کالمز

اپنے بچوں سے سیکھنا – تیسری قسط

اپنے بچوں سے سیکھنا یہ ایک عجیب سی بات لگ رہی کہ ہم اپنے بچوں سے سیکھیں یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہم اپنے بچوں سے اس عمر میں سیکھیں ایک عجیب سی بات ہے کہ ہم اپنے بچوں سے سیکھیں ۔ آپ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ میں سے کوئی یہ بتائے گا کہ کیا ہم اپنے بچوں سے سیکھ سکتے ہیں۔

(۱) اپنے بچوں سے سیکھنا :

ہمارے بچے ہمارے استاد ہوتے ہیں۔اپنی سادگی اور صاف دلی کے ساتھ ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔مثلاایک چھوٹے بچے کو بہترین شہری ہونے کا ایوارڈ ملا۔اس کے والدین نے اس سے بہت خوش ہوکربچے سے پوچھا کہ تم نے ایسا کون سا کام کیا کہ تمہیں بہترین شہری کا ایوارڈ ملا ؟ بچے نے بڑے معصومیت سے جواب دیا کہ ایک بوڑھا شخص کو دیکھاوہ رو رہا تھا میں اس کی گود میں بیٹھ گیااور اس کورونے میں مددکی۔ دراصل بچے انسانی احساسات اور خدمات کے با رے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن عام طورپر ہم والدین شعوری یا لا شعوری طورپر اس کو قبول نہیں کرتے۔ ہر بچے کے اندراپنے ذات کا احساس پایا جاتا ہے۔اس لیے اساتذہ،والدین اور معاشرے کے دوسرے افراد کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچے کو اپنی ذات محسوس کرنے دیں۔ جب بچے اپنے ذات پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔تو ان کے خیا لا ت میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔اور ایسے میں ہمیں بہت کچھ بتاتے ہیں بشرطیکہ ہم انہیں غور سے سنیں ۔ہم ہر وقت ان کو سکھانے کی بجائے ان کو سمجھنے اور ان سے سکھنے کی کوشش کریں۔

ہر بچہ منفرد ہوتا ہے

ہر بچے کو قریب سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کہ ہر بچہ دوسرے بچے سے مختلف ہوتا ہے۔ان کی عادتیں ،انکی سوچ، ان کا نشو نما، ان کا قدوقامت ، ہر چیز مختلف ہوتا ہے۔اس لئے ہر بچے کے ساتھ اسکے مطابق سلوک کیا جائے۔

ماریہ مانٹیسوری کہتی ہیں:

ہماری معلومات کی کمی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہمیں پتہ ہے کہ سیپی میں سے موتی کس طرح نکالا جاسکتا ہے اور پہاڑوں کے سینے سے سونا اور زمین کے پیالے سے کوئلے کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہم بچے کے پوشیدہ روحانی خزانوں سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں جبکہ بچہ انسانیت میں تبدیلی لانے کیلئے دنیا میں داخل ہوتا ہے۔

2. بچوں سے سکھنا

عموماًتمام والدین اساتذہ اور دوسرے افراد کا یہ خیال ہے کہ ہم بچوں کو سکھا سکتے ہیں مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہم بچوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر بچوں کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھیں تو وہ تعلیم جو بچوں سے ہم سیکھ سکتے ہیں دنیا کی کسی اور درسگاہ میں نہیں ملتی۔ مثلاًبچوں سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ہم بھی چند لمحوں کیلئے دنیا کی فکروسوچ سے الگ تھلک رہیں۔چونکہ آپ کو معلوم ہے کہ بچے تمام غم اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں ۔گھر میں روٹی ملے نہ ملے کپڑا تن پر ہو نہ ہو مگربچے اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔وہ کھیل میں مصروف ہوکر تمام دنیا کی چیزوں کو بھلا دیتے ہیں ۔مثلاً ایک ماں نے لکھا ہے کہ اسکے دوست نے ان کو دو پتنگ بھیجا تو اس نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ پتنگ اس کے بچوں کیلئے ہیں مگر جب اُسکواس بات کا علم ہوا کہ پتنگ کے ساتھ ایک پرچی پر لکھا ہوا تھا کہ یہ پتنگ تمہارے اندرچھپے ہوئے بچے کیلئے ہیں تب اس عورت نے اپنے دونوں بچوں سے کہا کہ تم پتنگ اُڑاؤمگر اسکے بچوں نے یاددلایا کہ یہ پتنگ تو تمہارے لئے ہیں پھر اس عورت نے اپنے بچوں کے ساتھ پتنگ اڑ انا شروع کیااور چند ہی لمحوں میں وہ اپنے تمام فکر اور سوچ سے بالاتر ہوکر بچوں کے ساتھ چیخ چیخ کر شورمچا رہی تھی کہ وہ پتنگ اتنا اُونچا گیا یہ ہوا وہ ہوا جب وہ تھک کر چوُر چوُر واپس گھر آئی تو ایک عجیب سکون محسوس کر رہی تھی اس کے اند ر کا بچہ جاگا ہوا تھا اور گنٹھوں مز ے لے لے کر بچوں سے پتنگ کے بارے میں باتیں کر تی رہی اور با لکل تازگی محسوس کر رہی تھی ۔

سچ بولنا:

بچوں سے ہم سچ بولنا سیکھ سکتے ہیں مثلاًیہ کہ بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے یہ سب کچھ ہم انہیں سکھاتے ہیں کبھی ٹیلی فون پر ،کبھی دروازے پرکسی نے بلایا تو ہم بچوں سے کہتے ہیں کہ میرا پوچھے تو کہہ دینا کہ نہیں ہے۔

ایک مثال:

میرے ایک چچا زاد بھائی کے گھر میں کسی نے آکر انڈ ے مانگے تو بھابی نے کہا کہ انڈے نہیں ہیں تو اسکا چھوٹا بیٹا تھا اس نے فوراً کہا کہ چچا میں دیتا ہوں انڈے ، یہ امی جھوٹ بولتی ہے اور اٹھ کر ڈونگا سے انڈے نکال کر لادیا ۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم بچوں کے سامنے جھوٹ بو ل کر ان کو کیا سکھاتے ہیں ۔

فکروں سے آزاد:

بچے تمام فکرسے آزاد ہوتے ہیں ان کو کوئی فکر نہیں وہ دنیا کے کسی چیز کے لئے نہیں سوچتے ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی کبھی پانی سے کھیلتے ہیں کبھی کرکٹ کبھی آنکھ مچولی کھیل کر ہمیں بتاتے ہیں دنیا کی فکروں اور سوچوں سے تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو آزاد کر کے بھی دیکھو تم اپنے آپ کو کتنا تروتازہ محسوس کرو گے ۔

دراصل بچوں کی معصومیت اور پیاری شرارتیں ہمارے دل سے فکروں کے بوجھ کو ہٹادیتی ہیں اور ہمیں خوشی خوشی اپنے دن کو گزارنے میں مدد دیتی ہیں ۔

(۲)فطرت کو حیرت اور غور و فکر کے ساتھ دیکھنا :

خدا وند تعالیٰ نے بچوں کو ایک خوبی یہ بھی دی ہے کہ وہ فطرت کو بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں وہ بڑ ے غورسے چیزوں کو دیکھتے ہیں بچے چیزوں کوانتہائی انہماک اور غور سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں سوالات بھی کرتے ہیں مثلاآسمان کتنا اونچا ہے خدا نے دنیا بنایا تو اس سے پہلے کیا تھا ، بارش کیسی برستی ہے بادل کہاں سے آتے ہیں۔ اس طرح ہم بچوں سے یہ سیکھتے ہیں کہ اپنے دل کو دنیا کی سوچوں سے آزاد رکھیں اور فطرت کا مشاہدہ غور سے کریں اور انہماک سے کام کرنا سیکھیں ۔

(۳) اپنی ذات پر اعتماد :

بچے اپنی ذات پر بھر پور اعتماد کرتے ہیں مثلاًوہ جو بھی کام کرتے ہیں بھر پور اعتماد سے کرتے ہیں اگر کوئی غلطی کر تا ہے تو بچے بے دھڑک بو لتے ہیں کہ آپ نے یہ غلطی کیا ہے اور اگر وہ خود کسی چیز کو خراپ کر تے ہیں تو فوراًکہتے ہیں کہ میں نے فلاں چیز کو تو ڑا ہے۔ ایک دفعہ میں کچھ لکھ رہا تھا اور میر ے بچے میرے ارد گرد بیٹھے تھے تو میں نے وائی (لفظ وائی ) غلط لکھا تو بڑے لڑکو ں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سب سے چھوٹا بیٹا بو ل پڑا اہوہ یہ عجیب سا وائی لکھا آپ نے تو دوسرے ہنس پڑے ۔ بچوں میں سائنسدانوں اور ار ٹسٹوں کی طرح تخیل اور ایمی جینیشن ہو تے ہیں وہ ہر چیز کے بارے میں عجیب خیالات رکھتے ہیں ۔ ہم بچوں سے اس طرح خود عتمادی سیکھتے ہیں ۔

(۴) خدا کی ذات پر بھر وسہ:۰

بچوں کو اپنی ذات کے علاوہ خدا کی ذات پر پورا بھر وسہ ہو تا ہے ۔ بغیر کسی رسمی تعلیم کے ان کے اندر خد ا کی موجودگی اور اس کی مدد کا ایک عظیم تصور پایا جاتا ہے ۔ایک بو ڑ ھے شخص کی مثال ہے کہ وہ اپنے باغ میں بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا تو ایک بچی ادھر آنکلی اور اس سے سوال کیا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے بو ڑھے شخص نے کچھ سوچ کر کہا کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں یہ سن کر بچی نے بڑی اطمنان سے اور بڑ ی معصومیت سے کہا میری امی کہتی ہیں کہ آنکھیں بند کر کے اگر دیکھا جائے تو خدا کو اپنے اندر بھی دیکھا جا سکتا ہے اس سے ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ اس بچی نے اپنی معصو میت سے ہمیں ایک سبق دے گئی اور ہمیں معلوم ہوا کہ بچے خدا کی ذات پر بھر و سہ کر تے ہیں اور ہمیں بھی تعلیم ملتا ہے ۔

(۵) محبت کا بھر پور جذبہ:۰

بچے بغیر کسی مطلب کے محبت کر تے ہیں وہ محبت کا بھر پور مظا ہر ہ کر تے ہیں اگر آپ اپنے بچوں کو غور سے دیکھیں تو وہ اپنے والدین کے علاوہ گھر کے ہر فرد سے محبت کر تے ہیں اور اگر کوئی مہمان آجائے تو بچے اس سے بھی پیار ی پیاری باتیں کر تے ہیں اور طرح طرح کے سوالات کر تے ہیں ۔ بچوں کے پاس ایک حساس دل ہو تا ہے وہ ہمدردی سے ہر شے کا مشاہدہ کر تے ہیں ۔ اس لئے ہمیں ان سے ہمدردی اور محبت کا درس ملتا ہے۔

(۶) تعریف کر نا سیکھتے ہیں :۰

جب بچے کوئی اچھا کام کر تے ہیں تو وہ چا ہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو تی ہے اور ان کی خود اعتمادی میں ا ضافہ ہو تا ہے۔اس سے ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ اگر ہم کسی بڑ ے کی کا م کی بھی تعریف کریں تو ظاہر ہے کہ وہ بھی خوش ہو تا ہے اس لئے ہمیں بچو ں کی کام کی تعریف کرنا سیکھنا چا ہئے

(۷) بچو ں کو توجہ سے سننا :۰

بچو ں کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ ان کی ذات کا احترام کیا جائے۔اس لئے بچوں کی ذات کی احترام کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ جب بات کریں تو ان کو توجہ سے سنا جائے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہر ممکن طور پر ان کی با ت کو اہمیت دی جائے اور ان کی نا قابل قبول بات کو بھی نہایت نر می سے اور پیار سے ان کو سمجھا کر ان کی تسلی کرایا جائے ۔ اور کوشش کیا جائے کہ ان کی بات کا مثبت جواب دیا جائے تا کہ ان کو اپنی ذات کا حترام پیداء ہو سکیں

کون سی بات بچوں سے نہیں کر نی چاہئے:۰

(ا) بچوں پر دبا و نہ ڈالا جائے

(ب) بچوں کو کبھی بھی برُ ا بھلا نہ کہا جائے

(پ) بچو ں کو کبھی بھی لمبی لمبی لیکچر نہ دیا جائے

(ج) بچو ں کا مذاق نہ اڑیا جائے

(چ) ان کے کا م کا یا خواہشات کا مذاق نہ اڑا یا جائے

بچوں سے تواقعات:۰

والدین اکثر بغیر سوچیں سمجھیں اپنے بچوں سے یہ تواقع کر تے ہیں کہ ان کا بچہ ہر امتحان میں فرسٹ پو زیشن حاصل کرے ۔ وہ ہر کام میں دوسروں سے ممتاز ہو یا یہ کہ میرا بچہ بھی ڈاکٹر بن جائے یا انجینیر بن جائے ۔ جبکہ بچہ ایک بہترین لیکچرار بننا چاہتا ہو یا پائلٹ بننا پسند کر تا ہو اس طرح بچہ وہ نہیں بن پاتا جس کا زبر دستی اس سے توقع کی جاتی ہے ۔ بے شک والدین کو اپنے بچوں سے اچھی تواقعات وابستہ رکھنا چاہئے لیکن بچے کی اپنی دلچسپی بھی ہو اور اس پر زبردستی نہ کیا جائے کہ فلاں نے یہ کیا ،بستاں نے وہ کیا ۔ پہلے بچے کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد دی جائے پھر ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد دیا جائے اور پھر ایک اچھاشہری بننا سکھایا جائے اور پھر اس کی اچھی تر بیت کی جائے اور اچھے سکول اور کالج میں پڑھا یا جائے اور اس کی صلاحیتوں کو اجا گر کرنے میں اس کی مدد کی جائے ، اور اس کی صلا حیتوں کو تحریک دیا جائے پھر بچے سے اچھے تواقعات وابستہ کیا جائے

حا صل کلام

(۱) اپنے بچوں سے سیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے کاموں کو غور سے دیکھا جائے انہیں سنا جائے اور ان سے موثر انداز میں بات چیت کی جائے۔

(۲) اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھے کاموں کی بر وقت تعریف کیا جائے

(۳) لیکن ا ن کے اچھے کاموں کو اور اچھی باتوں کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ان کو غور سے سنا جائے ۔ اس میں دلچسپی لیا جائے اور ہمیں اپنے بچوں میں اپنی دلچسپی کا اظہا ر کر نا چاہئے

(۴)ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ بچوں کی صحیح نشو و نما کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کو خود اختیا ری دی جائے ان کی فیصلوں اور خیالا ت پر ا عتماد کیا جائے۔

یہ سب باتیں ہم والدین کیلئے نہایت اہم ہیں کہ ہم سو چیں کہ ہم اپنے بچوں کو کیا سمجھتے ہیں ا ن سے کیسی تواقع رکھنی چاہئے ۔ بحثیت والدین یہ اصول ہمیشہ یاد ر کھنی چاہئے کہ ہمارے اپنے بچوں کی شخصیت ،دنیا کی کسی بھی اور چیز سے بہت زیادہ قیمتی ہے انھیں خود اپنی غلطیوں سے سیکھنے ، ا پنی کو ششوں سے اور اپنی خواہشوں کے مطابق بڑا ہو نے میں ہمیں مدد کر نی ہے۔ بحثیت والدین یہی ہمارا سب سے اہم کر دار ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button