بلاگز

یا اللہ

اللہ کی ذات کو بقا ہے باقی سب کو فنا ہے۔۔زمان و مکان اس کے ہیں۔وقت اس کا ہے۔حکم اس کا ہے۔۔ساری طاقتیں،ساری صلاحیتیں،ساری آرزوئیں سب اکارت، بے کار، بے بس، شکستہ۔۔۔ہاں اللہ کی ذات اٹل ہے۔کل ہے۔ کامل ہے۔۔۔
وادی چترال جنت نظیر ہے۔۔اس کی خوبصورتیاں رشک جنت ہیں۔۔جنت کے اس ٹکڑے پر اللہ کی طرف سے کئی آزمائشیں آئیں۔۔پربت و کہسار تھرا کے رہ گئے۔۔فضائیں افسردہ ہو گئیں۔۔مگر جو ما لک ارض و سماء کو منظور تھا وہی ہوا۔بے بس انسان نے سر تسلیم خم کیا۔حکم پہ لبیک کہا۔۔سیلاب،زلزلہ،برفانی تودے،دریاؤں میں طغیانیاں اور پھر۔۔ اف۔۔فضائی حادثات۔۔۔حالیہ خوفناک حادثہ  چترال کا پانچواں فضائی حادثہ تھا اور ناقابل فراموش۔۔ ناقابل بیان۔۔جس کوبیان کرنے کے لئے بڑا دل چاہیے۔۔یہ حادثہ مجھ جیسے  کمزور دل والوں کو کرچی کرچی کر گیا۔۔میں ایک عزیز کی وفات پر چترال شہر میں تھا۔۔۔جہاز میرے اوپر سے اوڑان بھرا۔۔میں نے حسب عادت سراٹھا کر ٹکٹکی باندھ کر اس کو دیکھتا رہا۔۔پتہ نہیں کیوں مجھے یوں لگا۔۔کہ میرا دل اس فلائٹ کے ساتھ اڑکے جا رہا ہے۔۔”عظیم لوگ پی،ائی، اے کے ساتھ سفر کرتے ہیں“۔۔ہم جب بھی سفر کے لئے پی،ائی، اے کے جہاز کے اندر داخل ہوتے ہیں۔تو ایک فخر سا محسوس ہوتا ہے۔ہمیں اس سمے جہاز اڑانے والوں کی عظمت کاایک گونہ قائل ہونا پڑتا ہے۔۔مجھے باہر ملک کے لمبے سفر کا بھی تجربہ ہے۔۔ہوائی سفر کا ایک نشہ یوں ہوتا ہے۔۔کہ ایک مسافر جہاز میں داخل ہوتے ہوئے اپنے کوالوداع کہنے والوں کی نظر میں ذرا بڑا نظر آتا ہے۔۔اور جہاز سے اترتے ہوئے اپنے کو خوش آمدید کہنے والوں کی نظروں میں بڑ انظر آتا ہے۔۔جہاز میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔ایک خیال ساغقے کی سی رفتار سے میرے دل سے گذرا۔۔۔کہ اس میں کتنے  تارے سوار ہوئے ہونگے۔۔کتنے ہنستے مسکراتے چہرے ہونگے۔۔کتنے پرعزم دل ہونگے۔۔کتنی صلاحیتیں ہونگی۔۔کتنے ذمہ دار لوگ ہونگے۔۔قوم کے کتنے سپوت ہونگے۔۔گلشن انسانیت کے کتنے خوبصورت پھول ہونگے۔۔بس فلائٹ نے اڑان بھری۔۔لمحے لمحے کی بات ہے۔۔زمین سے اوپر گگن سے نیچے زندگی فضاؤں میں۔۔۔کسی کو کیا پتہ کہ  جہاز خراب ہوگا۔۔۔کسی کو کیا اندازہ کہ اس کی زندگی کے لمحے  گنے  جا چکے ہیں۔۔۔کسی کو کس نے بتایا کہ بے وفا عمر کی ساعتیں پوری ہوچکی ہیں۔۔۔کسی کے پہلو میں اس کا لخت جگر بیٹھا ہوا ہے۔۔۔کسی کی گود میں اس کا پھول پڑا ہوا مسکرا رہا ہے۔۔ کسی کے ساتھ اس کی زندگی کا ساتھی بیٹھا ہوا ہے۔۔۔اعلان ہوتا ہے کہ۔۔۔ جہاز خراب ہوا۔۔۔زندگی کا تلخ ترین جملہ۔۔وقت کا مشکل ترین لمحہ۔۔۔ان پر کیا  بیتی ہو گی۔۔۔زندگی سکڑ گئی ہوگی۔۔وقت تھم گیا ہوگا۔۔۔موت سر پہ کھڑی ہوگئی ہو گی۔۔۔نادان انسان جو ساری زندگی اس سے بھاگتا رہا ہوگا۔۔اس سے نفرت کرتا رہا ہو گا۔۔۔وہ تلخ حقیقت واضح ہو چکی ہوگی۔۔
زندگی انسان کی ایک دم کے سیوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے رم کے سیوا کچھ بھی نہیں۔۔
بس دم کا گھٹنا تھا۔۔باپ نے بیٹی کو گلے سے لگایا۔۔ماں نے شیرخوار بچی کو دل سے لگایا۔۔دوست نے دوست کو آخری بار سینے سے لگایا۔۔زندگی کے ساتھی نے آخری بار دوسرے ساتھی کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔رب کائنات سب کو دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔نادان انسان ڈرو مت۔۔تو  تو اپنے رحیم و کریم  رب کی طرف آرہا ہے۔۔۔
نشان مرد حق دیگر چہ گوئیم۔۔
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست۔۔
اب اسی کا نام لو  تیرا  رب بڑا عظیم ہے۔۔۔۔تیری بے بسی اپنی جگہ۔۔اب نہ ڈی سی کچھ کر سکتا ہے۔۔نہ ماہر تعلیم کے پاس مسلے کا کوئی حل ہے۔۔نہ تجربہ کار پائلٹ اپنے تجربے کے بل پر کچھ کر سکتا ہے۔۔۔ٹیکنالوجی فیل ہوتی ہے۔۔یہی بے بسی انسان کا تعارف ہے اور یہی بے نیازی رب کی پہچان ہے۔۔رب کو پسند ہے کہ انسان  اس کے سامنے بے بس ہوجائے۔۔گھٹنے ٹیک دے۔۔۔درد کی آواز اس کے دل سے اٹھے۔۔جہاز  زمین کی طرف آرہا تھا۔۔چیخیں نکل رہی تھیں۔۔دھائیاں دی جارہی تھیں۔۔اللہ اکبر کا ورد تھا۔۔بے بس جانوں کے ویڈیوز اپ لوڈ ہوئے  ہیں۔۔ان کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔۔جہاز زمین پہ گرتا ہے۔۔۔صفحہ ہستی سے کچھ ہستیاں مٹ جاتی ہیں۔۔لیکن یہ کسی کا پیار ہیں۔۔کسی کی دنیا ہیں۔۔کسی کے لیے کھلی کائنات ہیں۔۔کسی کی آرزو ہیں۔۔کسی کے خواب ہیں۔۔ان کی آہوں میں ہماری آہیں شامل ہوتی ہیں۔۔پورا چترال سوگوار ہے۔۔شہزادہ فرحت عزیز اپنی بیٹی کے ساتھ شہید ہوئے۔۔ہواوں پر سواری کرنے والے کو کیا ہو ا کہ بے بس ہوئے۔۔جنید جمشید اللہ کی راہ میں نکلے زندگی کی ساتھی کے ساتھ چلے گئے۔۔نوجوان ڈپٹی کمشنر اپنے عزم و ہمت اور خدمت کے ساتھ گئے۔۔چترال کے معروف ماہرین تعلیم چلے گئے ۔۔ محمد خان اور اکبر علی گئے۔۔سلمان گئے۔۔کاروباری ہستیاں گئیں۔۔طلباء گئے۔۔وہ افراد جو زندگی کی دوڑ میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے  نہ ان کا کوئی نام ہوتا ہے نہ تعارف ۔۔خاموش دنیا میں آتے ہیں۔کارزار حیات میں خاموشی سے رہتے ہیں  اور خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔۔وہ چلے گئے۔۔ایک پورا گھرانہ  اجڑا۔۔غیر ملکی اور ملک کے باشندے گئے۔۔زندگی کا دستور ہے کہ لوگوں کا غم ٹلے گا۔۔پیاروں کی یادوں کی شدد میں کمی آئے گی۔۔انسان جدائی کا عادی بن جائے گا۔۔پھر معمولی سے معاوضے ہونگے دوہرا افسوس ہوگا۔۔پی ائی اے پر اعتراضات ہونگے۔۔جہاز خراب تھا۔۔پی ائی اے میں پیشہ ور پائلٹ نہیں ہوتے۔۔یہ فلا ئینگ کلب جائین کرنے والے عام لوگ ہوتے ہیں۔۔غفلت ہوتی ہے۔۔موسم کا مسلۂ ہوتا ہے۔۔زندگی کے راستے میں یہ سب روکاوٹیں ہوتی ہیں۔۔اجل کے راستے میں کوئی روکاوٹ نہیں ہوتی۔۔۔البتہ نور خان جیسے لوگ پی ائی اے کے سربراہ تھے تو ایسا کچھ کم کم ہوتاتھا۔۔یہ خطر ناک سفر بہت محفوظ ہوا کرتے تھے۔۔۔
شاید یہ سب مفروضے ہوں کیونکہ یہ سب آہستہ آہستہ بھولا دئے جائینگے۔۔صرف تین حقیقییں ہیں۔۔ایک موت۔۔۔دوسری المناک اور دردناک موت اور تیسری ان جدا ہونے والوں کی آہیں جو مسلسل رگ جان کڑکا رہی ہیں۔۔۔میرے آقا۔۔موت کے بے رحم پنجے کتنے خوفناک ہوتے ہیں۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button