کالمز

گاؤں کا ایچی سن سکول 

کوہستان سے چترال براستہ شانگلہ ٹاپ 18 گھنٹے کا سفر ہے سفر کا لطف اُس وقت دوبالا ہوتا ہے جب مسافر پشام ،شانگلہ ،مینگورہ اور دیر میں چار دن قیام کر کے پانچویں روز چترال پہنچے یہ پہاڑی مقامات ہیں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہین مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر گاؤ ں میں ایچی سن سکول اور لارنس سکول قائم ہیں بچے سفید شرٹ اور پتلون پہن کر سکول جاتے ہیں سفید شلوار قمیص بھی بعض سکولوں میں چلتا ہے صبح 7بجے سکول جانے والے بچے اجلی وردی میں نظر آتے ہین سہ پہر کو سکول سے واپس آنے والے بچوں کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے ہیں آپ سکول کے اندر جھانک کر دیکھیں ایچی سن اور لارنس سکول جانے والے یہ بچے ننگے فرش پر بیٹھتے ہیں گرد و غبار میں کھیلتے ہیں روزانہ 3یا 4 کلو میٹر پید ل چل کر سکول جاتے ہیں سکول سے واپسی پر سفید کپڑے پہننے کے قابل نہیں رہتے ماں باپ غریب ہیں بچے کیلئے دو چار وردیاں سلوا کر رکھنے کی استطاعت والدین میں نہیں ہر شام کپڑے دھونے پڑتے ہیں جن کے کپڑے دھلے نہ ہوں وہ اگلے دن سکول نہیں جاتے یا میلے کپڑوں میں جاتے ہیں اس سے پہلے 2006 ء میں اس وقت کی حکومت نے گاؤں کے تما م بچوں کو کانونٹ سکول کی وردیاں پہنانے کا حکم دیا تھا اُس وقت کی حکومت کو کسی احمق نے مشورہ دیا تھا کہ اگر تم سکولوں کی حالت بہتر نہیں بنا سکتے کم از کم لڑکو ں کی وردی تو بہتر بناؤ ان کو سفید کپڑے پہناؤ سکول میں سفیدی نہیں کرسکتے تو بچوں کے لباس پر ’’سفیدی ‘‘لگاؤ تجربہ ناکام ہوا تو اگلی حکومت نے حکمنامہ واپس لے لیا پھر ایچی سن والوں کی حکومت آئی ایچی سن والوں نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں سفیدی کرانا ،ان کو ٹاٹ اور فرنیچر مہیا کر نا ہمارے لئے نا ممکن ہے ہم ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں بچوں کے لئے سفید کپڑوں کی وردی کو لازم قرار دیتے ہیں تاکہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار جو سکول پہاڑی اور میدانی علاقوں کے دیہات میں ہیں وہ باہر سے ایچی سن اور لا رنس کالج کی طرح نظر آئیں ہم سفیدکپڑو ں میں بچوں کو مٹی پر بیٹھ کر پڑھتے اور مٹی میں کھیلتے ہوئے دیکھ کر اپنا دل خوش کر سکیں جی بہلا سکیں کہ بچے ایچی سن سکول میں پڑ ھتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ میدانی اورپہاڑی علاقوں میں جس گھر سے تین بچے سرکاری سکول جاتے ہیں اُس گھر میں ہر شام تین جوڑے کپڑے دھو کر اگلی صبح کے لئے بچوں کو پہنانے پڑتے ہیں والدین اس مصیبت سے تنک آگئے ہیں عوام کی غالب اکثر یت حکومت کے اس غلط فیصلے سے عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے مگر شکایت کی کوئی جگہ نہیں اپنی آواز حکومت تک پہنچا نے کا کوئی ذریعہ نہیں عوام اور حکومت کے بیچ میں جیسی خلا گذشتہ 4سالوں میں پیدا ہو ئی ہے ایسی خلا کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی اس وقت حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کی کوئی کھڑ کی دستیاب نہیں تیمر گرہ کی نواحی بستی رباط میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی اُس نے دکھ درد کے ساتھ بتا یا کہ محکمہ تعلیم کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے زندگی میں کبھی سرکاری سکول نہیں دیکھا زندگی میں کبھی گاؤں کے بچوں کو 3کلو میڑ پیدل چل کر سکول جاتے نہیں دیکھا ہمارے حکمران یورپ کے رہنے والے ہیں انہیں گاؤں کے سکولوں کی حالت کا علم ہی نہیں انہوں نے لارنس کا لج گھوڑا گلی دیکھا ہے ایچی سکول لاہور دیکھا ہے ا ن کو کیا پتہ ہے کہ غریبوں کے بچے روزانہ 3کلو میٹر پیدل چل کر سکول جاتے ہیں ان کو کیا پتہ ہے کہ سر کاری سکول میں بچے ننگے فرش پر بیٹھتے ہیں مٹی اور گردوغبار میں کھیلتے ہیں ان کو سفید وردی پہنانے سے وہ ایچی سن سکول اور لارنس کالج والوں کی برابری کے قابل نہیں ہو سکتے ان کو ڈیسک اور ٹاٹ چاہیے ان کو لائبریری اور لیبارٹری چاہیے خان عبد القیوم خان عوامی لیڈر تھے انہوں نے ذاتی تجربہ اور تحقیق وتفتیش کے بعد ملیشیا وردی مقرر کی تھی یہ کم خرچ بالا نشین وردی تھی غریبوں کی دسترس میں تھی ماحول اور حالت کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی اگلی حکومت جس کی بھی آئے سفید وردی کا غلط فیصلہ منسوخ کر کے سکولوں میں ایک بار پھر ملیشیا کی وردی بحال کر ے گی بھلائی اسی میں ہے کہ موجودہ حکومت خود اپنا غلط فیصلہ واپس لیکر غریب عوام کی بددعاوں سے خود کو محفوظ کر ے سفید کپڑوں کی وردی سے بہتر یہ ہے کہ سکولوں کو ٹاٹ اور فرنیچر مہیا کرے لائبریری قائم کرے لیبارٹری بنا کر دے گلوب اور نقشے فراہم کرے تعلیمی ماحول کو بہتر بنائے سرکاری سکولوں کے لئے ملیشیا سے بہتر وردی کوئی نہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button