کہانیاں

چاندنگر

(ایک یونانی کہانی سے ماخوذ)

بہت سال پہلے کی بات ہے، ایک محل میں ایک لمبا تڑنگا اور بہادر جوان رہا کرتا تھا۔ اس کا نام مراد تھا۔ وہ اپنے نانا کے محل میں رہتا تھا۔ اس کا نانا ایک چھوٹے سے ملک کا بادشاہ تھا۔ وہ بڑا سمجھدار بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سمجھ داری سے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ لوگ ہمیشہ اپنے بادشاہ سے خوش رہتے تھے۔

جب مراد کی عمر سولہ برس کی ہو گئی تو اس کی ماں اُسے ایک پرانے مندر میں لے گئی۔ یہ مندر، ایک پہاڑی کے اوپر تھا۔ پہاڑی سمندر کے پاس تھی۔ پہاڑی پر چڑھ جائیں اور سمندر کی طرف دیکھیں تو دُور سمندر کے اس پار ایک خوبصورت شہر نظر آتا تھا۔

مندر کے باہر سیڑھیوں کے پاس، مراد اور اس کی ماں جا بیٹھے۔ مراد کی ماں کہنے لگی:

’’سنو، مراد، اب تم سولہ برس کے ہو گئے ہو۔ میں اپنے آپ کو بڑی خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے تم جیسا ہونہار بیٹا ملا۔ کچھ سالوں میں تم اور بھی بڑے ہو جاؤ گے اور تمہیں وہ سب کام کرنا ہوں گے جو مردوں کو کرنا پڑتے ہیں۔۔۔‘‘

’’ماں، مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ میں اب بڑا ہو گیا ہوں۔۔۔؟ ‘‘ مراد نے پوچھا۔

مراد کی ماں نے نیلے سمندر کی طرف نظر اٹھائی۔ اس کا چہرہ ایک دم اداس ہو گیا۔ پھر کہنے لگی:

’’مراد، کیا تم مندر کے صحن میں وہ سب سے پرانا درخت دیکھ سکتے ہو؟ اس درخت کے نیچے ایک بڑا پتھر ہے۔ تم یہ کرو کہ اس پتھر کو اٹھاؤ اور دیکھو کہ پتھر کے نیچے سے کیا نکلتا ہے۔۔۔!‘‘

مراد، درخت کے پاس گیا۔ درخت کے بڑے تنے کے ارد گرد جھاڑیاں اور اونچی اونچی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ جھاڑیوں اور گھاس کے بیچ اسے ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ مراد نے پتھر کو اٹھانے کی کوشش کی۔ پتھر اٹھانا تو دور کی بات تھی۔ پتھر اپنی جگہ سے ذرا برابر بھی نہ سرکا۔ مراد نے پھر کوشش کی۔ مراد پتھر نہ اٹھا سکا۔ وہ واپس اپنی ماں کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا:

’’ماں، وہ پتھر تو بہت بھاری ہے۔ اٹھانا تو دور کی بات ، میں تو اسے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلا پایا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی طاقتور ترین شخص بھی اسے اٹھا پائے گا۔۔۔‘‘

’’خدا تمہاری مدد کرے۔۔۔ ایک دن ضرور آئے گا، جب میرے بچے ، تم اس قدر طاقتور ہو جاؤ گے کہ تم یہ پتھر اٹھا لو گے۔۔۔ ہمیں ایک سال انتظار کرنا ہو گا۔۔۔‘‘ ماں نے کہا۔

مراد اور اس کی ماں پہاڑی سے اترے اور واپس محل میں چلے آئے۔

مراد پھر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ صبح سکول جاتا۔ وہاں اپنے استاد سے بہت سی باتیں سیکھتا۔ سکول سے واپس آتا تو دوستوں کے ساتھ کھیلتا اور اس طرح شام ہو جاتی۔ اس مصروفیت میں مراد پتھر کو اٹھانے والے معاملے کو بالکل ہی بھول گیا۔

ایک سال گزر گیا۔ اب مراد سترہ برس کا ہو گیا تھا۔ اس کی ماں، اسے لے کر اسی مندر میں آئی اور اسے پتھر اٹھانے کا کہا۔ مراد نے بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ مراد اپنی ماں کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا:

’’ماں، اس مرتبہ بھی مجھ سے پتھر اٹھایا نہیں گیا۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اگلے سال میں طاقتور آدمی بن جاؤں گا۔ میں پتھر اٹھا لوں گا۔ وہ سامان جو اس پتھر کے نیچے پڑا ہے، تمہارے پاس لے آؤں گا۔۔۔!‘‘

’’ٹھیک ہے ، میرے بچے، خدا تمہاری مددکرے۔۔۔‘‘ ماں نے کہا اور دونوں پہاڑی سے اتر کر واپس محل میں آگئے۔

آنے والے سال میں مراد نے بہت محنت اور مشقت کی۔ وہ مشکل سے مشکل کا م کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ خطرناک جانوروں کا شکار کرنے جاتا اور دور تک ان کا پیچھا کرتا رہتا۔ اسے بلند پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا۔ اس محنت سے اُس کا جسم بہت مضبوط ہو گیا۔ اس نے کُشتی کرنے کے ہنر سیکھے۔ لڑائی کے ہنر سیکھنے کے لیے وہ جانوروں سے مقابلہ کرتا۔ بڑے بڑے پہلوانوں سے کشتی کرتا۔ اس سال کے دوران مراد جسمانی طور پر بہت مضبوط ہو گیا۔ پورے علاقے میں اُس جیسا طاقتور اور بہادر شخص کوئی نہ تھا۔

سال گزر گیا۔ اب مراد اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ اسی پہاڑی پر گیا۔ مندر کے صحن میں پہنچ کر، مراد کی ماں نے درخت کے نیچے پڑے پتھر کی طرف اشارہ کیا۔ پھر کہنے لگی:

’’مراد، جاؤ اور اس پتھر کو اٹھاؤ اور اس کے نیچے تمہیں جو کچھ ملے ، میرے پاس لے آؤ۔‘‘

مراد نے ماں کی بات سنی اور اپنے آپ سے کہا:’’آج مجھے ہر حالت میں پتھر کو اٹھانا ہو گا، خواہ مجھے کتنی ہی جان لڑانی پڑے۔‘‘

مراد پتھر کے پاس آیا۔ اس نے پتھر کے برابر بیٹھ کر، اپنی کمر کو درخت کے تنے سے لگایا۔ پاؤں پتھر کے ساتھ ٹکائے اور پورا زور لگا دیا۔ پتھر، مٹی اور گھاس پھوس میں پھنسا ہو اتھا۔ مراد نے پھر زور لگایا اور اس کے منہ سے ایک زور دار آواز نکلی۔۔۔ ’ہو۔۔۔ و۔و۔ ۔‘ پتھر مٹی سے باہر کی طرف سرک گیا۔ پھر زور لگایا تو پتھر قدرے آسانی سے گھاس کے اوپر سرکنے لگا۔ مراد کیا دیکھتا ہے کہ پتھر کے نیچے ایک خوبصورت تلوار تھی۔ تلوار نیام میں تھی اور نیام پر خوبصورت پتھر اور موتی لگے ہوئے تھے۔ تلوار کے پاس سونے کے دو جوتے پڑے تھے۔ مراد نے تلوار اور جوتے اٹھائے اور انہیں اپنی ماں کے پاس لے آیا۔ماں، مراد کی طاقت دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ کہنے لگی:

’’آؤ، میرے بیٹے، اس چھوٹی پہاڑی کے اوپر چلتے ہیں۔ وہاں سمندر اور اس کے پار وہ خوبصورت شہر، چاند نگر بالکل واضح نظر آتا ہے۔۔۔‘‘

دونوں پہاڑی پر جا بیٹھتے ہیں، ماں، مراد کو بتاتی ہے:

’’وہ چاند نگر ہے۔۔۔ دنیا کا سب سے خوبصورت شہر۔۔۔ تم اسے دیکھ رہے ہو ناں۔۔۔!‘‘

’’ہاں، مجھے نانا جان نے بھی اس شہر کے بارے میں بتایا تھا۔ ‘‘ مراد نے کہا۔

’’یہ شہر، سمجھ لو کہ زمین پر ایک خوبصورت جنت ہے۔ یہاں پانی کے چشمے ہیں۔ چشموں کا پانی باغات اور زمین کو دیا جاتا ہے۔ باغات میں ہر طرح کے پھل ہوتے ہیں۔ زمینیں اناج پیدا کرتی ہیں۔ ہر طرف چراگاہیں ہیں، جہاں سیکڑوں جانور پھرتے رہتے ہیں۔ سامنے پہاڑوں سے سونا اور چاندی ملتے ہیں۔۔۔ اگر تم اس شہر کے حکمران بن جاؤ، تو میرے بیٹے ، تم کیا کرو گے۔۔۔؟‘‘

مراد، اپنی ماں کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ بھلا وہ کیونکر اس شہر کا بادشاہ بن سکتا ہے۔ پھر بھی اس نے سوچا اور جواب دیا:

’’ ماں، اگر میں چاند نگر کا بادشاہ بن گیا تو میں سمجھداری سے حکومت چلاؤں گا۔ کمزوروں کا خیال رکھوں گا۔ طاقتوروں کو ظلم اور زیادتی سے روکوں گا۔ جب میں مر جاؤں گا تو لوگ مجھے ایک مہربان بادشاہ کے طور پر یاد رکھیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، میرے بیٹے، تم یہ تلوار اور جوتے لے لو۔ تم فوراً چاند نگر کے لیے روانہ ہو جاؤ۔ تمہارا باپ ہی اس خوبصورت ملک کا بادشاہ ہے۔ اس وقت وہ سخت مصیبت میں ہے۔۔۔ تم جاؤ اور اس کی مدد کرو۔ اسے تم جیسے بہادر اور مضبوط بیٹے کی ضرورت ہے۔ تمہارا باپ ایک چڑیل، میڈی کے ہاتھوں سخت تنگ ہے۔ اس نے تمہارے باپ کو اپنی گرفت میں کر لیا ہے اور جو چاہتی ہے، اس سے کروا لیتی ہے۔۔۔‘‘

مراد کی ماں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’بہت سال پہلے مجھے چاند نگر چھوڑنا پڑا ۔ یہ چڑیل میڈی ، تمہیں جان سے مار دینا چاہتی تھی۔ میں تمہیں وہاں سے لے آئی۔ پھر انتظار کرنے لگی کہ تم کب بڑے ہوتے ہو۔ کب بہادر اور طاقتور بن جاؤ گے۔ میں اپنے ساتھ یہ تلوار اور جوتے بھی لے آئی اور اپنے باپ کے پاس رہنے لگی۔‘‘

’’مگر، یہ تلوار اور جوتے پتھر کے نیچے کیونکر چلے گئے۔۔۔؟‘‘ مراد نے پوچھا۔

’’یہ دونوں چیزیں دیوتاؤں نے پتھر کے نیچے چھپا دیں۔ انہوں نے کہا تھا جب میرا بیٹا پتھر کو ہٹا کر یہ چیزیں نکال لے گا تو سمجھ لیناکہ وہ اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ میرے خاوند کی مدد کر سکتا ہے۔۔۔ وہ وقت آگیا ہے۔۔۔ مراد، تم اپنے باپ کے جوتے پہن لو اور یہ تلوار کمر سے باندھو اور سیدھے چاند نگر چلے جاؤ۔۔۔‘‘۔

مراد، چاند نگر میں

مراد نے اپنے باپ کے سنہری جوتے پہنے، کمر کے ساتھ تلوار باندھی اور ماں کا پیار اور دعائیں لے کر چاند نگر کی طر ف چل پڑا

مراد سمندر کی طرف اترا۔ اس نے ساحل پر کھڑی ایک بادبانی کشتی میں قدم رکھا ۔ وہ جلدی سے چاند نگر پہنچنا چاہتا تھا۔ اس نے بادبان کو ہوا کے رخ پر ٹھیک کیا اور کشتی نے چلنا شروع کر دیا۔ مراد کشتی میں کھڑا، اپنے آگے دور دور تک پھیلے سمندر کو دیکھ رہا تھا۔ اسے خیال آیا:

’میرے باپ نے تو مجھے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ مجھے اپنے سامنے دیکھ کر پہچان بھی نہ پائے گا۔ مجھے چاہیے کہ اس کے پاس جانے سے پہلے بہادری کے کارنامے سر انجام دوں۔ میرے باپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں سب سے طاقتور اور بہادر ہوں۔۔۔ یہ سب جان کر اسے خوشی ہو گی۔۔۔‘‘

مراد نے کشتی سے باہر چھلانگ لگا دی۔ وہ سمندر میں تیرتے ہوئے چاند نگر کے مضافات میں پہنچا۔ پھر پہاڑوں اور وادیوں میں چلنے لگا۔ ایک دن ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا۔ وہاں مراد کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔ اس کا نام بھالو یہ تھا۔ یہ بہت ہی لمبا تڑنگا تھا اور اس نے بھالو کی کھال اپنے اوپر ڈال رکھی تھی۔ بھالو کا سر، اس نے ٹوپی کی طرح پہن رکھا تھا اور بھالو کی ٹانگیں اس کی گردن کے ارد گرد جھول رہی تھیں۔ بھالویہ، پہاڑ پر آنے والے ہر شخص کو مار دیتا تھا۔ اس نے مراد کو دیکھا تو بہت بلند آواز میں دھاڑنے لگا:

’’اوئے مکھی، تمہیں کیسے جرأت ہوئی کہ تم میرے علاقے میں چلے آئے۔۔۔‘‘

’’بھائی، میں تو چاند نگر جا رہا ہوں۔۔۔ یہ علاقہ راستے میں پڑتا تھا، ا س لیے ادھر سے تو گزرنا ہی تھا۔۔۔‘‘ مراد نے کہا۔

’’۔۔۔ مگر، یہ تو میری مرضی پر منحصر ہے کہ میں تمہیں یہاں سے گزرنے دوں۔۔۔ پہلے مجھے وہ تلوار اور سنہری جوتے دے دو۔۔۔‘‘ بھالویہ نے کہا۔

مراد، بھالویہ کی بات سننے کے بعد ہنسنے لگا۔ پھر کہا:

’’یہ تلوار اور سنہری جوتے میرے باپ کے ہیں۔۔۔ اگر ہمت ہے تو مجھ سے لے لو۔۔۔‘‘

بھالویہ کو یہ سن کر سخت غصہ آگیا۔ کہنے لگا:

’’اوئے مکھی کے بچے، تمہاری یہ مجال کہ مجھے لڑنے کے لیے للکار رہے ہو۔۔۔ تم آخر ہو کون۔۔۔؟‘‘

’’میں مراد ہوں۔۔۔ اور میں ہر اس شخص سے لڑوں گا، جو دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔۔۔‘‘

مراد اور بھالویہ کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ پہلے بھالویہ نے بڑی طیش میں مراد پر حملہ کیا۔ مراد چھلانگ لگا کر دوسری جگہ پر جاگرا۔ اس نے مڑ کر تلوار کا ایک وار کیا اور بھالویہ دھم سے نیچے گر گیا۔ مراد نے بھالویہ کے اوپر پڑی بھالو کی کھال اٹھائی اور اسے اپنے اوپر پہن کر چاند نگر کی طرف چلنے لگا۔

مراد پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اتر آیا۔ یہاں ہری بھری خوبصورت وادی تھی۔ وادی میں بہت سی بھیڑیں گھاس چر رہی تھیں۔ ان کے پاس ہی چرواہا، بہت سی بھوتنیوں کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ بھوتنیوں اور چرواہے کے ناچنے کے لیے کوئی ساز نہیں بج رہا تھا۔

جونہی ، مراد اِن کے قریب آیا۔ ان لوگوں نے مراد کے اوپر بھالو کی کھال دیکھی اور ڈر کے مارے گھنے درختوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ مراد نے سوچا کہ یہ لوگ کس قدر برے ہیں۔ میں مسافر ہوں، پیاسا ہوں اور مجھے سخت بھوک لگی ہے۔ مجھے کھانے کے لیے کچھ دینے کی بجائے یہ لوگ بھاگ گئے ہیں۔ وہ سخت تھکا ہوا تھا۔ وہ سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ پھر کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی اسے نیند آگئی۔ کچھ دیر سویا رہا۔ چرواہا اور بھوتنیاں ، مراد کو سویا ہوا دیکھ کر اس کے قریب آگئے۔ وہ اسے غور سے دیکھ رہے تھے اور سرگوشیاں کر رہے تھے۔

’’یہ جوان بھالویہ کی بھالو والی کھال پہنے ہوئے ہے، مگر یہ بھالویہ نہیں ہے۔۔۔‘‘ ایک بھوتنی نے کہا۔

’’دیکھو، یہ کیسا خوبصورت اور توانا نوجوان ہے۔۔۔!‘‘ دوسری بھوتنی نے کہا۔

مراد نے آنکھیں کھولیں اور ان کی باتوں پر مسکرانے لگا۔ پھر کہنے لگا:

’’میں مراد ہوں۔۔۔ میں نے بھالویہ کی بھالو والی کھال اوڑھ لی ہے کیونکہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر مرا پڑا ہے۔۔۔‘‘

یہ سن کر چرواہا اور بھوتنیاں بہت خوش ہوئے۔ وہ گھر کی طرف بھاگے اور انہیں کھانے کے لیے جو بھی ملا، اسے مراد کے لیے اٹھا لائے۔ چرواہا بانسری بجانے لگا۔ سب لوگ خوش ہوگئے۔

’’تم، ادھر ہمارے پاس رہو۔ ہمارے ساتھ ناچو، ہم سب مل کر خوشیاں منائیں گے۔۔۔‘‘

سب بھوتینوں نے مل کر مراد سے کہا:

’’مجھے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ مجھے جلدی سے چاند نگر کی طرف روانہ ہو جانا چاہیے۔‘‘

’’۔۔۔مگر، تمہیں سڑک سے ہٹ کر، پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے، چاند نگر جانا چاہیے۔ سڑک پر بہت سے لٹیرے ہیں۔ وہ سب کچھ لوٹ کر لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ وہ تم سے تمہاری تلوار اور یہ سنہری جوتے چھین لیں گے۔ ایک لٹیرا، ادھر سمندر کے پاس رہتا ہے۔ وہ لوگوں کو لوٹ لیتا ہے۔ پھر انہیں مجبور کر تا ہے کہ وہ اس کے پاؤں کو چومیں، اس کے پاؤں کو دھویں اور نیچے گرنے والے پانی سے اپنا منہ صاف کریں۔ جب اس کے پاؤں کو چومنے کے بعد کوئی شخص انہیں دھونے کے لیے جھکتا ہے تو یہ بدمعاش زور سے ٹانگ مارتا ہے اور آدمی سیدھا سمندر میں جا گرتا ہے۔ سمندر میں اس جگہ پر شارک مچھلیاں ہیں اور آدمی کو گرتے ہی ہڑپ کر لیتی ہیں۔‘‘ چرواہے نے بڑی فکر مندی سے بات سنائی۔

’’میں اس بدمعاش کے سامنے کبھی نہیں جھکوں گا۔ جب میں چاند نگر کا بادشاہ بن جاؤں گا تو پورے علاقے میں کسی بھی لٹیرے یا بدمعاش کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔‘‘ مراد نے کہا۔

’’ٹھیک ہے، ممکن ہے کہ تم ان لٹیروں سے بچ جاؤ۔ مگر اسی علاقے میں ایک پہلوان رہتا ہے۔ وہ ایک قلعے میں رہتا ہے۔ جو کوئی بھی اس قلعے کے قریب سے گزرتا ہے، وہ اسے پکڑ لیتا ہے۔ پکڑ کر اس کی ہڈیاں توڑ دیتا ہے۔۔۔‘‘

ایک بھوتنی نے مراد کو خبر دی۔

’’فکر کی کوئی بات نہیں، جب تک یہ تلوار میرے پاس ہے، میں کسی لٹیرے اور بدمعاش سے نہیں ڈرتا۔ میں اس خوبصورت علاقے سے ان سب کا صفایا کر دوں گا، تاکہ عام لوگ کسی قسم کے خوف میں نہ رہیں۔۔۔ یہ راستے ہر طرح کے خوف سے آزاد ہونے چاہییں۔‘‘ مراد نے بڑے عزم سے کہا۔

مراد، اپنے راستے پر چلتا گیا۔ چرواہا اور بھوتنیاں ، مراد کے لیے سخت فکر مند تھیں۔ انہیں پورا یقین تھا کہ مراد لٹیروں سے نہیں بچ پائے گا۔ مگر، چرواہے اور بھوتنیوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مراد نے سب لٹیروں کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا۔ اس کا سامنا ہڈیاں توڑنے والے پہلوان سے بھی ہوا۔ وہ اس کے قلعے کے اندر داخل ہوا۔ ایک بڑے ہال میں پہلوان بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے بھنی ہوئی پوری بھیڑ پڑی تھی۔ مراد نے پہلوان سے کہا:

’’کیا تم میرے ساتھ کشتی کرنا پسند کرو گے۔۔۔؟‘‘

’’بیٹھو، پہلے کھانا کھالو۔۔۔‘‘

مراد، پہلوان کے ساتھ میز پر بیٹھ گیا۔ اس نے بھیڑ کا تھوڑا سا گوشت کھایا۔ پہلوان نے کچھ نہیں تو اس کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ گوشت کھایا۔ جب پہلوان کھانے سے فارغ ہو گیا تو اس نے مراد سے کہا:

’’چلو، باہر صحن میں چلتے ہیں۔۔۔‘‘

مراد، پہلوان کے ساتھ صحن میں آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ہر طرف انسانوں کی ہڈیاں ہی ہڈیاں تھیں۔ ارد گرد لوگ اکٹھے ہوگئے۔ سب مراد کی جا ن کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔

پہلوان اور مراد کے درمیان کشتی شروع ہو گئی۔ وہ سارا دن اور ساری رات لڑتے رہے۔ سب کو یہی لگ رہا تھا کہ پہلوان، کسی بھی وقت مراد کو اپنی گرفت میں لے کر اس کی پسلیاں توڑ دے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ اگلا دن نکل آیا۔ صحن میں پہلے سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ اچانک مراد نے پہلوان کو اپنے سر کے اوپر اٹھایا اور اسے بڑی طاقت سے زمین پر دے مارا۔ پہلوان تھوڑا سا تڑپا اور اس نے جان دے دی۔ سب خوش تھے اور مراد سے کہہ رہے تھے کہ وہ ان کے پاس کچھ دن رُک جائے ۔ مراد نے ایک روز آرام کرنے میں گزارا اور اگلے دن صبح سویرے چاند نگر کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا۔ وہ پورا دن چلتا رہا۔ راستے میں اسے ایک شاندار گھر نظر آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ آنے والی رات اسی جگہ گزار لے۔ وہ گھر کے قریب آیا۔ اس نے ایک موٹے تازے شخص کو دیکھا جو بہت قیمتی لباس پہنے ہوئے تھا۔ موٹے شخص نے مراد کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر اس سے کہا:

’’ نوجوان، کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟‘‘

’’مجھے چاند نگر جانا ہے۔۔۔ رات ہونے کو ہے، سوچا کہ رات ادھر ہی رہ لوں۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں، خوشی سے ، چاند نگر تو بہت دور ہے۔۔۔ تم ادھر میرے گھر میں رہ سکتے ہو۔۔۔ میرا بستر تمہارے قد کے مطابق بالکل ٹھیک ہو گا۔ تم رات رہو، کھاؤ پیو اور صبح تازہ دم ہو کر سفر پھر سے شروع کر لینا۔۔۔‘‘

مراد کو اس موٹے شخص کی باتیں تو بہت اچھی لگ رہی تھیں مگر اس نے اس کی آنکھوں میں چالاکی اور برائی کی جھلک دیکھی۔ مگر مراد مجبور تھا۔ ہر صورت میں رات تو گزارنا ہی تھی۔ وہ موٹے آدمی کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چلنے لگا۔ گھر، سڑک سے ہٹ کر، ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تھا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد موٹے شخص کا سانس پھولنے لگا۔ اس کے لیے پہاڑی راستے پر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ سانس لینے کے لیے سڑک کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں پیچھے سڑک کی طرف کچھ لوگ نظر آئے۔ موٹے شخص نے مراد سے کہا:

’’مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بھی شاید، رات گزارنے کے لیے میرے گھر کی طرف آرہے ہیں۔ تم آہستہ آہستہ اسی راستے پر چلتے رہو۔ اس راستے کے آخر میں میرا مکان ہے۔ تم خودبخود وہاں پہنچ جاؤ گے۔‘‘

مراد آہستہ آہستہ پہاڑی کی طرف چلتا رہا۔ کچھ فاصلے پر اسے ایک بوڑھا نظر آیا۔ بوڑھا کمر جھکائے، زمین سے خشک ٹہنیاں اکٹھی کر رہا تھا۔ بوڑھے نے مراد سے کہا:

’’بیٹا ، میری مدد کرو اور ان ٹہنیوں کو باندھ کر میرے کندھے پر رکھ دو۔ پھر میں آہستہ آہستہ ان کو گھر تک لے جاؤں گا۔‘‘

مراد نے بوڑھے کی اکٹھی کی ہوئی ٹہنیوں کو باندھا اور انہیں بوڑھے کی کمر پر رکھنے کی بجائے خود اٹھا لیا۔ قریب ہی بوڑھے کی جھونپڑی تھی۔ دونوں اس طرف چلنے لگے۔ بوڑھے کو مراد کا مدد کرنا بہت اچھا لگا۔۔۔کہنے لگا:

’’بیٹا، تمہاری مہربانی جو اس بوڑھے کی مدد کر رہے ہو۔۔۔ مگر تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟‘‘

’’بابا، میر انام مراد ہے اور میں چاند نگر جا رہا ہوں۔ ابھی سڑک پر مجھے ایک موٹا شخص ملا تھا۔۔۔ وہ آگے پہاڑی پر اس کا گھر ہے۔۔۔رات ہونے والی تھی، سوچا اسی گھر میں رات گزار لوں۔‘‘ مراد کی بات سن کر بوڑھا پریشان ہو گیا۔ پھر کہنے لگا:

’’بیٹا ، اس موٹے شخص نے تمہیں ضرور کہا ہو گا کہ اس کے گھر کا بستر ، تمہارے قد کے برابر ہو گا۔۔۔‘‘

’’جی، یہ تو اس نے کہا۔۔۔ مگر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘ مراد نے پوچھا۔

’’بیٹا، پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ موٹا شخص لوگوں کو پھانس کر اپنے گھر تک لاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا بستر آرام دہ ہے، مگر، اگر تم بستر سے زیادہ لمبے ہوئے تو وہ تمہاری ٹانگیں کاٹ کر انہیں بستر کی لمبائی کے برابر کر دے گا۔ اگر تم بستر کی لمبائی کے حساب سے چھوٹے ہوئے تو یہ تمہیں کھینچ کر بستر کی لمبائی کے برابر کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح تمہیں کھینچ کر ما ر ڈالے گا۔ بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اتفاق سے تمہارا قد، بستر کے برابر نکلے۔‘‘

مراد نے بوڑھے کی بات غور سے سنی اور اسے اس کی جھونپڑی تک چھوڑا اور واپس سڑک کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ سڑک کے قریب ، جہاں مراد اس موٹے شخص کو چھوڑ آیا تھا، وہ ابھی تک وہیں بیٹھا تھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا:

’’سنا ہے کہ تم، اپنے گھر میں رات گزارنے والوں کو بستر سے چھوٹا ہونے کی صورت میں، کھینچ کر لمبا کر دیتے ہو۔ اس طرح تم ان کی جان لے لیتے ہو۔ اگر قد زیادہ ہو تو ٹانگیں کاٹ دیتے ہو۔۔۔‘‘

موٹے شخص نے مراد کی بات سنی اور سارا معاملہ سمجھ گیا۔ اس نے تلوار نکالی اور مراد پر حملہ کر دیا۔ مراد، پہلے ہی اس حملے کے لیے تیار تھا۔ اس نے تلوار نکالی اور موٹے شخص کے حملے سے بچنے کے بعد فوراً ایک وار کیا اور اس کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے۔ پھر ایک وار کیا اور ٹخنوں سے نیچے ٹانگوں کو کاٹ دیا۔ موٹا شخص اپنی زندگی کے لیے مراد کے سامنے گڑگڑارہا تھا۔ مراد نے ایک اور وار کیا اور اس کا سر، تن سے جدا کر دیا۔ موٹے شخص کی لاش پہاڑ سے نیچے پھینکوا دی اور خود مراد موٹے شخص کے گھر کی طرف چلنے لگا۔

موٹے شخص کے گھر میں پہنچ کر مراد نے گھر کی تلاشی لی۔ وہاں سے اسے بہت سا سونا اور نقدی ملی۔ موٹا شخص لوگوں کو قتل کر کے، ان سے نقدی اور سونا چھین لیتا تھا۔ مراد نے یہ سارا خزانہ ارد گرد بسے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ سب لوگ اس کا شکریہ ادا کرنے لگے۔ اس سے درخواست کرنے لگے کہ وہ ان کے پاس رہے مگر مراد نے کہا کہ وہ اس دن ان کے پاس آئے گا، جب وہ اس علاقے کا بادشاہ ہوگا۔

مراد کی اپنے باپ سے ملاقات

آخرکار، مرادایک لمبا سفر طے کرنے کے بعدچاند نگر پہنچ گیا۔ وہ شہر میں داخل ہوا تو لوگوں کا ایک ہجوم اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھا۔ سب لوگوں کو اس کے کارناموں کے بارے میں معلوم تھا۔ سب لوگ، مراد کو اپنے پاس ٹھہرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ مگر مراد نے کہا کہ وہ فوراً چاند نگر کے راجا کے پاس اس کے محل میں جانا چاہتا ہے۔

مراد کو بتایا گیا کہ راجا کا محل ، شہر کے ایک طرف، سمندر کے پاس، ایک پہاڑی پر ہے۔ مراد محل میں پہنچا۔ محل کے اندر کوئی محافظ نہ تھا۔ مراد سیدھا محل کے دربار والے ہال میں پہنچا۔ وہ حیران تھا کہ اس کا باپ کیسے ملک کا بادشاہ ہے، جہاں اس کی حفاظت کے لیے کوئی سپاہی نہیں۔ مراد نے اپنی تلوار اور سنہری جوتے اپنے لمبے چولے میں چھپا لیے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ اسے فوراً پہچان لے۔ دربار والے ہال میں ایک طرف ایک بہت بڑی میز تھی اور اس کے ارد گرد بہت سے سپاہی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو محل کی حفاظت پر مامور تھے مگر اپنا کام چھوڑ کر کھانے میں مصروف تھے۔ ان سپاہیوں نے مراد کو دربار ہال میں داخل ہوتے دیکھا اور ان میں سے ایک نے چلّا کر کہا:

’’اوئے نوجوان ، تم کون ہو؟ تم کیوں محل میں داخل ہوگئے ہو۔۔۔؟ کیا کام ہے تمہیں۔۔۔؟‘‘

’’میں تمہارے بادشاہ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘

مراد کے کہنے پر سب سپاہی ہنسنے لگے۔ سب کہہ رہے تھے:

’’یہاں ہم سب بادشاہ ہیں۔۔۔ بولو، ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔؟‘‘

’’جاؤ، اپنے بادشاہ سے کہو کہ مراد اس سے ملنے کے لیے آیا ہے۔۔۔‘‘ مراد نے کہا۔

ایک سپاہی بادشاہ کی طرف بھاگا۔ بادشاہ اس وقت چڑیل کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ ’’بادشاہ سلامت، کوئی نوجوان اپنا نام مراد بتاتا ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔‘‘ سپاہی نے بادشاہ سے کہا۔

بادشاہ نے یہ بات سنی اور اپنے پیروں پر اُچھلا۔ وہ دروازے کی طرف بھاگا مگر چڑیل نے اسے روک لیا۔ کہنے لگی:

’’ٹھہرو، کہاں بھاگے جارہے ہو؟ پہلے یہ بتاؤ کہ یہ نوجوان مراد کون ہے؟‘‘

’’مراد، وہ جوان ہے ،جس نے ہمارے علاقے میں تمام لٹیروں اور بدمعاشوں کا خاتمہ کر دیا۔ مجھے فوراً جا کر ایسے بہادر جوا ن کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔‘‘ بادشاہ نے یہ کہا اور دربار ہال میں چلا آیا۔ چڑیل خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔

مراد نے اپنے باپ کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ فوراً آگے بڑھے اور اپنے باپ سے بغل گیر ہو جائے۔ مگر مراد نے اپنے آپ کو سمجھایا۔۔۔ ’نہیں، ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ پہلے دیکھتا ہوں کہ میرا باپ مجھے دیکھ کر کیا کرتا ہے۔۔۔؟‘‘ مراد، آگے بڑھا اس نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا۔ پھر کہنے لگا:

’’ میں کئی دنوں سے آپ کی سلطنت میں لٹیروں اور بدمعاشوں سے لڑ رہا ہوں۔ میں نے ان تمام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب میں کافی تھک گیا ہوں۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ کچھ روز رہ لوں۔ ایک بستر مل جائے تاکہ تھکاوٹ دور کر لوں۔۔۔‘‘ بادشاہ نے مراد کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اس کے دل میں مراد کے لیے پیار کی ایک لہر اٹھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ نوجوان کس قدر خوبصورت اور بہادر ہے۔۔۔ پھر کہنے لگا:

’’ارے، یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟ بستر کی کیا بات ہے۔۔۔میرے پاس جو کچھ بھی ہے، تمہارے لیے حاضر ہے۔۔۔!!‘‘

اسی دوران میز کے ارد گرد بیٹھے سپاہی آپس میں سرگوشی کر رہے تھے:

’’یہ ذرا بادشاہ کو تو دیکھو، کیسے بڑھ بڑھ کے اس نوجوان کی تعریفیں کر رہا ہے۔ اس نوجوان کو فوراً محل سے نکالنا ہو گا ورنہ ہم میں سے کوئی بھی بادشاہ نہیں بن سکے گا۔۔۔‘‘

سپاہیوں نے میز کے گرد ، مراد کے لیے جگہ بنائی اور اسے کھانا دیا۔ بادشاہ اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ کھانے کے دوران مراد نے، بادشاہ کو اپنی لڑائیوں کے بہت سے قصّے سنائے۔ اسی دوران چڑیل میڈی مسلسل بادشاہ اور مراد کی باتیں سن رہی تھی۔ اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بادشاہ ، مراد کو دل سے پسند کر رہا ہے۔ اس نے سوچا:’ کہیں ایسا نہ ہو کہ بادشاہ جو اب بوڑھا ہو چکا ہے، اس لڑکے کو اپنا جانشین بنا دے۔ مجھے چاہیے کہ میں وہی دوا اس لڑکے کو کھلا دوں جو میں بادشاہ کو کھلاتی ہوں تاکہ دونوں وہی کام کریں جس کی میں خواہش کروں۔۔۔‘‘

چڑیل دربار سے اٹھی اور پھر کچھ دیر میں واپس آگئی ۔ اس کے ہاتھ میں سونے کا خوبصورت کپ تھا۔ وہ مراد کے پاس آئی اور کہنے لگی:

’’نوجوان، مجھے خوشی ہے کہ تم نے ہمارے علاقے میں بہت سے لٹیروں کو ختم کر دیا ۔ تم بہت بہادر ہو۔ تم سخت تھک گئے ہو۔۔۔ تمہارے لیے یہ شربت لائی ہوں۔ اس کو پی کر تمہاری تھکاوٹ دور ہو جائے گی۔‘‘

مراد نے سونے کا پیالہ ہاتھ میں پکڑ لیا۔ پھر اس نے چڑیل کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ اس کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کی آنکھیں خطرناک سانپ جیسی ہوں۔ اسے فوراً ماں کی بات یاد آئی، جس میں اس نے چڑیل کا ذکر کیا تھا۔ مراد ساری بات سمجھ گیا۔ پھر چڑیل سے کہنے لگا:

’’آپ کا بہت شکریہ۔۔۔ آپ میرے لیے یہ خاص شربت لے کر آئیں۔۔۔ مگر آپ مجھ سے بڑی ہیں۔۔۔ میری درخواست ہے کہ پہلے آپ شربت کا ایک گھونٹ پی لیں، اس کے بعد میں شربت پیوں گا۔‘‘

’’نہیں نہیں، تم مہمان ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پہلے میں شربت پیوں اور پھر اسی کپ میں اپنے مہمان کو شربت پیش کروں۔۔۔‘‘

بادشاہ دونوں کی گفتگو سن کر خوش ہو رہا تھا۔ اس نے مراد سے کہا:

’’کیسے پیارسے تمہیں شربت پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔تم تکلف چھوڑو اور بس اسے پی لو۔۔۔‘‘

’’نہیں، شربت ،یہ عورت ہی پیئے گی اور یہی شربت پی کر اسے مرنا ہو گا۔۔۔‘‘

مراد کی یہ بات سن کر تمام سپاہی اپنی اپنی جگہ سے اچھلے۔ بادشاہ یہ سب دیکھ اور سُن کر پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا:

’’مراد، تم یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘

چڑیل نے مراد سے کپ لیا اور اسے زمین پر پٹخ دیا۔ سارا شربت زمین پر گر گیا اور چڑیل چیختی چلاتی ہوئی محل سے باہر کی طرف بھاگنے لگی۔ مراد نے فوراً اپنی تلوار نکالی اور بھاگتی ہوئی چڑیل کو مارنے کے لیے دوڑا۔ چڑیل بھاگتی ہوئی ایک دم چیل بن گئی اور لمبے لمبے پر ہلاتی ہوئی نظروں سے غائب ہو گئی۔ اس کے بعد کسی نے چڑیل کو چاند نگریا اس کے آس پاس کبھی نہ دیکھا۔

بادشاہ یہ سب واقعہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ پریشان تھا اور چلّانے لگا:

’’مراد، یہ تم نے کیا کر دیا۔۔۔؟‘‘

’’یہ نیچے زمین کی طرف دیکھیں ، جہاں جہاں شربت گرا ہے، وہاں پر لگی اینٹیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ میں نے آپ کے محل اور چاند نگر سے ایک اور بلا کو ختم کر دیا ہے۔ یہ چڑیل ہی دراصل اس ملک کی مالک بن بیٹھی تھی۔ اس نے آپ کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا۔ میری ماں نے یہ تلوار اور جوتے دیے تھے کہ میں ادھر چاند نگر آکر یہاں کے بادشاہ کی خدمت کروں۔ اسے چڑیل کے اثر سے باہر نکال دوں۔۔۔‘‘

جب بادشاہ نے تلوار اور جوتے دیکھے تو وہ مراد کی طرف بھاگا۔ اسے گلے لگایا، اس کا ماتھا چوما اور کہنے لگا:

’’میرے بیٹے، بیٹے مراد، تم اس وقت میرے پاس آئے جب مجھے تمہاری مدد کی سخت ضرورت تھی۔۔۔‘‘ پھر میز کے ارد گرد بیٹھے سپاہیوں کی طرف توجہ دی اور ان سے کہنے لگا:

’’دیکھو، یہ میرا بیٹا ہے۔ دیکھو، کیسا خوبصورت اور بہادر بن گیا ہے۔ یہ مجھ سے بھی بہتر بادشاہ بنے گا۔۔۔‘‘

’’تمہیں کیسے معلوم ہوا ہے کہیہ لڑکا واقعی تمہارا ہی بیٹا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے دھوکے سے تم پر یہ ثابت کر دیا ہوکہ وہ ہی تمہارا بیٹا ہے۔۔۔ ہم اسے فوراً محل سے باہر نکال دیں گے۔۔۔‘‘

سپاہیوں نے سخت غصے میں بادشاہ سے کہا۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ بوڑھا بادشاہ انہی میں سے کسی ایک کو اپنا جانشین بنائے۔

’’دیکھو، میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔۔۔ ہم سب دوستوں کی طرح رہیں تو اچھا ہے۔۔۔‘‘ مراد نے سپاہیوں کو سمجھایا۔

مراد کی بات کا سپاہیوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ سب مل کر مراد پر حملہ کر دیں گے۔

اچانک بیس سپاہیوں نے مراد پر ہلہ بول دیا۔ مراد ان سب پر بھاری تھا۔ اس نے چند منٹوں میں ہی دس بارہ سپاہیوں کو گرا دیا۔ باقی ڈر کے مارے محل سے بھاگ گئے۔

لڑائی کے بعد مراد اپنے باپ کے پاس آیا۔ بادشاہ نے فوراً پورے شہر میں اعلان کروایا کہ اس رات کو محل میں شاندار جشن ہو گا۔ رات کو اس نے لوگوں کو بتایا کہ چاند نگر میں لٹیروں، بدمعاشوں اور بُرے کام کرنے والے لوگوں کو ختم کرنے والا، کوئی اور نہیں، اس کا اپنا بیٹا مراد ہے۔ سب لوگ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور امن و امان سے رہنے لگے۔

مراد اور آدم خور بلا

مراد، اپنے باپ کے ساتھ ایک سال محل میں رہا۔ وہ بہت خوش تھا اور اکثر اپنی ماں کو یاد کرتا رہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ا س کی ماں بھی چاند نگر آجائے۔ وہ یہ بات سوچتا تو اس کا دل خوش ہو جاتا۔ اس نے اپنے باپ سے بھی ماں کو چاند نگر لانے کا کہا۔ باپ نے بات سنی اور چپ ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مراد کے دل میں یہ بات آئی کہ شاید اس کا باپ، اس کی ماں کو یہاں نہیں لانا چاہتا۔ وہ باپ سے اس معاملے پر بات کرنے کا سوچ رہا تھا کہ ایک عجیب و غریب واقعہ ہو گیا۔

ایک دن مراد سمندر کے کنارے سیر کر کے واپس شہر میں لوٹا۔ اس نے محسوس کیا کہ شہر کے لوگ اداس سے ہیں۔ وہ شہر کے مضافات سے بڑے بازار میں داخل ہوا۔ وہاں جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ کوئی شخص بھی بات نہیں کر رہا تھا۔ سب اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ سب سخت پریشان تھے۔ مراد لوگوں کی ایک ایک ٹولی کے پاس آیا اور ان سے پوچھنے لگا:

’’آج پورے شہر کو کیا ہو گیا ہے؟ کوئی بھی بات نہیں کر رہا۔ سب اتنے پریشان کیوں ہیں۔۔۔؟‘‘

لوگوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور مراد کی بات سنی ، اَن سنی کر دی۔ مگر مراد نے دیکھا کہ ایک بوڑھے شخص نے اپنی انگلی سے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے۔

مراد سخت پریشانی میں، تیز تیز چلتا ہوا، محل میں آیا۔ اس نے دیکھا، اس کا باپ محل کے ایک باغ میں کھڑا ہے اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا، راستے کے پتھروں کو گھور رہا ہے۔ بادشاہ بھی پریشان تھا۔ مراد باپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:

’’ابا، آج کیا ماجرا ہے، جو ہر شخص پریشان ہے۔ آپ بھی گہری سوچ میں گم ہو۔۔۔‘‘

بادشاہ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مراد کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا باپ صرف پریشان ہی نہیں، دکھی بھی ہے۔ بادشاہ نے اپنے بازو سے آنکھوں سے چھلکتے ہوئے آنسو صاف کیے اور کہنے لگا:

’’بیٹا، سخت پریشانی والا واقعہ ہونے والا ہے۔ جلد ہی تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔۔۔‘‘

اس کے بعد بادشاہ خاموش ہو گیا۔ مراد کا دل دھک دھک دھڑکنے لگا۔ اسے سخت بے چینی ہو رہی تھی۔

کچھ دیر میں، چاند نگر کے ساحل پر ایک جہاز اترا۔ اس میں سے ایک شخص اترا۔ اس نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یہ شخص چاند نگر کی گلیوں میں گھومنے لگا۔ جو کوئی بھی، اس شخص کو دیکھتا، واویلا مچانا شروع کر دیتا۔ شہر میں ہاہا کار مچ گئی۔ کالے کپڑوں والے اس شخص نے اس پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا، جس کے اوپر بادشاہ کا محل تھا۔ مراد پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے شہر میں لوگوں کی چیخ و پکار سنی تو اپنے باپ کی طرف بھاگا۔

’’ابا، یہ سب کیا ہے؟ چاند نگر کے لوگ کیوں کر چیخ و پکار کر رہے ہیں؟‘‘

اتنے میں کالے کپڑوں والا شخص محل میں نمودار ہوا۔ بادشاہ نے اس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مراد سے کہا:

’’جاؤ، اس کالے کپڑوں والے شخص سے پوچھو۔۔۔!‘‘

مراد، اس شخص کے پاس آیا۔ اس سے پوچھنے لگا:

’’۔۔۔تم کون ہو۔۔۔؟ تم یہاں کیوں آئے ہو؟ تمہیں دیکھ کر لوگ کیوں چیخ رہے ہیں۔‘‘

کالے کپڑوں والا شخص کہنے لگا:

’’تم نے ایک سانس میں اتنے سارے سوال کر دیے۔ میں تم کو ان سب کے جواب دیتا ہوں۔۔۔ سنو، میں اندھیر نگری کے بادشاہ کی طرف سے یہاں آیا ہوں۔ میں ہر سال یہاں آتا ہوں اور تمہارا باپ سات نوجوان بچے اور سات نوجوان بچیاں اندھیر نگری کے راجا کے لیے تحفے کے طور پر دیتا ہے۔‘‘

’’مگر چاند نگر کا بادشاہ، یہ تحفہ کیونکر اندھیر نگری کے بادشاہ کو بھیجتا ہے۔۔۔؟‘‘ مراد نے سخت بے قراری سے پوچھا۔

’’یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ کہانی بھی دکھ بھری ہے۔ ہوا یہ کہ اندھیر نگری کے بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ کھیلوں کے سلسلے میں چاند نگر آیا۔ وہ بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ کسی نے اندھیر نگری کے بادشاہ کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے کس نے قتل کیا تھا۔ جب یہ خبر، اس لڑکے کے باپ کو ملی تو اس نے بڑے بڑے جہازوں کے ساتھ چاند نگر پر چڑھائی کر دی۔ وہ سخت غصے میں تھا اور اپنے بیٹے کا بدلہ لینے کے لیے چاند نگر کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتا تھا۔ تمہارا باپ یہ ساری صورت حال سمجھ گیا۔ وہ اندھیر نگری کے بادشاہ کے پاس آیا اور اسے سمجھانے لگا کہ وہ چاند نگر کو آگ نہ لگائے۔۔۔ اس کے بدلے میں وہ کوئی بھی بات ماننے کو تیار ہے۔ اس پر اندھیر نگری کے بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ کیا وہ ہر سال سات نوجوان بچوں اور سات نوجوان بچیوں کو دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس پر تمہارے باپ نے ہامی بھر لی۔ اندھیر نگری کا بادشاہ ان چودہ معصوم نوجوانوں کو ایک بلا کے آگے پھینک دیتا ہے۔ یہ بلا، ان چودہ معصوموں کو سال میں ایک دفعہ کھا لینے کے بعد پھر اس علاقے کا رخ نہیں کرتی۔‘‘ سیاہ لباس والے شخص نے یہ قصہ سنایا۔ اس قصے کو سن کر مراد کے غصے کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ کہنے لگا:

’’میں تمہاری باتوں پر یقین نہیں کر سکتا، تم جھوٹے ہو۔ میں اس وقت تک یہ بات نہیں مانوں گا، جب تک کہ میرا باپ مجھے یہ نہ بتا دے کہ سچ کیا ہے۔۔۔‘‘

مراد واپس اپنے باپ کے پاس آیا۔ اس سے ساری بات کہی۔ اس کے باپ نے بات سنی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کہنے لگا:

’’بد قسمتی سے یہ با ت درست ہے۔ اندھیر نگری کے بادشاہ کے بیٹے کا قتل واقعی سخت ناپسندیدہ واقعہ تھا۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب کسی ایک کے جرم کی سزا ، پورے چاند نگر کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ تویہ میرا فیصلہ ہے کہ میں خود ان سات نوجوانوں میں شامل ہوں گا، جو اس سال بلا کا لقمہ بنیں گے۔‘‘ مراد نے کہا:

بادشاہ کا دل کانپ اٹھا۔ کہنے لگا:

’’نہیں بیٹا، تمہیں ہرگز نہیں جانا چاہیے۔۔۔ تمہیں معلوم نہیں، اندھیر نگری کا بادشاہ، ان چودہ نوجوانوں کو ایک بلا کے آگے پھینک دیتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لے رہا ہے۔ یہ بلا دیکھنے میں بیل جیسی ہے مگر اس کا منہ شیر سے بھی زیادہ خطرناک اور خونخوار دکھائی دیتا ہے۔۔۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ مگر میں پھر بھی ان نوجوانوں میں شامل ہوں گا تاکہ اس بلا کا خاتمہ کر سکوں۔۔۔‘‘

’’تم اتنی طاقتور اور خونخوار بلا کو کیسے مار سکتے ہو۔۔۔ تم جب اندھیر نگری کے لیے روانہ ہو گے تو وہ تمہاری تلوار بھی تم سے چھین لیں گے۔۔۔‘‘

’’میرے پاس میرے بازو، ٹانگیں اور دانت تو ہوں گے۔۔۔ مجھے ہر حال میں جانا ہی ہوگا۔۔۔‘‘

’’ٹھیک ہے اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں تمہیں نہیں روکوں گا۔۔۔ مگر ایک کام ضرور کرنا۔ جو جہاز تمہیں اندھیر نگری تک چھوڑنے جائے گا، اس پر سیاہ جھنڈے نصب ہیں۔ جب یہ جہاز واپس آئے، اگر تم اس پر سوار ہوئے تو سیاہ جھنڈوں کی بجائے سفید جھنڈے لگا دینا۔۔۔ میں ہر روز سمندر پر تمہاری راہ دیکھوں گا۔۔۔‘‘ بادشاہ نے مراد سے کہا۔

مراد نے ویسا ہی کرنے کا وعدہ کیا جیساکہ اس کے باپ نے کہا تھا۔ وہ سمندر کی طرف بھاگا جہاں سیاہ جھنڈوں والا جہاز کھڑا تھا۔ ارد گرد چاند نگر کے لوگ رو رہے تھے۔ چودہ نوجوان بچوں اور بچیوں کو جہاز پر سوار کیا گیا۔ تھوڑی دیر میں جہاز چلنے لگا اور اندھیر نگری کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب جہاز، اندھیر نگری پہنچ گیا تو چودہ نوجوانوں کو جہاز سے اتارا گیا۔ انہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ مراد ان سب کے درمیان میں سے آگے بڑھا اور بادشاہ سے کہنے لگا:

’’میں مراد ہوں، چاند نگر کے بادشاہ کا بیٹا۔ میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں۔ میری درخواست ہے کہ سب سے پہلے مجھے ہی بلا کے سامنے پھینکا جائے۔۔۔‘‘

’’تم بہت بہادر ہو۔۔۔ تمہیں ڈر نہیں آرہا کہ تم جو بات کر رہے ہو اس کا مطلب موت ہے۔۔۔‘‘

’’میں اپنے باپ کی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘ اندھیر نگری کا بادشاہ کافی دیر تک مراد کو دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔۔۔ پھر کہنے لگا:

’’تم واقعی بہت بہادر ہو۔۔۔ نڈر بھی۔۔۔ بہادر بچوں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے باپوں کی غلطیوں کو درست کریں۔ مگر میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔۔۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم واپس چاند نگر چلے جاؤ۔۔۔ تم جیسے بہادر کو مرنا نہیں چاہیے۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ میں چاند نگر واپس نہیں جاؤں گا۔ میں اس وقت تک نہیں لوٹوں گا جب تک اس بلا کو نہ دیکھ لوں جس کا جسم بیل جیسا ہے اور سر خونخوار شیر جیسا‘‘ مرا دنے بڑے حوصلے کے ساتھ بادشاہ سے بات کی۔

ساتوں نوجوان بچوں اور ساتوں نوجوان بچیوں کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ ایک دن بادشاہ کی بیٹی جیل کا دورہ کرنے آئی۔ اس نے جیل کے سپاہیوں سے مراد کے بارے میں پوچھا۔ سپاہی اسے مراد کے پاس لے آئے۔ بادشاہ کی بیٹی نے مراد کی بہادری کے قصے سن رکھے تھے۔ اس نے جب مراد کو دیکھا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مراد جیسا بانکا نوجوان مارا جائے۔

رات ہوگئی۔ جیل کے سب قیدی سو گئے۔ بادشاہ کی بیٹی جیل میں گئی۔ اس نے جیل کے سپاہیوں کو شربت پلا دیا۔ شربت میں نشے والی دوا تھی۔ شربت کو پیتے ہی سپاہی بے ہوش ہو کر گرنے لگے۔ جب سب سپاہی بے ہوش ہوگئے تو بادشاہ کی بیٹی نے جیل کا دروازہ کھولا۔ وہ مراد کے پاس آئی اور بہت آہستگی سے اسے کہنے لگی:

’’میں فرزینہ ہوں، اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی۔ میں نے تمام سپاہیوں کو نشے والا شربت پلا کر بے ہوش کر دیا ہے۔ جیل کے دروازے اب کھلے ہیں۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ تم اور تمہارے ساتھی بلا کی خوراک نہ بنو۔۔۔ مگر جاتے وقت مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔۔۔ جب میرے باپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے تم لوگوں کی یہاں سے فرار ہونے میں مدد کی ہے تو وہ مجھے مارڈالے گا۔۔۔‘‘

مراد پہلے تو اتنی خوبصورت لڑکی کو اپنے پاس کھڑی اور سرگوشیاں کرتے دیکھ کر بہت حیران ہوا ۔جب اس نے ساری بات سن لی تو کہنے لگا:

’’میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔ اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک اس بلا کا خاتمہ نہ کرلوں۔‘‘

فرزینہ نے اپنی عبا میں سے ایک تلوار اور موٹی رسی کا گولہ باہر نکالا۔ انہیں مراد کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگی:

’’مجھے معلوم تھا کہ تم بہادر ہو اور اپنا کام مکمل کیے بغیر واپس نہیں جاؤ گے۔ اسی لیے یہ ہتھیار تمہارے لیے لے کر آئی ہوں۔۔۔‘‘

’’کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ وہ بلا کہاں رہتی ہے۔۔۔؟‘‘

’’وہ بلا ، شہر کے باہر چاروں طرف پھیلے پہاڑوں کے اندر غاروں میں کہیں رہتی ہے۔ آج تک جو کوئی بھی غاروں کے اندر گیا، واپس نہ آسکا۔ جو کوئی اس غار کے اندر جاتا ہے، اپنا واپسی کا راستہ نہیں ڈھونڈ پاتا۔ اس طرح وہ ان غاروں میں بھٹکتا، بھوک پیاس سے مر جاتا ہے۔۔۔تم اگر اس بلاکو مار بھی لو، پھر بھی تمہارا بچ رہنا ممکن نہیں۔۔۔صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ تم اس رسی کو غار میں داخل ہونے سے پہلے کسی پتھر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دو۔ رسی کے گولے کو اپنے ساتھ غار میں لے جاؤ۔ غار میں، تم جہاں جاؤ گے، رسی کو کھولتے جانا۔ جب واپس آنے لگو تو رسی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے تم خودبخود غار سے باہر چلے آؤ گے۔۔۔ اب تم جلدی کرو اور جیل سے بھاگ جاؤ۔ ابھی کچھ دیر میں سپاہیوں کو ہوش آجائے گا۔۔۔‘‘

فرزینہ نے مراد کو اپنے ساتھ لیا اور ان غاروں تک لے آئی جہاں بلا رہتی تھی۔

مراد نے رسی کا ایک سرا، ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھا اور رسی کے گولے کو پکڑ کر، رسی کو کھولتا ہوا غاروں میں اترنے لگا۔ کچھ دیر میں پہاڑوں پر رہنے والے پرندوں کی آوازیں ختم ہوگئیں۔ وہ بہت دور جانکلا۔ اسے دور سے بیل کے ڈکرانے کی آواز آرہی تھی۔ آواز بہت خوفناک تھی۔ مراد نے فوراً، اپنی کمر سے بندھی تلوار کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ غارمیں بالکل اندھیرا تھا۔ وہ ٹٹولتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اسے غار کے دوسرے حصے پر ہلکی سی روشنی نظر آئی۔ مراد روشن جگہ کے پاس پہنچا۔ یہاں بلا کی آواز اس قدر زیادہ تھی کہ مراد کا دل دہلنے لگا۔ اس نے اوپر کی طرف دیکھا، ایک لمبی سرنگ آسمان کی طرف جا رہی تھی۔ روشنی اسی سرنگ سے نیچے آرہی تھی۔ مراد نے غار میں چاروں طرف دیکھا۔ بہت کم اونچائی پر غار میں ایک بہت بڑی کھوہ بنی ہوئی تھی۔ بلا اسی کھوہ میں بیٹھی تھی۔

مراد بلا کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا۔۔۔ کئی بیلوں کے برابر جسم والی بلا کا چہرہ شیر جیسا تھا۔ سینگ بالکل بیلوں جیسے، دانت لمبی لمبی تلواروں کی طرح باہر کی طرف نکلے ہوئے۔ جب یہ بلا دھاڑتی تو اس کے منہ سے شعلہ نکلتا۔۔۔ مراد نے جب اس بلا کو دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اس کا دل کانپ گیا۔ سوچنے لگا یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ مگر فوراً ہی اس کا ارادہ بدل گیا۔ سوچنے لگا کہ ہر صورت میں اس بلا کو مارنا ہو گا۔۔۔ تبھی تو معصوم جانوں کو بچایا جا سکے گا۔ اس نے مقابلہ کرنے کاا رادہ کیا اور اپنی تلوار بلا کے پیٹ میں چبھونے کی کوشش کی۔ بلا غراتی ہوئی باہر نکلی اور مراد پر حملہ کر دیا۔ مراد نے ایک طرف چھلانگ لگائی اور بلا کے حملے سے بچ نکلا۔ مگر فوراً مڑ کر بلا کی پشت پر تلوار کا زور دار حملہ کر دیا۔ حملہ تو بہت کاری رہا مگر پشت اتنی مضبوط تھی کہ ہلکے سے زخم سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا۔ مراد نے سوچا کہ بلا کے پیٹ کے نیچے والا حصہ نرم ہے، اس پر وار کرنا چاہیے۔ یہاں وار کرنا مشکل تھا۔ مراد تیزی سے بھاگتا ہوا، غار کی دیوار کے ساتھ بنے مٹی کے تودے پر چڑھ گیا۔ بلا، اس کے پیچھے دوڑی اور سخت غصے میں اپنے سینگ اس تودے میں دے مارے۔ مراد نے فوراً تلوار کا وار بلا کی گردن پر کیا۔ وار خاصا زور دار تھا۔ بلا کی گردن سے خون بہنے لگا۔ خون، سرخ ہونے کی بجائے گہرے سبز رنگ کا تھا اور اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ بلا نے سخت بپھرے ہوئے طریقے سے پھر مراد پر حملہ کیا مگر گردن پر چوٹ کے باعث بلا ،مٹی کے تودے پر گر گئی۔ مراد نے بلا کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور اس کی پشت کی طرف سے اس کے پیٹ میں تلوار گھونپ دی۔ بلا ایک طرف گر گئی۔ مراد نے آگے بڑھ کر بلا کی گردن کاٹنا چاہی مگر مرتے مرتے اس نے اپنے سینگ مراد کی ٹانگوں پر دے مارے۔ مراد کو چوٹ تو لگی مگر پھر بھی اس نے بلا کا گلہ کاٹ کر اسے ختم کر دیا۔

مراد نے سکھ کا سانس لیا۔ رسی کا گولہ اٹھایا اور اس کو لپیٹتا ہوا غار سے باہر کی طرف چلنے لگا۔ کافی دیر کے بعد وہ غار کے منہ پر آنکلا۔ وہاں فرزینہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ مراد نے فرزینہ سے کہا:

’’بلا کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔‘‘

وہ دونوں جیل میں آئے اور ساتھیوں کو خبر دی۔ فرزینہ نے انہیں فوراً واپس چاند نگر جانے کا مشورہ دیا۔ اس نے سپاہیوں کو ایک کمرے میں بلوا کر انہیں بند کر دیا۔

فرزینہ بھی ان چودہ نوجوانوں کے ساتھ ساحل کی طرف چلنے لگی۔ راستے میں ایک بوڑھی عورت نظر آئی۔ اس نے مراد سے کہا:

’’مراد ، تمہیں پتا ہے چاند نگر کے لوگوں نے ایک قتل کی سزا کیسے کاٹی۔۔۔ اب یہ نہ کرو۔۔۔ فرزینہ کو اس کے باپ کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ نہ لے جاؤ۔‘‘ مراد بڑھیا کی بات سمجھ گیا۔ اس نے فرزینہ کا شکریہ ادا کیا اور پھر واپس آنے کا وعدہ کیا۔ سب لوگ جہاز کی طرف دوڑے۔ جہاز پر اب بھی سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔

سب لڑکے اور لڑکیاں بلا کے خاتمے اور اپنی جانوں کے بچ جانے پر بہت خوش تھے۔ مراد خوش نہ تھا۔ وہ اداس تھا کیونکہ فرزینہ، جس نے ا س کی مدد کی، اس کے ساتھ نہ تھی۔

مراد اپنی اداسی کی وجہ سے جہاز پر سفید جھنڈا لہرانے والی بات بھول گیا۔ کسی اور نے بھی اسے اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ یا دنہ دلایا۔

مراد کے اندھیر نگری جانے کے بعد اس کا باپ ہر روز سمندر پر آتا اور سمندر میں آتے جاتے سب جہازوں کو دیکھتا رہتا۔ ایک روزہ وہ اپنی عادت کے مطابق سمندر پر آیا۔ اسے دور سے ایک جہاز چاند نگر کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اسے لگا کہ جہاز کے اوپر جھنڈا لہرا رہا ہے۔ وہ جھنڈے کو دیکھنے کے لیے ایک پہاڑی پر چڑھ آیا۔ جب جہاز تھوڑا سا اور قریب آیا تواس نے جہاز پر لہراتا ہوا، سیاہ جھنڈا دیکھا۔ اس کا دل جیسے ایک دم رک گیا۔ اس نے سوچا میرے ملک کے چودہ نوجوان بچے بلا کا لقمہ بن گئے۔۔۔ ان میں میرا اپنا لال بھی شامل تھا۔ یہ سب بادشاہ سے برداشت نہ ہو سکا۔ اس نے ایک آہ بھری اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔

مراد وطن واپس آیا تو اسے اپنے باپ کے مرنے کی خبر ملی۔ اسے جھنڈے والی بات یاد آئی مگر وہ اب کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کئی دن کے سوگ کے بعد چاند نگر کے لوگوں نے مراد کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ مراد نے ایسی اچھی حکومت کی کہ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button