کالمز

معاشرے میں عدم برادشت کا بڑھتاہوا رجحان

تحریر: محمد صابر
گولدور ، چترال

ہمارے ملک پاکستان میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اتحادو اتفاق فروغ کیو ں نہیں پارہا اور اس کے پس منظر میں وہ کون کونسے عوامل شامل ہیں جو اس راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں ۔ کسی بھی معاشرے میں برداشت ہی وہ اہم عنصر ہے جو افراد کو باہم ہم آہنگی کی لڑی میں پروئے رکھتا ہے اس کے بر خلاف جہاں کہی بھی عدم برداشت اور معمو لی معمولی باتوں میں لوگ باہم دست وگریبان ہوں تو پھر اس معاشرے کا اخلاقی زوال اور بگاڑ شروع ہو جاتاہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد (مسلمانوں کا الگ تشخص) پر بنا ہے اور اس میں جتنے بھی مذہب فرقے اور مسلک کے لو گ رہتے ہیں ۔ ان سب کے جذبا ت اور احساسات کا احترام کرنا اور ان کو ان کے مذہب کے مطابق عبادات اور رسم و رواج کی بجا آوری پر ان کو سہولیات بہم پہنچانا ہماری اوالین ذمہ داری ہے۔ مگر کسی کو بھی دین اسلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہے اور جو کوئی بھی اس قبیح فعل میں ملوث پایا گیااسے ریاستی ادارے قانون کے کٹہڑے میں لاکر سخت سے سخت سزا دینگے۔ پاکستان میں ہر طبقے مذہب اور فرقے کے لوگ رہتے ہیں جن میں مسلمان اکثریتی آبادی کے علاوہ عیسائی ،سکھ ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی کثیر تعدادبھی شامل ہے ۔ہمیں بحشیت مسلمان اور ایک ذمہ دار پاکستانی کے ان سب کے حقو ق کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے ۔کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اقلیتوں کو ان کا بھر پور حق دیا گیاہے۔

نبیﷺ نے آخری دور کے بارے میں ارشاد فر مایا تھا کہ امت محمدؐ73فرقوں میں بھٹکیں گے انؐ کی ارشاد کے مطابق مسلمانوں کے اندر کئی فرقے اور مسالک وجود میں آچکے ہیں ۔ پاکستان میں ایسے کئی فرقے اور مذاہب ہیں جن کے پیروں کاروں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہیں ۔ ایک فرقے کے نزدیک ایک شخصیت سرفہرست ہے تو دوسرے فرقے کے نزدیک وہی شخصیت دوسرے تیسرے یا چوتھے نمبر پر ۔ ایک مسلک کی نظر میں رفع ہدین کے بغیر نماز نامکمل سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے مد مقابل دوسرے مسلک میں رفع یدین کا ترک کرنا افضل ہے ۔ ان حالات میں صبر سے کام لیناچاہیے اور باہمی اتحاد کو فروغ دینا اور برداشت کا حصول نہایت ہی مشکل اور ضروری امر ہے اسکے علاوہ کوئی اور چارہ کار ہے ہی نہیں ۔

اسی حوالے سے ایک اورچیز جو کہ اتحاد و اتفاق کی راہ میں حائل ہے وہ ہے تمام سیاسی پارٹیوں کے دستورو منشور یعنی پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ہر ایک کا اپنا منشوراور دستور ہوتا ہے ۔معزرت کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے ان پارٹیوں کا دستور اور منشو ر پاکستان اور پاکستانیت کی بقا اور فلاح کے لیے نہیں بلکہ محض پارٹی یا جماعت کی بقاکے لیے ہوتاہے ۔ جن میں پاکستان اور پاکستانیت کہی بھی نظر نہیں آتا۔ پارٹی کا دستور اور منشور تشکیل دیتے ہوئے ہمارے سیاستدان پارٹی دستورمیں پاکستان کے وہ کون کونسے مفادات سامنے رکھتے ہیں یہ بات سبھی خوب خوب جانتے ہیں ہمیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔

معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے لیے دو اہم محرکات کے تذکرے کے بعد آخری اورسب سے طاقتور طبقہ ہمارا میڈیا ہے ۔ میڈ یا وہ ادارہ ہے جو رات کو دن اور دن کو رات بنا کر دیکھا سکتا ہے ۔ معاشرے میں مثبت اور منفی جو بھی چیزیں ہیں ان میں کسی بھی چیز کومختلف زاویے سے دکھانا اور اس پر دیبٹ وغیرہ منعقد کرانا میڈیا ہی کا کام ہے ۔ میڈیا راتوں رات جس کو چاہے ہیرو اور جسے چاہے زیرو بناسکتاہے ۔اسلیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میڈیا کا استعمال صحیح معنوں میں ہوں ۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر کے نا دیکھایا جائے ۔پاکستان کے صحیح اور مثبت تصویر کو دنیاکے سامنے رکھا جائے۔میڈیا کو بیرونی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے ہرگزاستعمال نا کیا جائے۔

حال ہی میں چند تلخ واقعات پاکستانی معاشرے میں رونما ہو ئے جن کی بدنما داغ ہمارے دامن کو داغ دار کر گئے ان میں سے ایک واقعہ مشال خان کا ہے جس کی وجہ سے ناصرف پاکستان کے اندر ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بیرون ملک بھی پاکستانیوں کے بارے میں غلط تاثر گیا ۔ مشال خان پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی ایک بدنما مثال بن چکاہے ۔ عبدالولی خان یونیو رسٹی کے طلب علم مشال خان کو چندشرانگیز افراد نے سو چے سمجھے منصوبے کے تحت گستاخی کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس واقعے کے پس پردہ محرکات جو ہم نے سنے ان میں کس حد تک صداقت و سچائی ہے یہ فیصلہ ہم نہیں کرسکتے اور یہ ناہی ہمارا کام ہے ۔ اب تک کی تفتیش اور معلومات کے بعد جو خبریں آرہی ہیں بظاہر ان سے پتہ چلتا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ مشال خان سے نالاں اورناخو ش تھی ۔ اور انہیں باربار ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔ مگر آخر کار تو ہین مذہب اور گستاخی کے نام پر چند افراد کو ان کے خلاف اکساکر ان کی زندگی کا بے دردی اور بے رہمی سے خاتمہ کر دیاگیا ۔ اگر مشال خان نے توہین رسالت یا گستاخی کی تھی تو سزاو جزا کا اختیار چند افراد کے ہاتھوں میں نہیں جاتا تھابلکہ اس کے لیے ایک مکمل قانون ہے جس کا نفاذحکومت وقت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ہم خود اٹھ کر قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے ہیں ۔ مشال خان نے توہین مذہب کا ارتکاب کیابھی تھا تو میں بحثیت مسلمان بڑی سختی کے ساتھ اس عمل کی مذمت کروں گا اور اس کے خلاف اسلامی قانون کے مطابق سخت سے سخت کاروائی کی اپیل کرتا۔میں کبھی بھی قانون اپنے ہاتھوں میں نہ لیتا۔یہ کونسا طریقہ ہے کہ ہم بلا تحقیق سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر کسی کو گستاخ یا کافر کہے جبکہ قرآن پاک کی تعلیمات سے پتہ چلتاہے کہ بلا تحقیق کسی بھی سنی سنائی بات پر ناہی عمل کرنا چاہے اور ناہی اس خبر کو آگے پھیلانا چاہیے ۔کیاہم قرآن پاک کی واضح آیات کے خلاف نہیں جارہے ہیں۔ ہر ایک مسلمان غیرت اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہوتاہے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم بغیر تحقیق کے کسی پر بھی حملہ کر دے اور اس کا خون بہادے ۔ آج تک داڑھی والے حضرات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاتھا ۔ مولوی انتہاپسند ہیں مولوی دہشتگرد ہے کوئی یہ تو بتائے کہ مشال خان پر حملہ کرنے والے کو نسے مولوی اور کس مدرسے سے فارغ تھے؟ دراصل ہمارے ملک میں عد م برداشت نے مولوی ہو یا جینٹل مین ،تعلیم یافتہ ہو جاہل سبھی کواپنی گرفت میں جکڑلیاہے۔

؁ ؁ ؁چترال میں حالیہ واقعہ جو کہ جمعہ کے روز شاہی مسجد چترال میں وقوع پذیر ہوا جس میں جمعہ کی نمازکے دوران نمازیوں سے بھری مسجدمیں ملعون شخص نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کیا ۔ جس کی بنا پر مسجد میں موجود نمازی اس پر چڑدوڑے ،مگر عین اس لمحے خطیب شاہی مسجد جناب خلیق الزمان صاحب کی کمال ہوشیاری اور دانشمندی کام آئی جس نے مسجد کی حرمت کا خیال رکھا اور اس منحوس اور ملعون شخص کو قانون کے حوالے کردیا۔جس پر شاہی مسجد کے خطیب جناب خلیق الزمان صاحب کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ریاست کے اندر ریاست بنانے کا حق کسی کو بھی نہیں اور ریاست کی رٹ کو چیلینج کرنا احماقانہ اور مجرمانہ فعل ہے ۔ ایک ملعون فتنہ پرور شخص جس کوقانون نافذ کرنے والی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا ۔کسی کو بھی عام شہری کو اختیار نہیں تھاکہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے۔ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد ہونا چاہے۔ باوجود اس ملون شخص کی گرفتاری کے پھر بھی چترال پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولنا نہایت غلط اور مجرمانہ فعل تھا جس کی جتنی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی جاے کم ہے۔ ایسے حالات میں ہی ملک دشمن عناصر کو فائدہ پہنچتا ہے وہ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ہم اسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ سی۔ پیک کا الٹرنیٹ روٹ کا چترال سے ہوکر گزرنا ہے لہذا کیا معلوم بیرانی ہاتھ سی ۔پیک کو ڈسٹرب کرنے کے لیے سنی ،اسماعیلی فسادات کرانا چاہتے تھے جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے ناکام ثابت ہوا۔ اسے ہماری بد قسمتی سمجھے یا بیوقوفی ہم ملک دشمن عناصر کا اعلیٰ کار بن رہے ہیں۔ جو کام دشمن نہیں کر پاتا وہ کام ہم خود کر رہے ہوتے ہیں۔ چترال فٹ بال گراونڈ میں جمع ہوئے اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آخرکار ہوا کیا ہے اور وہ کس لیے احتجاج اورتوڑ پھوڑ کررہے ہیں؟

یہی ہماراالمیہ ہے کہ ہم بغیر تحقیق کے کسی کے بھی اشاروں پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پرامن احتجاج سب کا حق ہے مگر جب کچھ لوگ پر امن احتجاج کو لوٹ مار گالم گلوچ توڑ پھوڑ پر لے آئیں تو مجبورا قانون کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتاتا چلاوں کہ ملک میں جاری کرپشن رشوت اور ناانصافی اقرباء پروری نے عوام کا اعتما د حکومت سے اٹھا دیا ہے۔ عوام قانون کے رکھوالوں ہی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ریاست اور ریاستی اداروں کو چاہے کہ ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دینے والے عناصر کو سخت سے سخت سزا دیں اور اسلام اور اسلام شعائیر کے ساتھ کھیڑوال کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ چترال کے شاہی مسجد میں بھرے نمازیوں کے سامنے جھوٹا نبوت کے دعوٰی دار کو سخت سے سخت سزادے کرنشان عبرت بنایا جائے اور عوام کا اعتماد ریاست اور ریاستی اداروں پر بحال کیا جائے تاکہ پھر کوئی بھی ایسی مضموم کوشش یا حرکت کرنے سے قبل ہزار بار سوچے ۔ پھرکوئی بھی پرامن چترال اور پرامن پاکستان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button