کالمز

بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

شمس الحق قمر ؔ گلگت

ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ کیا مزے کا آدمی تھا۔ فون اٹھاتے ہی برس پڑے ۔ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ ؂ جتنا غصے سے تم برستے ہو تم پہ اُتنا نکھار آتا ہے ۔ برسنے والا میرے قریبی دوستوں میں سے نہیں تھا البتہ اتنا ضرور تھا کہ میں ایک عرصے سے اُسے جانتا ہوں ۔ ایک دن یوں ہی میں نے سوچا کہ مواصلاتی نظام نے دنیا کو ویسے بھی ایک گاؤں بنا کے چھوڑا ہے تو کیوں نہ ایسے لوگوں کی بھی خیریت دریافت کی جائے جن سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے ۔ سوائے خیریت دریافت کرنے کے میرا اور کوئی مدعا نہیں تھا ۔ احتیاج ہو بھی تو میں ایک انسان کے سامنے کیوں کر ہاتھ پھیلاؤں؟ آب دانہ اور موت حیات کا مالک تو اللہ ہے ، انسان کسی اور انسان کے لئے کرے بھی تو کیا کرے ۔ یہ خود اتنا بے بس ہے کہ اپنی ہیعمر میں ایک پل کا اضافہ نہیں کر سکتا، نہ اپنی مرضی سے پیدا ہو سکتا ہے اور نہ اپنے آپ کے بارے میں جانتا ہے ۔ بہر حال میں نے اس خیال سے کہ کسی کو یاد کرنا عین عبادت ہے ۔ میں نے فون لگا دیا ۔ اُس کا فون مصرف تھا ۔ میں نے سوچا کہ فون پر اپنی بات چیت ختم کرنے کے بعد میری مس کال دیکھ کر خواہ مخواہ پریشان ہوگا کہ یہ کس کا فون تھا ۔ میں نے اُنہیں دوبارہ میسج کیا ’’ میں فلاں آدمی ہوں میں نے خیریت دریافت کرنے کے لئے آپ کو کال کی تھی ‘‘ دوسرے لمحے مجھے اُسی نمبر سے کال آئی ۔ مجھے یہ سوج کر خوشی ہوئی کہ دیکھ اِس بندے نے میرا میسج پڑھتے ہی مجھے کا ل کی ۔ جیسے ہی میں نے فون اُٹھا یا تو جناب نے خوب برسنا شروع کیا :

میں۔ اسلام علیکم ( پر جوش انداز سے )

وہ ۔ وعلیکم اسلام ( اُس کے لہجے میں اجنبیت کی بد بو آ رہی تھی )

میں ۔ جناب میں نے اس لیے مسیج کیا تھا کہ کہیں میری کال سے آپ کو اجنبیت کا احساس نہ ہو ( احتراماً مگر پر تکلف انداز سے )

وہ ۔ تتے معلومہ ا وا ہاش فضول فونان نو اُسنیمان ۔کیہ کوروم کی شیر لو دیت ( اُس نے یہ سوچا ہوگا کہ میں نے شاید کسی مقصد کے لئے فون کیا تھا )

میں ۔ برار تہ بو شکریہ تہ قیمتی وختو گانیتام ( قدرے اپنے کئے پر پشیمان ہوکر )

گلہ اُس سے بھی نہیں کیوں کہ شاید وہ تمام خیریت دریافت کرنے والوں سے اُسی لہجے میں گفتگو فرماتے ہوں گے مجھے شاید اس لئے بُرا لگا ہوگا کہ میں پہلی بار آپ جناب کی گفتگو سن رہا تھا ۔ دوسری بات یہ کہ میں نے کہیں کتابو میں پڑھا تھا کہ خریت دریافت کرنا سنت نبوی ﷺ ہے اور وہ میرے اس خلوص کو کسی لالچ کا شاخسانہ سمجھ رہا تھا ۔ میرے ایک رفیق کار نے جب یہ کہانی مجھے سنائی تو میں نے سوچا کہ غلط کون تھا ؟

ہم جب چھوٹے تھے تو لوگوں سے سُنا کرتے تھے کہ دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں کہ جہاں لوگ دن رات مصروف رہتے ہیں یہاں تک کہ میاں بیویوں کو بھی ، قطع نظر ہمارے یہاں کی میاں بیویوں کے، وقت بے وقت ملنے کی فرصت نہیں ملتی ۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ آخر وہ لوگ کرتے کیا ہیں کہ بیویوں سے بھی ملنے کا وقت نہیں ؟ جب کہ ہمارے یہاں تو اپنی بیویاں تو اپنی دوسروں کی بیویوں کے لئے بھی خاصا وقت میسر آتا تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں بھی وقت کسی کو وقت دینا ایک گمبھیر مئلہ بن کر سامنے آگیا ۔ اب یہاں ایسا لگتا ہے کہ یہ بشر نہیں بلکہ رم خوردہ جانوروں کا ایک جھنڈ ہے ایک ریوڑ ہے جو کہ مارے خوف ہراس کے ایک نامعلوم منزل کی طرف سر پٹ دوڑے جا رہا ہے ۔ اس جھنڈ میں چھوٹا بھی ہے بڑا بھی ہے، مرد بھی اور عورت بھی ہے سب کو اپنی اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ ریوڑ کے ان جانور وں تمام رشتے ،ناطے اورزندگی کے ڈورے کٹ چکے ہیں ۔ انسانی رشتوں کی کوئی قد رو قیمت نہیں ہے ۔ بس ایک دوڑ ہے ایک ایسی دوڑ کہ جہاں اولاد اپنے ماں باپ سے ،بہنیں اپنے بھائیوں سے میاں اپنی بیویوں سے اور دوست اپنے احباب سے سبقت پانے کے چکروں میں پسینے سے شرابور ہوئے جا رہے ہیں ۔ اس دوڑ کو ترقی کا نام دیا جاتا ہے ۔ترقی تو سب کا حق ہے ترقی میں کوئی برائی نہیں لیکن کیا بحیثیت انسان ایک دوسرے کو وقت دینے میں یا پل دو پل ایک دوسرے کی رفاقت میں گزارخوش رہنے میں کوئی بہت بڑی برائی ہے ؟

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں وقت کے اختصار کا احساس کیوں ہے ؟

یقین جانئے کہ میں بعض مرتبہ انسان کی اس ہٹ دھرمی پر سوچ سوچ کے صبح کر لیتا ہوں نیندیں اُچاٹ ہو جاتی ہیں ۔ جا جا کے پوری داستان کا ایک ہی نتیجہبر آمدہوتا ہے وہ یہ کہ ہم صرف تین چیزوں کے پیچھے بھاگم بھاگ دوڑے جارہے ہیں :

پیٹ پالنے کے لئے آب ودانہ کے پیچھے ،ستر ڈھانپنے کے لئے لباس کے پیچھے اور سر چھپانے کے لئے چھپر کے پیچھے ۔ کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اس دوڑ میں کتنے ذلیل ہو رہے ہیں ۔یہی دوڑ ہمیں قاتل بھی بناتا ہے اور مقتول بھی ، مختار بھی اور مجبوربھی ۔ اسی دوڑ میں ہم ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں نکال سکتے ۔ہمارا کوئی بھائی یا بہن ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں ہے لیکن ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم اُس کی عیادت کو جائیں ۔ بھائی آخر کہاں کا قصد ہے کہ ہم کسی کو بھی نظر میں نہیں لائے بغیر نامعلوم منزل کی جانب محو سفر ہیں ؟ اس دنیا میں ہمارے علاوہ بھی اتنی مخلوق ہے کہ ہم انہیں گنکے پورا نہیں کر سکتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں کہ اُس کی روزی اور آب دانہ کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا ہے ۔کوئی مخلوق ایسی نہیں جو شام کو بھوکی سو جائے ، آرام کے لئے گوشہ عافیت نہ ملے ، سر چھپانے کو گھونسلہ ، بلاور کھچار کا انتظام نہ ہو ۔ اس کرہ ارض میں تمام مخلوق پر سکون ہے مگر انسان جو اپنی ذرہ برابر عقل و خرد کے بل بوتے پر ایک بے مقصد دوڑ میں یہ بھی بھول چکا ہے کہ انجام کار کیا ہے ۔ ہم اگر بہت زیادہ دیر زندہ رہیں تو کتنے عرصے تک زندہ رہیں گے، سو سال ،پانچ سو سال یا زیادہ سے زیادہ ہزار سال ؟ ۔ دوستو ! تم صرف پیٹ کو پالنے کے چکروں میں سب کچھ لٹا چکے ہو ۔ اپنی زندگی کے کچھ حسین لمحوں کو ایک دوسرے کے نام بھی تو کر لو ورنہ

؂ نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیئے بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button