تحریر: محمد صابر
گولدور،چترال
یہ کہانی چترال کی ان مظلوم اور پھول جیسی بیٹیوں کے نام ہے۔ جو اپنے ماں باپ ، بہن بھائی اور عزیز واقارب سے دور ملک کے کسی انجان حصے میں بے یار ومددگارآہ و سسکیاں لیتی ہوئی ایک گمنام سی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ کچھ ان میں ظلم و نا انصافی سہتے سہتے کب کے موت کی دائمی نیند سو چکی ہیں۔
اسلام میں بیٹیوں کا مقام نہایت اعلی و ارفع ہے اوراسلام نے بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو حقوق دئیے ہیں ، مگر ہمارے معاشرے میں بیٹیاں ماں باپ کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں اوران کے کیا حقوق ہیںیہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ بن چکاہے ۔ وہ والدین جو بیٹیوں کے حقوق کے حوالے سے اللٰہ پاک سے ڈرتے ہیں۔جن کے سینے میں واقعی دل ہے اور جن کی ضمیر زندہ ہے ۔ جو اپنی بیٹیوں کی بہتر مستقبل کے لیے ان کی کامیابی اور خوشگوار زندگی کے لیے سوچ بچار اور جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ جن کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہو۔جن میں ضمیر نام کی کوئی شے نہ ہو ۔ وہ کیا جانے بیٹیوں کا مقام اور ان کے حقوق کیا ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں ایسے والدین بھی ہیں جن کی لالچ اور خود غرضی کی وجہ سے آج چترا ل کی بیٹیاں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ ایک سوال جو کہ ہمیشہ میرے زہن میں رہتا ہے ۔ بے شک والدین کا اولاد پر حق ہے۔ مگر کیا اولاد کا بھی والدین پر کوئی حق ہے کہ نہیں ؟ میرا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے والدین کے حقوق کا انکار یا ان کے حقوق کو پامال کریں بلکہ اولاد کو چاہیے کہ والدین کی فرمان برداری ، اطاعت ، عزت و تکریم کریں۔ ہمارے معاشرے میں والدین کے حقوق کے ساتھ ساتھ اولادکے حقوق خصوصا بیٹیوں کے جائز حقوق مثلاتعلیم وتربیت ( اس حوالے سے والدین پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اولاد کو دینی علوم سے روشناس کرائیں) ،علم وفن ،شادی میں ان کی رضا مندی اور وراثت میں بیٹیوں کے جائز حقوق اور( ان بیٹیوں کی شادی کے بعد یا والدین کی وفات کے بعد بھائیوں کی جانب سے صلہ رحمی و ہمدردی کا سلسلہ جاری رکھنا ) وغیرہ کو اسلامی نقطہ نظر سے عام کریں اور اْنہیں ان کا حق دلائیں ۔ والدین بیٹیوں کے حقوق کے حوالے سے اللہ پاک سے ڈریں اور ان کے حقوق کا ستحصال نہ ہو نے دیں تاکہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو ان کے جائز حقوق حاصل ہوں سکیں۔
اللہ پاک نے بیٹیوں کو کتنی خوبصورتی سے نوازاہے ۔ انہیں سراپاپیار و محبت کا پیکر بنایا ہے ان کے دل میں اپنے والدین کے لئے پیار و محبت شفقت و ہمدردی کے اعلیٰ صفات ڈالی ہیں ۔ یہ بات مشاہدہ میں بھی آئی ہے کہ اکثر بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر اپنی والدین سے پیار و محبت کرتی ہیں ہر مشکل اور مصیبت میں والدین کے لئے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی ، مگربد قسمتی سے والدین کا برتاؤ انہیں مظلوم بیٹیوں کے ساتھ بْراہوتاہے ۔ گھر میں اگر کوئی اچھی چیز ہو تو مااپنے لاڈلے بیٹے کے لیے چھپاکر رکھتی ہے بیٹی پرائی اور بیٹے کو خاندان کا اصل وراث سمجھ کر اس کے طرح طرح کے ناز و نخرے اٹھائے جاتے ہیں ۔ اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کربلا تحقیق جلد سے جلد کسی بھی اجنبی شخص کے پلے باندھ دیا جاتا ہے۔ لڑکی کی رضا مندی کے بغیر ادھیڑعمر کے شخص کے ساتھ ، کبھی کھبار دوسرے اور تیسرے شادی شدہ مرد کے ساتھ معصوم سی بچی کا رشتہ طے پاتاہے ۔ شادی کے بعد اس بچی کے ساتھ جو سلوک روارکھا جاتاہے آج کے ترقی یافتہ دور میں کسی حیوان سے بھی ایسا سلو ک روانہیں رکھاجاتا۔
ایک دفع دو عورتیں ایک مرد جن سے میرا راستے میں اتفاقا آمنا سامناہوا۔وہ لوگ چترال میں رشتہ کرانے کے سلسلے میں تشریف لائے تھے ۔ جن کی زبان نہایت غلیظ اور بازاری محسوس ہوئی ۔ وہ لوگ راستہ بھٹک کر کہی اورجا پہنچے تھے شایدان کے ساتھ دھوکہ ہواتھا ، اور وہ اس بندے کی تلاش میں ادھر اْدھر پھر رہے تھے۔ ان کی چال دھال ، شکل و شبہات سے اندازہ لگایا جاسکتاتھاکہ وہ کوئی مہذہب اور عزت دار گھرانے سے نہیں بلکہ ایک گینگ اور مافیا کے لوگ تھے ۔ اس عورت کے کلام سے ہی میں نے ان کو پہچان لیا تھا کہ یہ لوگ کسی گینگ سے تعلق رکھتے ہیں باوجود میرے منفی جواب کے وہ لوگ مسلسل اصرار کیے جارہے تھے کہ وہ چترال سے لڑکی لیکر ہی جائیں گے۔ جب انہوں نے چترال کی بیٹیوں کو غریب کا طعنہ دیا اور شرط لگائی کہ بس وہ چترال سے لڑکی لیکر ہی جاؤ ں گی بلے لڑکی غریب ہی کیوں نہ ہو ۔ ا س لمحے میں خود پر قابو نہ رکھ پا سکا ۔ میں نے ان کو جھنجھوڑا چترال میں غریب کوئی بھی نہیں ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے یہاں سب خوب کھاتے پیتے ہیں یہاں کوئی غریب نہیں سب امیر ہیں ۔ میں نے مزید ان سے کہا کہ آب لوگ فوراہی چپ چاپ چترال چھوڑجائیں ورنہ۔۔۔ وہ معاملے کی سنگینی کو جان کر ذلت ورسوائی سے قبل ہی وہاں سے فرارہوگئے ۔۔۔
وادی چترال میں ایسے کئی بے شمار واقعات و حالات اپ کو دیکھنے اور سننے کو ملیں گے ۔ اس واقعے کے بعد میں نے واپسی اختیار کی ، مگردل میں ٓایک بے چینی سی تھی اور طبیعت بھی اداس اداس تھی ۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھاکہ ہم ایسے واقعات کی روکتھام کے لئے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
پھر اچانک ہی انجمن دعوت عظیمت والوں کی یا د آئی۔انجمن والوں سے رابطہ کیااور انہیں سارا واقعہ سنایا انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ معاملے کا جائزہ لیکر ان لوگوں تک جلد رسائی حاصل کرلیں گے ۔آخر کب تک یہ سلسلہ ہونہی چلتارہے گا؟ کب تک ہماری معصوم بچوں کے ساتھ یہ درندانہ اور وحشیانہ سلوک روارکھاجائے گا؟ کیاکبھی ہم نے غور کیاہے اس بزدلانہ کا م کی روکتھام کے لئے ہمارا کردار کیاہو سکتاہے اور کیاہونا چاہیئے ؟
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں اچھے برْے لوگ سبھی جگہ پائے جاتے ہیں ۔چترال سے باہر شادی شدہ ایسی بیٹیاں بھی ہیں جنہوں نے مکمل تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد چترال سے باہر شادیاں کی ہیں اور وہ آج نہایت خوش و خرم زندگی گزاررہی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی زندگی جہنم سے بھی کم نہیں ، مگر بحیثیت پاکستانی اور ایک چترالی ہونے کے میرا کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی اور بغض و عناد نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاص نسل اور گروہ پرستی کی حمایت کرتاہوں ۔ میرا مقصد چترال کی بیٹیوں کو ان کے جائز حقوق سے روشناس کرانا اور چترالی بیٹیوں پر جاری ظلم ونا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہے ۔ آج تک ہماری چترالی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنی چاہیے اور ہمیں آگاہی مہم کا اہتمام کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسل محفوظ ہاتھوں میں ہو۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button