مرحوم اللہ داد کی زندگی اور اپنے زمانے کے لوگوں سے آپ کی محبت کی داستان ، شجاعت علی بہادر صاحب کے معتبر فیس بک پیج میں چھپا تو نے بھی اپنی یادداشت کوکریدا ۔ اس سے پہلے کہ میں شجاعت علی بہادر کی تحریر کا ترجمہ اور مرحوم کے ساتھ اپنی یادوں کو تازہ کروں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ فیس بک پیج ’’ چمر کھان ‘‘ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔ چمر کھان گوکہ چپاڑی کے اُوپر ایک خوبصورت چراگاہ کا نام ہے ۔ شجاعت علی بہادر اور اُن کے رفقأ نے اس نام کی قدرتی خوبصورتی کے اظہار کا درست انداز سے حق ادا کیا ہے ۔ یہ وہ سرزمین ہے جس نے قوم کے اعلیٰ سپوتوں کو جنم دیا ۔ چترال کے شمار تیز طرار، محب وطن ، اعلی ٰ تعلی یافتہ ، ادیب ، مفکر ،بہترین کھلاڑی ، قانون دان ، مدرس ، سپہ سالار ، مذہبی دانشوراور سماجی کارکن اسی وادی کے گِل کے خمیر سے اُٹھے ہیں ، معاشرے میں نام کمایا ہے اور آج بھی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں اس علاقے کی جن شخصیات پر ہم فخر کر سکتے ہیں اُن میں شہزادہ سکندر الملک ، برگیڈئر ریٹائیرڈخوش محمد ، ماہر قانون صاحب نادر ،ایجو کیشن افیسر ریٹائیرڈ شیر ولی خان اسیرؔ ، ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر علی اکبر خان ، ڈپٹی کمشنر فضل خالق کے علاوہ شجاعت علی بہادر بھی اسی سطر میں استادہ نظر آتے ہیں۔
اس علاقے کی بے شمار ہستیاں ایسی تھیں جن کی بدولت اس وادی کی پہچان ہوئی جیسے شہزادہ خوش وقت الملک ، گورنر مستوج، پاسومو مراد ، کھانان دورو صوبیدار ، مستوچو چرویلو، بریپو خان جامادار ، چپاڑیو رحمت اکبر خان رحمت، یارخونو حاکم اور چونجو میتار عبد الستار کے علاوہ بے شمار ایسی ہستیاں اپنا بہترین کردار ادا کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ہیں ۔ ہم اُن کی اروح کی مغفرت کے لئے ہمیشہ بہ دست دعا ہیں ۔ انہیں میں ایک نام اللہ داد کا بھی تھا جو کہ شاہراہ یارخون کے دامن میں اپنے گھر کے ساتھ ہی آسودہ خاک ہیں۔ ہماری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب بونی دکان دھ میں اُن کی شادی خانہ آبادی کی تقریب ہو رہی تھی ۔ اُس وقت بہت کم لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوتے تھے اور پھر قانون کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنا معنی رکھتا تھا ۔ اللہ داد کی شخصیت کے حوالے سے ہم میں سے بہت سارے لوگ غائبانہ طور پر پہلے سے متعارف تھے ۔ کیوں کہ اُس زمانے میں ایکا دکا ولاکلا ہوا کرتے تھے ۔ مجھے سن درست طور پر یاد نہیں البتہ مجھے یہ واقعہ آج کی طرح یاد ہے کہ اللہ داد کی شادی میں چوئنج کے دیسی بینڈ کی پوری ٹیم ساتھ آئی تھی اور دکاندہ میں ایک تاریخی بزم ہوا تھا ۔آپ نے نیم سفید کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور اوپر کالے رنگ کا واسکیٹ خوب جچتا تھا ۔ آپ نے خوب رقصکا مظاہرہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان باراتیوں میں ایک چھوٹے قد کے حسین نوجوان نے اپنے جسم کی خوب شاعری کی نام پوچھنے پر بتایا گیا کہ اُس کا نام ہادی خان ہے اور وہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہے اب نہیں معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ اس کے بعد سن اسّی کی دہائی میں مستوج چنار میں کرکٹ کا ایک بڑا ٹورنامنٹ معقد ہوا ۔ ہم بھی نوجوان تھے اور کرکٹ کا شوق بھی تھا لہذا ہم بھی گئے تھیٹورنامنٹ کے اختتام پر آپ جناب کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا ۔ آپ تالیوں کی گونج میں تقریر کے لئے اسٹیج پر تشریف لے گئے ۔ آپ کی تقریر کے چند جملے اب بھی مجھے یاد ہیں ’’ کھیل تماشا بہت اچھی بات ہے لیکن میں نوجوانوں سے یہ کہوں گا کہ آپ جب تک تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیں گے تب تک ہمارے علاقے میں کوئی ترقی نہیں آئے گی ۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ آپ نوکری پانے لئے لئے تعلیم حاصل کریں ۔ نوکری ، روز گار اور پیسہ تو کسی بھی طرح سے مل سکتاہے لیکن عزت اگر کمانی ہے تو تعلیم کا حصول شرط ہے ‘‘
تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا ’’ فی الحال میں دونوں ٹیموں کے لئے ایک ایک ہزار روپے کا اعلان کرتا ہوں اگر آپ سب کی مدد شامل حال رہی تو الیکشن کے بعد میں دوبارہ آپ سے رابطہ کروں گا‘‘ اس کے بعد بونی میں آپ کا آنا جانا عام ہوا وہ چوگان بازی کے بھی بڑے شوقین تھے لیکن ایک سے خوشگوار رسم و راہ ر رکھنا آپ کا دلپسند مشغلہ تھا ۔سن نوے کی دہائی میں ہماری ملاقتیں دوستی کی سرحدوں تک پہنچ گئیں ۔ اُس زمانے میں ریٹائرڈ ونگ کمانڈر محترم فرداد علی شاہ صاحب کا ’’ ہندو کش ‘‘کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار چھپتا تھا جس میں میں کالم لکھا کرتا ہے ۔ مرحوم اللہ داد جنت کمین واحد قاری تھا جو خود چل کر میرے پاس تشریف لایا کرتے اور میری تحاریر کو سراہتے اور خوب دلجمعی فرماتے ۔
شجاعت علی بہادر نے آپ کی شخصیت پر لکھتے ہوئے کوئی دقیہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے لیکن آپ کی تحریر پر رائے دیتے ہوئے شہزادہ سکندر الملک نے مرحوم کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو اجا گر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’سن اسّی کی دہائی میں ہم دونوں ڈسٹرک کونسل کے امید وار تھے ۔ چونکہ ہم ہم عمر اور دوست تھے لہذا بعض موقعوں پر ہم ایک ساتھ مہم چلاتے تھے ۔ جس دن الیکشن کے تنائج کا اعلان ہونا تھا اُسی دن میں پریب گیا تھا اور رات بھی ادھر ہی گزاری واپسی پر میرے سیاسی حریف اپنے گھر کے پاس عین اُسی جگہے پر موجود تھے جہاں وہ آج آسودہ خاک ہیں ۔ میری گاڑی روک لی اور مجھے میری کامیابی کی نوید سنائی اور تپاک سے مجھے رخصت کیا ۔‘‘
شجاعت علی بہادر کے مطابق اللہ داد مرحوم ۱۲ اپریل ۱۹۶۰ کو جوئنج میں پیدا ہوئے بنیادی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی ۔ ثانوی تعلیم کے لئے گورنمٹ سکول مستوج کا انتخاب کیا جبکہ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکو ل چترال سے پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے جنوب کا رخ کیا اور لا کالج سندھ سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اللہ داد واپس اپنے علاقے میںآکر وکالت اور سیاست کے ساتھ سماجی کاموں بھر پور حصہ لیا اور علاقے کی ترقی میں کلیدی کردار کا حامل رہا ۔ جون ۲۰۰۲ میں سڑک کے ایک حادثے میں اللہ داد ہم سے جدا ہوئے ۔ پسماندہ گان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعلم کے میدان میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں ۔ بڑے صاحبزادہ بشارت علی لندن، دوسرا بیٹا شجاعت علی اٹلی ، تیسرا خالق داد آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول چترال جبکہ صاحبزادی عذرا داد یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی میں مائیکرو بیالو جی کی تعلیم مکمل کر رہی ہیں ۔ اللہ تعالی آپ تمام بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ آمین
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ( غالب ؔ )