کامیابی سے سفر طے کرتا رہا۔اور اب پاکستان کی سالمیت اور انڈیا جیسے فتنہ پرور ملک کے خلاف ایک موثر دفاعی طاقت ہے۔اسی طرح سی پیک بھی ایک روشن مستقبل کے لیے نہایت اہم ذریعہ ہے۔ اگر اسے آج سے ہی یک جہتی،عزم اور دانشمندی سے عملی شکل دے دیں تو مکمل ہونے تک یہ گوادر سے گلگت تک پورے ملک کی معاشی اور سماجی حالت بدل دے گا۔
گلگت بلتستان کے عوام اب سمجھدارہو گئے ہیں۔انہیں اپنے اچھے برے کاادراک ہونے لگا ہے۔اب محض تقریروں،نعروں اور بلند آہنگ دعووں، وعدوں اور بیانات سے مطمئن نہیں ہو سکتے۔بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق انہیں اپنے مستقبل کی بھی فکر ہے اور اس سلسلے میں اربابِ اختیار کا مواخذہ کر سکتے ہیں۔
اور یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔جب عوام باشعور ہوں۔اپنی ترجیحات اور مستقبل کے امکانات کا احساس ہو،ساتھ ہی اپنی طاقت کا یقین ہو تب کوئی بھی انہیں سبز باغ دکھا کر اپنے مفادات کی لاٹھی سے ہانک نہیں سکتا۔
اس کے بر عکس عوام منتشر ہوں۔وقت کے تیور سمجھنے سے قاصر ہوں۔ترقی اور خوشحالی کے اصل ذرائع سے غافل ہوں،اپنی طاقت کا یقین نہ ہو …..تب کبھی سیاست کے نام پہ،کبھی مذہب کے نام پہ اور پھر کبھی حقوق اور محرومیوں کے نام پہ ڈگڈگی بجا بجاکے انہیں نچایا جائے گا ۔ناچتے ناچتے جب یہ قوم بے حال ہو جائے گی تب نچانے والے کُھل کر کھیلیں گے۔
CPECعالمی طاقتوں کے لیے ایک نئی سرد جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔چائنا کی ترقی اور دنیا میں اس کے کردار سے بڑی بڑی طاقتیں خائف ہیں۔اس تناظرمیں CPEC محض پاک چائنا تک محدود ایک اقتصادی منصوبہ نہیں …کئی ملکوں کے لئے براہ راست ایک چیلنج ہے۔ان کے مفادات پہ ایک کاری وار ہے۔ان ملکوں میں انڈیا کے علاوہ بھی طاقتیں ہیں۔اس خطے کی بھی،سات سمندر پار کی بھی۔۔۔۔ایسے میں CPECآنے والے وقتوں میں دنیا کی معیشت اور سیاست پہ زبردست اثرات ڈالنے والا ہے۔