خیبر پختونخوا پولیو سے پاک ہو گیا ہے مگر پولیو وائرس اب تک ہمارے دوسرے دشمنوں کی طرح افغان سرحد پر موجود ہے کسی بھی وقت دوبارہ حملہ آور ہو سکتاہے اس لئے ہمیں بے فکر نہیں ہو نا چا ہیے ایک جملے کے اندر خوشخبری ، خدشہ اور انتباہ میڈیا ورکشاپ کا حاصل تھا۔
بعض خبر نگارو ں نے خوشخبری کو تمہید کا درجہ دیا بعض نے تمہید باندھتے ہوئے انتباہ کو ترجیح دی بعض نے خوشخبری اور انتباہ کو یکجا کر دیا۔ یہ میڈیا ورکشاپ تھا۔ مالاکنڈ کے تین اضلاع دیر لوئر ، دیر اپر اور چترال کے صحا فیوں نے ورکشاپ میں حصہ لیا۔ اس کا اہتمام پولیو کے انسداد کے لئے خیبر پختونخوا کے ایمر جنسی اپریشن سنٹر) (EOC نے کیا تھا۔ طبی ماہرین کے ہمراہ میڈیا کی دنیا کے ماہرین کو بھی بلایا گیا تھا جنہوں نے پولیو کی بیماری اس کے جراثیم اوراس حوالے سے میڈیا کے کر دار پر روشنی ڈالی۔
میڈیا سپیشلسٹ سید احمد نے بڑے پتے کی بات کہی انہوں نے صحافیوں کو بتا یا کہ خبر کے پانچ عناصر کیا ،کب ،کہاں ،کون اور کیوں میں چھٹا عنصر پس چہ باید کر د یا وے فارورڈ بھی شامل ہو گیا ہے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں آگے کیا ہونا چاہیے ؟ خبر کا مستقل حصہ بن چکا ہے اور یہ چھٹا عنصر پبلک ہیلتھ یا صحت عامہ کے مسائل کے حوالے سے بیحد اہم ہے۔ پولیو کے خاتمے اور پولیو سے پاک پختونخوا کا کریڈیٹ خبر کے چھٹے عنصر کو جاتا ہے۔
ایمر جنسی اپریشن سنٹر کے کوار ڈنیٹر محمد اکبر خان نے تین سرحدی اضلاع کے صحافیوں ،ضلعی نامہ نگاروں ،آن لائن اخبارات کے ایڈیٹروں اور الیکٹرانک میڈیا منیجروں ،پروڈسروں اور کالم نگاروں سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ پولیو کے ساتھ دنیا بھر کے ڈاکٹروں ،قومی نمائیندوں اور سرکاری افیسروں کی آنکھ مچولی 1994 سے جاری ہے پولیو ایسی بیماری ہے جس کے جراثیم کسی شہری کے جسم میں نہ ملیں تب بھی ماحول سے چمٹے رہتے ہیں کسی بھی وقت دوبارہ حملہ اور ہو سکتے ہیں اس لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح پولیو وائرس کے خلاف جنگ بھی وائرس کے خاتمے تک جارہی رہے گی انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو تین اطراف سے خطرہ ہے ایک یہ کہ افغانستان سے آنے والے مسافر اپنے ساتھ وائر س لے آتے ہیں دوسرا یہ کہ سند ھ ،پنجاب اور گلگت بلتستان سے آنے والے سیاح وائرس لیکر آتے ہیں تیسرا یہ کہ صوبے کے لوگ مو سمی نقل مکانی کے دوران باہر سے وائرس لیکر آتے ہیں ہمیں تینوں مہاذوں پر کام کر کے پولیو وائر س کی جڑوں پر وار کرنا چاہیے انہوں نے خیبر پختونخوا کو پولیو وائرس سے پاک کرنے کی جدوجہد میں حکومت اور ڈونر ایجنسیوں کا ساتھ دینے پر سول سوسائیٹی ،عوام اور میڈیا کے کردار کو سراہا اور یقین دلایا کہ ایمر جنسی اپریشن سنٹر اس سلسلے میں مزید فعال کام کرے گا اور ورکشاپ میں پیش کی گئی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے گا۔
ورکشاپ میں ڈاکٹر امتیاز علی شاہ اورڈاکٹر علاء الدین نے پولیو کے مر ض کی مختصر تاریخ اور اس کے تدارک کی کو ششوں پر روشنی ڈالی۔ ماہرین کے مطابق 23سال پہلے 1994میں عالمی سطح پر پولیو کے خلاف منظم کوششوں کا آغاز ہوا تھا۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں 126 ممالک نے ایک اعلامیہ جاری کیا اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا 6 سال بعد 2007 میں 120 ممالک سے پولیو کا خاتمہ ہوا 6ممالک میں کام کی ضرورت محسوس کی گئی 2014 ء میں تین ممالک رہ گئے افریقہ میں نائجیریا ،ایشیا میں افغانستان اور پاکستان وہ ممالک تھے جہاں پولیو کا مرض مو جود تھا اس سال پولیو کے خاتمے کی قومی حکمت عملی تیار ہوئی ،حکمت عملی پر عملدرآمد کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں پولیو کے مر ض پر قابو پایا گیا۔
2017 ء میں ملک بھر سے تین مریضوں کے نام سامنے آئے ،ایک پنجاب سے ایک بلوچستان سے اور ایک گلگت بلتستان سے ،لودھراں ،قلعہ عبداللہ اور دیامر وہ اضلاع ہیں جہاں سے کیسز رپورٹ ہوچکی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان سے آخر ی کیس 2016 ء میں رپورٹ ہوئی تھی۔
صوبائی حکومت نے پولیو ورکرز کو صحت محافظ کا نام دیا ہے صحت محافظ گاؤ ں گاؤں جانا پہچانا سا نام بن چکا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کے تین وائرس ہیں تینوں انسان کے جسم میں منہ کے ذریعے داخل ہوتے ہیں بچوں کو متاثر کر کے عمر بھر کے لئے معذور کر دیتے ہیں ان میں سے ایک جرثومہ ختم ہوچکا ہے دو جر اثیم ما حول کے اندر گر دش میں ہیں اس لئے ماہرین نے کمیونیٹی بیسد ویکسی نیشن (CBV) کا طریقہ متعارف کر ایا ہے 250 گھروں کا کلسٹر ہوتا ہے اس میں ہر بچے اور ہر بچی کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور کمیونیٹی خود اس کا اہتمام کر کے صحت محافظ کے ساتھ تعاون کر تی ہے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ پولیو کی پہلی وبا 1916 سے پھوٹ پڑی جس سے 27 ہزار لوگ متاثر ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے امریکی صدر فرینکلن پر بھی پولیو کا حملہ ہوا دوسری وبا 1952 میں پھوٹی جس میں 58ہزار لوگ جان بحق ہوئے پولیو کی پہلی ویکسین 1955 ء میں ساک (Salk) نے ایجاد کی1961 ء میں سبین (Sabin)نے پولیو کے قطرے متعارف کرائے یہ انتہائی محفوظ دوا ہے جو قوت مدافعت پیدا کر کے بچوں کو اس موذی مر ض سے محفوظ رکھتا ہے۔
اگر چہ خیبر پختونخوا کو پولیو سے پاک ہونے سند مل گئی ہے تاہم تین اطراف سے احتیاطی تدابیر کی اب بھی ضرورت ہے گاؤں میں کوئی بچی پولیو کے قطروں سے محروم نہ رہے ایک بچہ محروم رہے گا تو 99 بچوں کو قطرے پلانا بے معنی ہوگا وائر س ایک بچے کے ذریعے دوبارہ پھیلے گا آبادی کا دباؤ کم کرنا اس طرف اہم قدم ہے اور تیسرا کام یہ ہے کہ نکا سی آب کا صحت افزا انتظام ہو تعضن، بد بو اور گندپھیلے گا تو پولیو کا وائرس’’پہلوان ‘‘بن کر حملہ اور ہوگا EOC کا میڈیا ورکشاپ معلومات افزا بھی تھا اور حوصلہ افزا بھی ہم نے دل سے دعا دی ’’اللہ کرے زور’’قدم ‘‘اور زیادہ ‘‘
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button