بلاگزسیاحت

گلگت کے مشہور اور خوبصورت سیاحتی مقام، نلتر کا سفر نامہ (آخری حصہ )

صبح ساڑھے نو بجے کے قریب میری آنکھ کھل گئی ۔کانوں میں برچہ صاحب اور دکھی صاحب کی آوازیں پڑیں ۔وہ باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔میں باہر آیا تو بولے۔’’سلیمی!آپ جلدی کریں۔دھوپ تیز ہونے سے پہلے آگے جھیلوں کی طرف جانا ہے۔‘‘

ہاتھ منہ ہی تو دھونا تھا۔ذرا ہی دیر بعد ہم نے سامان اکٹھا کیا ،گاڑی میں رکھنے میں مدد کی پھر فاریسٹ ریسٹ ہاؤس پہ الودائی نظر ڈال کے گاڑی میں بیٹھ گئے۔اب ہمارا سفر نلتر کے شمال کی طرف تھا۔جہاں جھیلیں تھیں ،جہاں گلیشئرز تھے۔

ہم نالہ پار کر کے دوسری طرف آئے۔وہ علاقہ کھیو ٹ کہلاتا ہے۔وہاں چند دکانیں تھیں،کچھ ہوٹل تھے ایک بڑا سا باقی چھوٹے چھوٹے ….ٹین کی چھتوں والے مکان تھے۔ہم شمال کی طرف ،نالے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے رہے۔روڑ بے حد خراب تھا۔سردیوں کی برف پگھلے بھی پانچ مہینے سے زیادہ ہوا تھامگر روڑ پہ پڑے گڑھے برابر کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی تھی ۔

وہ بہت تکلیف دہ سفر تھا۔گاڑی زور زور سے ہچکولے کھاتی تھی۔ہم اندر سیٹوں پہ بیٹھے بیٹھے اوپر اچھلتے تھے۔کبھی سائیڈ سے ٹکراتے تھے۔آس پاس کے خوب صورت مناظر کو بھی جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔

ایک جگہ میں بائیں طرف چِمرسَے نامی چراگاہ کے اوپر پہاڑ سے بہتے آبشار میں کھویا ہو ا تھا۔اچانک گاڑی زور سے اچھلی ۔اور میرا سر جاکے چھت سے ٹکرایا۔ منہ سے بے ساختہ چیخ بلند ہوئی ۔ آنکھوں کے آگے دن میں ہی تارے جھلملائے۔دکھی صاحب ڈرائیورپر غصہ ہونے لگے۔

میں نے کہا ۔ ’’اس بے چارے کا کیا قصور ؟ سارا روڑ ہی تباہ حال ہے۔اصل غصے اور گالیوں کے مستحق تو اس کے ذمہ دار ہیں۔یہ ملک جہاں دہشت گردی کا شکار ہے اسی طرح وسائل گردی نے بھی اس کا کباڑا کر دیا ہے۔سیاحتی لحاظ سے اتنا معروف مقام ،اور اندر سے ایسی ٹوٹ پھوٹ..؟محکمہ سیاحت ،محکمہ تعمیرات اور محکمہ ماحولیات و منصوبہ بندی نام کے ادارے شاید آلو بیچتے ہوں گے۔‘‘

برچہ صاحب بولے۔’’یہ ملک خدا کے نام پر بنا ہے وہی اس کو چلا رہا ہے۔ورنہ اربابِ اقتدار نے اس کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔دوسرے ممالک ایسی جگہوں پر اتنی توجہ دیتے ہیں کہ ایک کثیر آمدنی محض سیاحت سے حاصل کرتے ہیں ۔ایک ہم ہیں قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں کا کفران کرتے ہیں۔‘‘

دکھی صاحب نے ایک نرالی منطق نکالی۔’’ ویسے جہاں تک اس روڑ کی شکستگی کی بات ہے ،میں اس کی بہتری کاقائل نہیں۔یہ جنگل جو بچا ہوا ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ خراب روڑ بھی ہے۔ورنہ ٹمبر مافیا اس جنگل کو بھی کاٹ کاٹ کے اجاڑ دے گی۔‘‘

میں نے کہا ۔’’اگر یہ پالیسی آپ کے محکمے کی ہے تو آئی ایم سوری ،یہ اس کی نا اہلی ہے۔جنگل کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لئے ایک پورا ادارہ ہے۔وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں،ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کریں تو کبھی یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ جنگل کی ناجائز کٹائی ہوگی۔‘‘

برچہ صاحب بولے۔’’اچھی سڑکوں کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ساتھ ہی کچھ خرابیاں بھی آجاتی ہیں ۔اگر یہ روڑ پکا بن جائے اور لوگوں کی آمد و رفت بڑھ جا ئے اس سے ماحول کی خوب صورتی اور پاکیزگی متاثر ہوگی۔کیونکہ ابھی ہم ذہنی طور پر نابالغ ہیں ۔جہاں جاتے ہیں گندگی کا ڈھیر کردیتے ہیں۔فطرت کے حسن کو داغ دار کر دیتے ہیں۔اس لیے میں بھی یہ کہتا ہوں سفر کی یہ تکلیف تو گوارا ہے مگر اس خوب صورت ماحول کی بربادی با لکل نہیں۔‘‘

نلتر اور دیگر پہاڑی مقامات تک پہنچنے کے لئے عموماً ایسی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں

میں نے عرض کیا ۔’’سر !آپ دونوں کی دلیل اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔لیکن اسی کے اندر ہماری کم بختی چھپی ہے۔کیا ہم اسی طرح خوف اور خرابی کے سائے تلے زندگی گزاریں گے کہ ایسا ہوگا تواس سے ویسا ہوگا۔یہ ٹھیک ہوگا تو اس سے وہ خراب ہوگا۔؟سر ! یہ جو یورپ امریکہ والے ہیں ،انہوں نے کیسے خود کو ٹھیک کیا ہے؟ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟وہاں جنگل بھی ہیں،ان کے اندر تک سڑکیں بھی ہیں۔جھیلیں اور سبزہ زار بھی ہیں ،ان میں سیاحوں کی آمد و رفت بھی ہے۔اس سب کے باوجود وہاں کی ہر چیز قابلِ تعریف ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناں کہ وہاں کے ادارے مضبوط ہیں۔وہاں قانون نام کی ایک سپریم اتھارٹی ہے۔جس کے آگے کسی کی بد معاشی نہیں چلتی۔‘‘

دکھی صاحب بولے۔’’آپ جس آئیڈیل صورت حال کی بات کر رہے ہیں یہ ہمارے اِدھر ممکن نہیں۔ہمارے اداروں میں نیچے سے اوپر تک کڑے اصلاحات کی ضرورت ہے۔جب تک ایسا نہ ہو گا سسٹم بھی ٹھیک نہ ہوگا۔اس لیے جو ہے وہی بسا غنیمت ہے۔‘‘

میں نے تلخی سے کہا۔’’یعنی ہم اسی طرح ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پہ سیاحت کے نام پر مشقت اٹھاتے رہیں گے۔قدرت نے جو نعمتیں عطا کی ہیں اور جن وسائل سے نوازا ہے ،اپنی نا اہلی اور بے ایمانی سے ضائع کراتے رہیں گے۔‘‘

ہم اچھلتے ،گاڑی سے ٹکراتے آگے بڑھتے رہے۔وہ کچی ٹوٹی پھوٹی سڑک کبھی کھیتوں کے بیچ سے ،کبھی نالے کے ساتھ ساتھ،کبھی خشک پہاڑوں کے دامن سے اور کبھی چیڑ اور دیودار کے درختوں کے اندر سے ہو تی گزرتی رہی۔

آگے ایک جگہ دائیں طرف کے پہاڑ کے دامن میں اوپر سے ایک برفانی تودہ آکے رُکا تھا۔چالیس پچاس فٹ لمبا اور آٹھ دس فٹ اونچا یہ تودہ ایک طرح سے نلتر والوں کے لیے من و سلویٰ جیسا تھا۔ہم نے دیکھا وہا ں آٹھ دس ولز جیپیں کھڑی تھیں۔ہمارے ساتھ فاریسٹ گارڑ مست علی چچا بھی آئے تھے۔انہوں نے یہ دلچسپ بات بتائی کہ نلتر کے لو گ ان جیپوں میں برف ڈال کے گلگت لے جاتے ہیں۔رمضان کا مہینہ ہے۔سخت گرمیاں ہیں ۔ایسے میں گلگت اور آس پاس کے علاقوں میں یہ لوگ برف بیچ کر اپنے لیے پیسے کماتے ہیں۔

واقعی یہ اس کریم اور رزاق ذات کی عطا تھی۔نلتر کے لوگ اکثر محنت کش ہیں ۔تھوڑی بہت زمینیں ،مال مویشی اور پھر جنگل….بس یہی ان کی زندگی گزارنے کے ذرائع ہیں۔بہت کم لوگ کسی دفتر میں ملازم لگے ہوئے ہیں۔ایسے میں یہ برف ان کے لیے اس پاک مہینے کے طفیل ایک خدائی مدد تھی۔

وہاں سے آگے بڑھے تو تھوڑی دیر بعد ایک آبادی میں سے گزرنے لگے۔سڑک کے دائیں جانب درختوں کے درمیان کچھ مکان دکھائی دیے۔یہ بِش گری کا علاقہ تھا۔دکھی صاحب نے ایک انکشاف کیا کہ اس جگہ ان کی کچھ زمین ہے۔برسوں پہلے یہ زمین خریدی تھی۔اب ایک مقامی شخص اس پہ آلو کاشت کر رہا تھا۔فیصلہ ہو ا کہ جھیل سے واپسی پر دکھی صاحب کی زمین بھی دیکھ لیں گے۔

وہاں سے آگے بنگلہ نام کا مقام آیا۔یہاں بہت گھنا جنگل تھا۔چچا مست علی نے بتا یا تقریباََ پچاس برس ہوئے ہیں یہ جنگل انسانی ہاتھوں کا اگایا ہوا ہے۔اس وقت کے محکمہ جنگلات کے اگائے چیڑ اور صنوبر کے یہ درخت …اب ایک وسیع اور گھنے جنگل کی شکل اختیار کر چکے تھے۔راستے میں ہمیں کہیں کہیں کٹے ہوئے درختوں کی نشانیاں دکھائی دیں۔ایک آدھ درخت کٹی ہوئی شکل میں زمین پہ پڑا بھی نظر آیا۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کچھ درختوں کے تنوں کو کسی تیز دھار آلے سے گول گول چھیلا گیا تھا۔میں نے مست علی چچا سے پوچھا تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔’’نلتر میں ویسے تو جنگل کی غیر قانونی کٹائی نہ ہونے کے برابر ہے۔پھر بھی لوگ کسی بھی بہانے درخت کاٹنے کے درپے ہوتے ہیں۔آپ کو یہ جو چھلے ہوئے تنے دکھائی دیتے ہیں یہ ان کی چال بازی ہے۔یہ لوگ تنے چھیل کر چلے جاتے ہیں۔کچھ مہینوں بعد درخت سوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ایسا کرنے والے لوگ آگے محکمے کے بڑوں کو درخواست لکھتے ہیں کہ فلاں درخت خشک ہو گیا ہے۔ہمیں کاٹنے کی اجازت دی جائے۔‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا۔’’اور وہاں سے کسی تحقیق کے بغیر اجازت بھی مل جاتی ہوگی؟ویسے آپ یہ سب جانتے ہیں پھر بھی آگے رپورٹ نہیں کرتے۔کیوں…؟‘‘

اس نے کہا ۔’’میں اکیلا اس پورے علاقے میں فاریسٹ گارڑ ہوں ۔میرے ساتھ ماتحت عملہ بھی انتہائی ناکافی ہے۔پھر ہم کہاں کہاں نظر رکھیں۔؟اور یہ بات آگے بڑے افسران بھی جانتے ہیں۔‘‘

دکھی صاحب اس کا دفاع کرتے ہوئے بولے۔’’اس کی بات درست ہے یہاں نلتر میں عملہ بہت کم ہے۔دوسری بات یہ کہ یہاں کے لوگ اتنے لالچی نہیں۔انہیں جنگل کی حفاظت کا احساس ہے۔آپ باقی علاقوں کا جنگل بھی دیکھیں کس بے دردی سے درخت کاٹے جا تے ہیں؟اس کے مقابلے میں یہاں بالکل ہی کم یہ فعل ہوتا ہے۔‘‘

برچہ صاحب بولے۔’’سوچنے کی بات ہے جنگل کی اس بقا کے پیچھے مقامی لوگوں کا ہی کردار دکھائی دیتا ہے۔جبکہ محکمے کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔یہاں اتنے اہم جنگلات ہیں اور عملہ ضرورت سے کم…یہ لوگ جو اچھے ہیں ،بدل بھی سکتے ہیں ۔لالچ، مادیت پرستی اور مجبوری انہیں جنگل کی کٹائی پہ ابھار سکتی ہے۔اور ایسا ہورہا ہے۔یہ جو لوگ درختوں کے تنے چھیلتے ہیں اور سوکھنے کے بعد سرکاری اجازت نامے سے کاٹ دیتے ہیں،سمجھ لیں اس کی گرفت نہ کی گئی تو آنے والے چند سالوں میں یہ حسن اجڑ جائے گا۔‘‘

پورے ایک گھنٹے کا،جوڑ جوڑ ہلا دینے والا یہ سفر آخر کار ختم ہوا ۔ایک موڑ مڑ کے ذرا سا بلند ٹیلا تھا۔اس کے اوپر آئے تو ڈرائیور نے بلند آواز میں کہا ۔’’سر ! ہم جھیل کے پاس پہنچ گئے۔وہ دیکھئے سامنے بِش گری جھیل …‘‘

میں نے بے تابی سے دیکھا ۔سامنے ونڈ سکرین کے اُس پار سبز پانی پھیلا ہوا تھا۔عام طور پر جھیلیں نیلے رنگ کی ہوتی ہیں۔مگر اس کا رنگ ہرا تھا۔اس کے کنارے birch(بھوج پتر) کے کم کم درخت تھے۔ان کے پیچھے خشک پہاڑ تھے۔ہم گاڑی سے نیچے اترے۔وہاں دو تین گاڑیاں اور چند موٹرسائیکلیں کھڑی تھیں۔جھیل کے کنارے کچھ نوجوان موجود تھے۔ذرا فاصلے پر ایک فیملی بھی دکھائی دے رہی تھی۔

تیز دھوپ چاروں اور پھیلی ہوئی تھی۔ہم جھیل کے پاس آگئے۔ذرا غور سے دیکھا تو اس کا پانی سبز نہیں تھا۔بلکہ اس کے نیچے کائی جمی ہوئی تھی۔جس سے پوری جھیل سبز ہوگئی تھی۔جھیل بھی اُتھلے پانی کی تھی ۔یعنی کم گہری ۔

تصویر: سید مہدی بخاری/ڈان

میں نے بہت سی جھیلیں دیکھی ہیں ۔دیو سائی سے لے کر شندور تک،سد پارہ سے لے کر گیٹی داس تک…..مگر یہ جھیل ان سے ہٹ کے تھی۔اس میں پانی کم تھا۔جھیل کے آس پاس کا منظر بھی کوئی اتنا خوبصورت نہیں تھا۔ ہریالی کم تھی۔بھوج پتر کے درخت تھے،لیکن کہیں کہیں…کائی کی وجہ سے اس کی گہرائی بھی چھپ گئی تھی۔ایسا لگتا تھا ہم کسی تالاب کے کنارے کھڑے ہیں۔

خد الگتی کہوں ایک جھیل کا جو رعب ہوتا ہے،ایک طلسماتی اثر ہوتا ہے وہ بالکل نہیں تھا۔اس طرح کا تاثر صرف میرا ہی نہیں تھا۔ برچہ صاحب اور دکھی صاحب بھی کچھ خاص متاثر نہ ہوئے تھے۔

شاید اتنی بری یہ جھیل بھی نہیں تھی۔اصل میں پیچھے کھیَوٹ سے یہاں تک جتنا تھکا دینے والا سفر طے کیا تھا اور اس جھیل کے بارے میں پڑھا اور سنا تھا اس کے بعد یہ منظر مایوس کن نہیں تو اتنا خوش گوار بھی نہیں تھا۔

جھیل کنارے ہم بیٹھے رہے۔وہاں حبس تھی۔ گندگی بھی کافی پھیلی ہوئی تھی۔جوس کے ڈبے،پلاسٹک کے تھیلے،نمکو اور پاپڑ کے ریپر یہاں وہاں پڑے ہوئے دکھائی دیے۔جھیل کے کنارے پانی کے اندر بھی یہ گندگی پھیلی ہوئی تھی۔برچہ صاحب بڑے نفیس انسان ہیں انہوں نے ایک لمبی سی خشک ٹہنی تلاش کر لی۔جھیل کنارے جو گندگی تھی اس ٹہنی کے ذریعے باہر نکالنے لگے۔سا تھ ساتھ جہاں تک ٹہنی پہنچتی تھی پانی کے نیچے کی کائی بھی صاف کرنے لگے۔یہ ان کی فطرت سے محبت کا اظہار تھا،ورنہ اکیلے برچہ صاحب کے بس کی بات نہیں تھی کہ یہ ساری گندگی صاف کرلیتے۔

گرمی بڑھنے لگی تھی ۔پیاس بھی محسوس ہورہی تھی۔وہاں اوپر پہاڑوں کے بیچ ایک اور بھی جھیل تھی۔مگر وہاں تک پیدل ہی جانا ممکن تھا۔اور روزے کی حالت میں اس جھیل تک جانا ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔اس لئے واپسی کا فیصلہ ہوا۔ہم پھر سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔

دو دنوں کا یہ یادگار اور دلکش سفر اختتام پزیر ہو ا تھا۔ ہم اسی تکلیف دہ راستے سے ہوتے ہوئے واپس روانہ ہوئے۔

 

نلتر نامہ: حصہ دوم

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button