خیبر پختونخوا میں رائل ملٹری سکول ڈیر ہ دون کا آخری طالب علم میجر خوش احمد الملک97 سال کی عمر میں 2 جون 2017 ء کو انتقال کر گئے وہ سکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا ، مشہور تھا سفارت کار جمشید مار کر محمد علی خان ہوتی ، میاں گل اورنگ زیب ، راجیو گاندھی اور خوشید مار کرکا ہم جماعت تھااس حوالے سے اکثر کہا کرتے تھے
ماو مجنوں ہم سبق بو دیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت و ما درکو چہ ہا رسوا شدیم
جن بزرگوں نے پشاور سے نکلنے والے انگریزی اخبارخیبر میل کو اب تک یاد رکھا ہوا ہے ان کو ضرر یاد ہوگا ایک صاحب طرز ادیب خیبر میل میں مختلف مو ضوعات پر شستہ انگریز ی میں کالم لکھا کرتے تھے اپنا نام مختصر کر کے ’’ کے اے ملک ‘‘ لکھتے تھے بعد ازان پاکستان ٹائمز،ڈان اور فرنیٹر پوسٹ میں ان خطوط نے شہرت پائی ، بیرسٹر باچا کی طرح مختصر الفاظ اور تین چار لائنوں میں مدعا بیان کرتے تھے ان میں چاسر ، شیکسپئر ، ملٹن، جارج برنارڈ شاہ اور دیگر دانشوروں کی تراکیب اور مصرعوں کو سجع کر کے طرز بیان میں لطف پیدا کر تے تھے ان کا اسلوب ایسا تھا کہ نام نہ بھی لکھتے تو قاری پہچا ن لیتا کہ یہ کے اے ملک کی تحریر ہے۔
جوانی میں ہندوستان کی سیاحت کی 74 سال کی عمر میں گھوڑے پر سوار ہو کر بدخشان کا درہ کیا یہاں احمد شاہ مسعود انکے میزبان تھے 80 سال کی عمر میں اپنے دوست میجر اولڈرینی (Maj Oldrini) کی دعوت پر انگلینڈ کا سفر کیا واپسی پر ’’ خزان کے رنگ ‘‘ ساتھ لے آئے Automn Colours کو یورپ میں اس طرح سراہا جاتا ہے جس طرح ہمارے ہاں موسم بہار کو پسند کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے باغ میں ایسے پودے او درخت اُگائے جو ماہ اکتوبر سے دسمبرتک زرد ، سرخ اور زردی مائل پتوں کی وجہ سے رنگوں کی بہار دکھاتے ہیں ۔
میجر (ر) خوش احمد الملک مرحوم نے چترال کی سابق ریاست کے والی شجا ع الملک کے ہاں 1920 میںآنکھ کھولی آپ کی والدہ ریاستی مشیر اتالیق بہادر خان کی بیٹی تھی اتالیق سرفرار شاہ آپ کے ما موں اور اتالیق جعفر علی شاہ آپ کے ماموں زاد بھائی تھے شجا ع الملک نے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رائیل ملٹری سکول ڈیر ہ دون ہندوستان کا انتخاب کیا ناصر الملک ، مظفر الملک ، حسام الملک ، مطاع الملک ، حنسر والملک ، خوش وقت الملک اور برہان الدین نے بھی دون سکول میں تعلیم پائی 10 سال کی عمر میں خوش آحمد الملک کو بھی دون سکول میں داخل کیا گیا آپ کو رائل انڈین ائیر فورس میں کمیشن ملا مگر بیماری کی وجہ سے فضا ئیہ میں سروس جاری نہ رکھ سکے چنا نچہ ان کو بری فوج ملیشیا فورس میں کمیشن دیا گیاساو تھ وزیرستان سکاؤٹس اورکر م ملیشیا میں خدمات انجام دیے اور1966میں میجر کے عہدے پر ریٹا ئر ہوئے دونوں بیٹوں مسعود املک اور مقصود الملک کو سینٹ جوزف کا نونٹ سکول کوہاٹ میں تعلیم دلوائی۔
آپ وسیع المطا لعہ تھے انگریزی کے ساتھ فارسی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا مولانا روم ، شیخ سعدی ،شمس تبریز اور علامہ اقبال کے فارسی کلام سے شغف رکھتے تھے۔ ان کا اپنا رحجان مادری زبان کھوار کی طرف تھا کھوار میں ان کی طویل نظم ’’ گلائی گلائیو جواب ‘‘ 1996 ء میں شائع ہوئی ترکیب بند کی صنعت میںیہ نظم چترال کی تاریخ اور آنے الے دور کے چیلنجوں کا احاطہ کرتی ہے اور ’’ ازدل خیز د بردل ریزد ‘‘ کا مسحو ر کُن اثر رکھتی ہے۔
علم و ادب اور باغبانی کے ساتھ ساتھ آپ سیاست میں بیداری کی تحریک کے ساتھ بھی وابستہ رہے1970 کے عام انتخابات میں آپ نے حصہ لیا قومی اسمبلی کاا لیکشن لڑا مگر آپ کے ماموں زاد بھائی اتا لیق جعفر علی شاہ بازی لے گئے انتخابی مہم کے دوران گھوڑے پر پورے چترال کا دورہ کیا گاؤں گاؤں جاکر اپنی نظمیں سنا کر لوگوں کو گر مایا 1980 سے 1984 تک افغان مہا جرین کے ایڈمنسٹریڑ رہے۔
آپ نے قدرتی وسائل ، پاک افغان تعلقات ، پاک بھارت تعلقات ، بہتر نظم نسق کے مسائل اور شہری حقوق پر لکھی ہوئی اپنی مطبوعہ تحریروں کو الگ الگ ابواب کی صورت میں یکجا کر کے کتابی صورت دی تھی مگر یہ کتاب شائع نہیں ہوئی چترال کے آبی وسائل اور پن بجلی کے امکانات پر آپ نے بہت کچھ لکھا۔
آخری عمر میں آپ کو ا س بات کو دُکھ تھا کہ لواری ٹنل کھلنے کے بعد چترال کی منفرد تہذیب اور ثقافت معد ومیت کے خطرے سے دوچار ہوجائیگی اعلیٰ حضرت شجا ع الملک کے 16 بیٹوں میں سب سے زیادہ عمر پائی 2 جون کی شام کو افطاری سے کچھ دیر پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آ پ اس خطے میں ڈیرہ دون کے تعلیمی ادارے کی آخری یا د گار تھے ۔