کالمز

شرافت کا امتحان

معرکہ کارگل ہویا 1965اور1971کی پاک بھارت جنگیں غذرکے سپوتوں نے بہادری کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان رقم کی ہے ضلع غذر گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کا واحد ضلع ہوگا جہاں کے سپوتوں نے سب سے زیادہ اعزازات حاصل کئے کرگل کے ہیرو شہید لالک جان شہید نشان حید ر کا تعلق بھی غذر سے ہے گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے عوام اپنی شرافت ،مہمان نوازی ،اور امن پسندی کی وجہ سے پورے صوبے میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں لیکن ضلع کے بعض سرکاری ادارے یہاں کے عوام کو بلاوجہ تنگ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں شرافت کوشاید کچھ لوگ بزدلی سمجھ بیٹھے ہیں ان لوگوں کی اس رویے کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اس حوالے سے قارائین کرام کے سامنے ان داستانوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں آخر اس علاقے کے سادہ لوح عوام کی شرافت کا اس قدر امتحان کیوں لیا جارہا ہے اگر یہ امتحان ختم نہیں ہوا تو ایک دن ان کی شرافت شرارت میں میں بدل جائیگی۔

خطے میں حکومت کی طرف سے تمام اسلحہ جمع کرنے کے احکامات ملے تواسکا شروعات بھی غذر کیاگیااور علاقے کے بعض سفید پوش جو کہ اندرون خانہ وقت کے حاکموں کو خوش کرنے کے لیے گاؤں گاؤں جا کر یہ تلقین کرتے رہے کہ فوری طور پر گھر میں موجود 12بور،30بور،ٹوپی دار جوبھی اسلحہ ہے جمع کرادو اگر ایسا نہیں کروگے تو دس سال جیل کی چکی پستے رہوگے لوگوں نے ٹوپی دار بندوقیں، جو آج کل بڑے لوگ اپنے گھروں میں کھلونے کے طور پر رکھتے ہیں، یہ کھلونے بھی حکومت کے حوالے کردئیے۔ بجلی کے میٹرز تبدیل کرنے ہوں تو شرافت میں مثال قائم رکھنے والے عوام غذر سے میٹر وں کی تبدیلی کا آغاز کیا جاتا ہے حالانکہ صارف نے کئی سال قبل محکمہ برقیات سے این او سی لیکر بجلی کا کنکشن حاصل کیا ہے ان کو بھی یہ کہا جاتاہے کہ پرانے میٹر پھینک دو نئے میٹر حاصل کرو اس مہم کا آغاز بھی سب سے پہلے غذر سے ہی کیا گیااب ان بے لگام آفیسروں سے کون پوچھے کہ اس پرانے میٹر میں کیا نقص ہے کیا یہ بجلی کے بل کے پیسے کم لاتا ہے یا کیانئے میٹر بنانے والی کمپنی آپ کو حصہ دیتی ہے اگر کمیشن کا چکر ہے اگر بجلی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس بدقسمت ضلع کے نام پر لوڈشیڈنگ ہی لکھا گیا ہے؟

سردیوں کے موسم میں پانی کی کمی کا بہانہ بناکر لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ندی نالوں میں پانی کے بہاو میں اضافے کے ساتھ ہی عوام خوشی محسو س کرتے ہیں کہ اب لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا مگر چند روز بعد ہی پانی کا تیز بہاو بجلی کا سربند بہا لے جاتا ہے اور پھر عوام کی قسمت میں اندھیرہ ہی اندھرہ لکھا جاتا ہے حالانکہ سالانہ لاکھوں روپے چینل کے سربند اور چینل کی مرمت پر خرچ کئے جاتے ہیں ہرسال چینل کاٹوٹ جانا سربند کو پانی بہا لے جانا ایک معمول بن گیا ہے اخر اس سربند کا کوئی مستقل حل نہیں پاکستان میں ڈیم بنانے کے لئے پورا دریا کو روک دیا جاتا ہے مگر غذر کے ندی نالوں کا پانی روکنے میں محکمہ برقیات ناکام ہے اس سے اس محکمہ کی کارکردگی کا بخوبی جائزہ لیا جاسکتا ہے غذر کی بالائی تحصیل یاسین میں تھوئی کے مقام پر تعمیر ہونے والا پاور ہاوس جس کا کام 2009میں شروع کیا گیا تھا تاحال یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے بیس کروڑ کے اس منصوبے پر اب تک چالیس کروڑ خرچ ہونے کے باوجود بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہے عوام احتجاج کررہے مگر کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں سینگل اور گلمتی میں تعمیر ہونے والے پاور پراجیکٹ کی تعمیر بھی کچھوے کی رفتار سے جاری ہے اگر کام کی یہ رفتار رہی تو ان منصوبوں کے مکمل ہونے میں بھی کئی عرصہ لگ سکتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعلی کا کہنا ہے کہ گلگت میں اس وقت اٹھ میگاواٹ بجلی سرپلس ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ بجلی ہنزہ یا غذر کوفراہم کیوں نہیں کی جاتی؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ (ن) لیگ کو غذر سے کوئی سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے یہاں کے عوام کو سزا دی جارہی ہے۔

بینکوں کے قرضوں کی ریکوری کی بات ہوتو بینک کے بڑے بھی اپنی توپوں کا رخ اس پسماندہ علاقے کی طرف موڈ دیتے ہیں۔

دوسری طرف ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو ) ہے۔ غذر کے عوام نے ہروقت اس ادارے کے ساتھ تعاون کیا اور اب بھی کر رہے ہیں اچھے اور معیاری بسوں کو تو نیٹکونے راولپنڈی سے کراچی تک سروس پر لگادیا ہے اور پنڈی سے گلگت بلتستان خصوصا ضلع غذر کے لئے جو بسیں دی گئی ہیں ان کی حالت قابل رحم ہے۔ نئی بسوں کے حوالے سے جب حکام سے بات کی جاتی ہے تو سوائے یقین دہانیوں کے علاوہ بات آگے نہیں بڑھتی جبکہ گلگت سے چترال چلنے والی بسوں کو اگر دنیا کا عجوبہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا یہ ٹرک نما بسیں جو کہ کسی وقت افغان مہاجرین کو گندم سپلائی کیا کرتی تھی جب افغانی اپنے ملک چلے گئے تو کوئٹہ میں پڑے یہ ٹرک نیٹکو کے ہاتھ لگ گئے جن پر کئی سال تک نیٹکونے اسلام آباد سے گلگت بلتستان کے لئے گندم سپلائی کرتے رہے جب ان کی معیاد مدت پوری ہوئی اور پاکستان میں ان کے پرزے بھی ملنا بند ہوگئے اور بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے تو ٹرک کے اوپر چھت ڈال کر نیٹکوvipبس سروس کا نام دیا گیا ان ٹرکوں کو بسوں کی شکل دیکران کو غذر اور چترال عوام پر مسلط کردیاگیا اس کے باوجود بھی غذر اور چترال کے عوام ان ٹرک نما بسوں سفر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے صرف اور صرف اس لئے کہ یہاں کے عوام کی سادگی پر ان سے مزاق کیا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو گلگت کے بعد شاید غذر دوسرا ڈسٹرکٹ ہے جہاں پر نیٹکو کو منافع مل رہا ہے اور ضلع کے عوام اس ادارے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔

اب آتے ہیں اے کے آر ایس پی کی طرف جس نے اب تک غذر میں تعمیر وترقی کے نام پر کروڑوں روپے مختلف ڈونر ایجنسوں سے بٹورلئے ہیں مگر ان کی کارکردگی دیکھا جائے تو سوائے افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کروڑں روپے کی خطیر رقم خرچ کرکے لوگوں کی غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے لئے واٹر چینلزکی تعمیرپر خرچ کیا گیاہے اور کوئی ایک بھی پراجیکٹ ایسا نہیں جوکہ کامیاب ہوگیا ہو اے کے آر ایس پی نے گاؤں داس جپوکہ کو سیراب کرنے کے لیے جو مشین لگائی ہے اس کو دنیاکا نواں عجوبہ کہا جاسکتا ہے جب سے یہ مشین نصب کی گئی ہے تب سے گاؤں والوں کو ایک قطرہ تک پانی میسر نہیں آیا اب اے کے آر ایس پی کے حکام کی نظریں ایفاد پراجیکٹ پر لگی ہوئی ہے جہاں پر یہ بلند بانگ دعوے کرکے کروڑوں روپے تو بٹور لینگے مگر کارکردگی پہلے سے بھی بدتر ہوگی۔

دوسری طرف این سی پی گاڑیوں کے خلاف بھی سب سے زیادہ کریک ڈاون غذر میں کیا جارہا ہے اور دوسر ی طرف سینکڑوں ایسی گاڑیاں اور موٹر سائیکل ہیں ان گاڑیوں کے مالکان کے پاس نہ تو کاغذات ہیں اور نہ ہی انھوں نے کئی سالوں سے حکومت کے خزانے میں کوئی ٹیکس جمع کرایا ہے یہ گاڑیاں چوری کی ہے یا پھر ڈبلنگ ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جن این سی پی گاڑیوں کو نمبر الاٹ کیا گیا ہے اس کو ٹھیک کرنے کے بارے روزانہ وارننگ ملتی ہے مگر چوری اور ڈبلنگ گاڑیوں کے خلاف ایکشن نہ لینا سمجھ سے باہر ہے دوسری طرف انتظامیہ کے بعض ایسے آفسیران بھی ہیں جو اپنی گاڑیوں میں کالے شیشے اور ہوٹر لگا کر گھومتے ہیں اگر قانون سب کے لئے برابر ہے تو ابتدا ان سے کی جائے بعض سرکاری آفسیران نے اپنی این سی پی کاروں میں بھی ہوٹر لگائے گھومتے مگر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کیا صرف غریب عوام کو ہی مختلف سٹرکوں اور اہم چوکوں میں ان کی گاڑیوں کو کھڑی کرکے کو تنگ کرنے کا آخر کیا جواز ہے اگر قانون سب کے لئے برابر ہے تو سب سے پہلے سرکاری گاڑیوں سے کالے شیشے اتروادئیے جائے تو عوام خود بخود اپنی گا ڑیوں سے کالے شیشے اتر دینگے اب آتے ہیں محکمہ خوراک کی طرف جن کی مہربانی کی وجہ عوام کو اپنے گندم کا کوٹہ وقت پر نہ ملنے پر بازار سے اٹھارہ سو اور دوہزار میں آٹا خریدنے پر مجبور ہیں دوسری طرف یہ بھی شکایت ملی ہے کہ بعض فلور ملز مالکان اور ڈیلر مل کر عوام کو جو آٹا سپلائی کیا جاتا ہے ایک من کے تھیلے میں پانچ سے اٹھ کلو تک وزن کم کرکے عوام کو فراہم کیا جاتا ہے اور رقم پورے ایک من کا وصول کیا جاتا ہے مگر محکمہ خوراک اور انتظامیہ خاموش ہے شروع میں فی نفر بارہ کلو گندم تقسیم کیا جاتا تھا اس کے بعد کم کرکے سات کلو پر اگئے اب اس سے بھی کم کرکے پانچ کلو گندم فی نفر کر دیا گیا ہے آخر کب تک غذر کے شریف عوام کا امتحان لیا جائیگا ،کب تک؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button