کالمز

سب کی جیت

شمس الرحمن تاجکؔ

غالباً1995ء کی بات ہے پولو گراؤنڈ چترال میں پولو کا میچ چل رہا تھا، وقفے کے دوران لوگوں نے اقبال الدین سحرؔ سے لطیفہ سنانے کی فرمائش کی،موصوف نے لطیفہ کچھ یوں سنایا’’ آج شام دفتر سے گھر جاتے ہوئے ایک دوست سے ملاقات ہوگئی چونکہ دوست کا اپنے بھائی کے ساتھ زمین کا تنازعہ چل رہا تھا اس لئے ان سے پوچھا کہ آپ کے کیس کا کیا بنا؟ دوست نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے جس کے مطابق ’’کیس میں جیت گیا اور زمین میرے بھائی جیت گئے‘‘۔ یہ پورا لطیفہ تھا سحرؔ صاحب کا! پولو گراؤنڈ میں 95ء کے حساب 500 افراد تو موجود ہوں گے یہ پانچ سو افراد سحرؔ صاحب کے اس لطیفے کو ڈاکٹر کے پرچی کے حساب سے سن رہے تھے، مطلب مجھ سمیت کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ سحرؔ صاحب لطیفہ سنا چکے ہیں بلکہ ہم اس کوکسی عدالتی کارروائی کا روداد سمجھ کر ان کے لطیفے کا انتظار کرتے رہے اور سحرؔ صاحب ہلکی مسکان کے بعد کسی اور سحر میں گرفتار ہوگئے،اب صورتحال ملاحظہ فرمائے پولو گراؤنڈ کا! چونکہ چترال میں سحرؔ صاحب ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ان کی شاعری کو بہت پسند کیا جاتا ہے مگر ایسے اجتماعی موقعوں پر مزیدار چٹکلے، لطیفے ان کی شناخت ہوا کرتے تھے، اس دن کا پولو میچ پتہ نہیں کون جیتا کون ہارا ہمیں صرف اس بات کا دکھ تھا کہ سحرؔ نے آج لطیفہ نہیں سنایا، میرے لئے مگر ان کی بات میں ایک اور حیرانی تھی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کیس ایک بھائی جیت جائے اور جس زمین کے لئے کیس چل رہا تھا وہ دوسرے بھائی کو مل جائے۔ اپنی بساط کے مطابق کچھ عدالتی اور کچھ غیر عدالتی کتابیں بھی پڑھ ڈالیں مگر اقبال الدین سحرؔ کا یہ لطیفہ ہمیشہ حل طلب رہا وہ کیسا عدالتی کیس تھا کہ جس میں دونوں فریق جیت گئے۔

جوان ہونے کے چکر ہم بوڑھے ہوتے رہے، اس لطیفے کی نوعیت کے بارے میں ہر ملنے والے اور ہر اس شخص سے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے! کسی نے بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا، آہستہ آہستہ ہم نے بھی اس لطیفے کو ذہن سے نکالنا شروع کیا ہی تھا کہ ’’پاناما‘‘ آگیا، کچھ دھمکیوں کچھ تسلیوں، کچھ ثبوتوں سے متعلق پہلے تو تقرریں ہوتی رہیں، جلسے جلوس ہونے لگے، دھرنوں کا موسم ایک بار پھر شروع ہوتے ہوتے رہ گیا، اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکیاں مسلسل دی جانے لگیں آخر کار ایک تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن اسلام آباد لاک ڈاؤن کیا جائے گا، ہمارے صاحب اقتدار جماعت نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا کریڈیٹ بھی عمران خان کو دینے پر راضی نظر نہیں آئے عمران کے لاک ڈاؤن کی تاریخ سے ایک ہفتہ قبل ہی اسلام آباد لاک ڈاؤن کردیا اور تماشا دیکھنے لگے کہ لو جو آپ ایک ہفتے بعد کرنے کا اعلان کررہے ہو وہ ہم نے ابھی سے کردیا ہے، کرلو جو کرنا ہے۔

ہمیں نہ حکومت کی لاک ڈاؤن سے کوئی دلچسپی رہی نہ عمران خان کے دھرنوں سے، پتہ نہیں کیوں پاناما کیس سے دلچسپی پیدا ہوگئی حالانکہ آج تک ملک میں کسی بھی کیس کا کوئی ایسا فیصلہ نہ ہوسکا جس سے مجرموں کو واقعی سزا ملی ہو اور انصاف ہوتا ہوا نظر آئے، ہماری دلچسپی کی سب سے اہم وجہ 20 سال پہلے سنی گئی اقبال الدین سحرؔ کا وہ لطیفہ ہے اس کیس کے دونوں فریقین روز عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کے سامنے اپنے کیس کو ایسے پیش کررہے ہوتے ہیں کہ لگ رہا دونوں جیت رہے ہیں، اس جیت جیت کے کھیل میں ہمیں بھی مزہ آنے لگا ہے کیونکہ برسوں بعد کوئی ایسا کیس سامنے آیا ہے جس میں دونوں فریقین جیت رہے ہیں۔

میڈیا کا کردار ہمیشہ سے واچ ڈاگ کا رہا ہے ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے میڈیا ہمیشہ ریاست کے مفادات سے وابستہ کوئی بھی خبر چاہے وہ ریاست کے فائدے کے لئے ہو یا پھر ریاست کو نقصان پہنچانے والوں کی خبر، سب کچھ حقائق سمیت عوام کے سامنے پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، جدید کیمروں، لائیو ٹاک شوز، لائیو پریس کانفرنس ز، بریکنگ نیوز اور ہر خبر کی تہہ تک پہنچنے کی لگن نے میڈیا کو وہ طاقت بخشی ہے جس کا تصور چند سال پہلے دیوانے کے خواب کی حیثیت رکھتی تھی پاکستانی میڈیا تو اتنی مدر پدر آزاد ہے کہ وہ خبر بریک کرنے کے بعد اس کی تفصیلات پر غور شروع کرتے ہیں، ایسی میڈیا کی موجودگی میں پاناما کیس اور اس سے وابستہ افراد نے میڈیا کو پوری طرح سے ماموں بنایا، میڈیا کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیس کون اور کیوں جیت رہا ہے تو ہم جیسے دیہاتی لوگوں کی سمجھ میں تھوڑی آئے گا کہ کیا ہونے والا ہے، مگر ایک بات کنفرم ہے کہ پاناما ایک ایسا کیس ہے جس میں کیس ایک فریق جیتے گا اور دولت دوسرا فریق۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button