شعر و ادبکالمز

شلوغ ،چترالی بچوں کی لوک کہانیاں

ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضیؔ

لک اور پک ،ٹس اور پاٹس ،اُلّو کے بچے ،بکری کی کہانی وہ کہانیاں یا داستان ہیں جو دادی اماں اپنے پوتوں اور نواسیوں کو ہر شام سنا یا کر تی تھی۔ آج سے 20 سال پہلے چترال میں کا رٹون نہیں تھے، مو بائل فون پر بچوں کے گیم نہیں آتے تھے، فیس بک اور انٹر نیٹ کا نام بچوں کو نہیں آتا۔ گھر میں دادی اماں ،دادا ابو ،ماں باپ ، خالہ پھوپھی ،چچا چچی اور بڑے بوڑھے بچوں کے لئے تفریح کا ساماں مہیا کرتے تھے۔ ان کے پاس خلائی مخلوق کی سائنسی کہانیاں نہیں تھیں، اینی میٹڈ کہانیوں کے ڈاون لوڈ نہیں تھے، وہ اپنے باپ دادا سے سنی ہوئی معصوم اور سادہ کہانیاں بچوں کو سناتے تھے۔ ان کہانیوں کو قدیم زمانے کے ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگوں نے تخلیق کیا۔ ان میں تجسّس بھی ہے، ڈراونے مناظر بھی ہیں، ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہیں، بچوں کے لئے تفریح کا پورا سامان ہے۔

آج پروفیسر ممتاز حسین کی کتاب ’’شلوغ ‘‘میرے ہاتھ میں آئی تو یہ سب کچھ بے ساختہ یاد آیا اور میرا جی للچایا کہ کا ش کوئی وقت کو لگام دے اور مجھے واپس اس دور میں لے جائے جب کارٹون گیموں کی جگہ زندہ کہانیاں ہوتی تھیں، بے جان پلاسٹک ہاتھ میں لینے کی جگہ بچے دادی اماں یا پھوپھی اور خالہ کے پاس بیٹھ کر کہانیاں سنتے تھے۔ ’’شلوغ ‘‘چودہ (14) مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے اس میں کھوار کہانی کے ساتھ اردوترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ گویا چترال کی کہانیوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر اردو پڑھنے والے قارئین کے وسیع حلقے میں متعارف کر ایا گیا ہے۔ کتاب نیشنل بک فاونڈیشن اسلام اباد نے شائع کی ہے۔ اس قومی اشاعتی ادارے کا نیٹ ورک سفارت خانہ پاکستان ،نئی دہلی ،اردو مرکز لندن ،بی بی سی لندن ،وائس آف امریکہ واشنگٹن ڈی سی تک پھیلا ہوا ہے۔ عنقریب یہ کہانیاں چائینہ ریڈیو انٹر نیشنل ،ریڈیو ما سکو ،تہران زاہدان اور ریڈیو ڈو ئچے ویلے وائس آف جرمنی سے بھی بچوں کے پروگراموں کی زینت بنینگی۔ اشاعتی ادارے کا نیٹ ورک جتنا وسیع ہوتا ہے کتاب اتنی دور تک جاتی ہے۔ کتاب کی پہلی کہانی ’’بوئیکو شلوغ ‘‘ہے اردو میں اس کا نام چڑیا کا موتی رکھا گیا ہے۔ یہ معصوم بچوں کی سب سے مقبول کہانی ہے اور سب سے پہلے یہی کہانی سنائی جاتی ہے۔ جدید دور کے تصورات سے موازنہ کیا جائے تو یہ ’’فوڈ چین‘‘کی قدیم کہانی ہے اس میں دو ہزار یا ڈھائی ہزار سال پہلے یہ کھایا گیا ہے کہ کون کس کا دشمن ہے کون کس سے ڈرتا ہے مثلاًلکڑ ی آگ سے ڈرتی ہے آگ پانی سے ڈرتی ہے پانی بیل سے ڈرتا ہے بیل بھیڑیے سے ڈرتا ہے بھیڑیا شکاری سے ڈرتا ہے شکاری چوہے سے ڈرتا ہے چو ہا بلی سے ڈرتا ہے اس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے اس طرح لک اور پک اور ٹس اور پاٹس بھی ایسی کہانیاں ہیں 14 کہانیوں میں سے ہر کوئی کہتی ہے کہ پہلے مجھے پڑھو ،کتا ب کے پیش لفظ میں نیشنل بک فاونڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جا وید لکھا ہے’’پرو فیسر ممتاز حسین اردو اور کھوار دونوں زبانوں میں افسانے لکھتے ہیں فکشن کے میدان کے شناور ہیں اس لئے ان کہانیوں میں مقامی ثقافتی رنگ اور ماحول نمایاں ہے کہانیوں کی کہانی کے عنوان سے پروفیسر ممتاز حسین نے کتاب کا پس منظر دلچسپ پیرائے یوں لکھا ہے کہ اس پر الگ کہانی کا گماں ہوتا ہے کتاب کی قیمت 150 روپے ہے اور یہ ہر اچھے بک اسٹال پر دستیاب ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button