بچپن کی کہانیاں سہانی ہوتی ہیں رات کے کھانے کے بعد میرے والد اپنی آپ بیتیاں، جگ بیتییاں سنایا کرتے تھے۔ بیشتر ان کے سفرنامے ہوتے تھے۔ گلگت، پنیال، اشکومن، چترال اور وادی بروغل کے سفرنامے ہم انہماک سے سنا کرتے تھے۔ گلیشئیرکا سفراور واخان کےخونخوار بیڑیے کی کہانی دماغ میں نقش ہوچکی تھی، دل بروغل جانے کو مچلتا تھا۔
ان دنوں ایک ضعیف العمر دادی اماں ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ وہ بروغل کی رہنے والی تھی، آبائی وطن کی یادیں امی سے شیر کرتی، لہجہ وخی تھا اور زبان بروشسکی وخی کا ملغوبہ۔ باتوں کے بیچ سسکیاں لیتی اورٹھنڈی آہیں بھرتی، ایک دن امی سے پوچھا: یہ اماں کیوں روتی ہے، امی بولی: بیٹا، یہ اپنوں کو یاد کرکے روتی ہے۔ بچپن اور جوانی میں اپنے پیاروں کے ساتھ بیتےلمحات ستاتے ہیں اسے۔ میں بولا: دادی اپنےگھرکیوں نہیں جاتی؟ امی بولی، بیٹا اس کا کوئی نہیں جو اسےلےجائے۔ میں بولا، امی ہم اسےلےجائیں گے، میں اور آپ۔ وہ بولی،بیٹا، وہاں مرد جا نے سے گھبراتےہیں، تم ابھی منے سےہو۔ عورتیں اوربچے بغیر مردوں کےگلییشئیرپار نہیں کرسکتے۔ یہ جان کر میں خاموش ہوگیا۔ اس کی بے بسی نےمجھےافسردہ کر دیا تھا۔ ایک دن وہ رو رہی تھی، میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں بڑا ہو کر اسے لے کےجاوں گا، وہ نہ روئے۔ وہ میرے چہرے کی طرف تکنے لگی، آہ بھری، اور امی سے کچھ کہنے لگی۔
وہ ضعیف العمر تھی اور میں منا سا بچہ ! اسی لئےتقدیرکو شاید منظور نہ تھا۔ اس کی طبعی عمرکےانجام میں اب اتنا وقت نہیں بچا تھا جتنےسال مجھے جوان ہونےکےلئے چاہیےتھے۔ اس دوران کئ سال بیت گئے، میں اب بارا سال کا ہوچکا تھا اورمقامی سکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اٹھتی خبر آئی کہ بروغل والی آماں اب مزید دنیا میں نہیں رہی۔ اماں حسرتیں دل میں بسائےمٹی تلےسو چکی تھی۔ ارمانوں کو سینےپہ سجائے، دیس میں نکلا ہوگا چاند کے مصداق گھر وہ تو روزجاتی تھی لیکن خیالوں میں۔ غریب الوطنی میں اسے پرائےوطن کی زمین ہی نصیب ہو سکی۔ مجھے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرکا وہ حسرتوں بھرا شعرشدت سے یاد آنےلگا، ہائےبےچارا! ہندوستان میں دفن ہونےکا ارماں دل میں سجائےمیانمر کے شہر رنگون میں مدفون ہوا ! کتنا بدنصیب تھا ظفر دفن کےلئے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئےیارمیں۔
ایک عرصےبعد میں نےبچپن کےدوست علی مددبائی سے بروغل جانےکی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ شریف آدمی بروغل جانے کے لئےراضی ہو گیا۔ دن مقرر ہوا۔ زاد راہ اکھٹا کرنا شروع کردیا۔ کسی سے بیگ کسی سےبوٹ اٹھا لایا، علاقےمیں دستیاب پرانےماڈل کا اکلوتا کیمرا نصرت استاد سےمانگ تانگ کےلےآیا۔ بازار سے ٹافی کےتھیلے، گڑ اور کھوپرا خریدے، کوئی اور چیز ان دنوں مقامی بازار میں دستیاب نہ تھی۔ دیسی بریڈ (مش ٹیکی) پکوایا، خشک میوہ جات سمیت تمام گھریلو دستیاب اشیاء خوردنی اور کمبل وغیرہ بیگ میں ٹھونس کر تیاری مکمل کر لی۔ مقررہ دن صبح سویرے علی مدد بائی آتا دکھائی دیا، لیکن یہ کیا ! بڑا سا بیگ اٹھائے ایک مسٹنڈا بائی کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ اس گبرو کا تعارف بائی نے بطور پورٹر کیا۔ لیکن باہمی مشور ے کے بعد پروگرام میں تبدیلی کر کے اپنے اپنے بیگ خود آٹھا نےکا فیصلہ ہوا ، جوان کو رخصت کیا۔
دونوں صبح سویرے پا پیادہ بروغل جانےکےلئے درکوت روانہ ہوگئے۔ دوپہر کوتھکن سے چور درکوت پہنچے،بائی کےرشتہ دارکے ہاں کھانا اور استراحت کے بعد سہ پہرگرم چشمہ میں پہلا پڑاو ڈالنے کے ارادے سے روانہ ہونے کے لئے میزبان کو الوداع کہنے لگےتو اس نے چائے آفر کی۔ چائےکی پیش کش ٹھکرا کر سفر پر روانہ ہوے۔
تین گھنٹےکی مسافت پر واقع گرم چشمہ پہلا پڑاؤ تھا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ رات گرم چشمہ میں گزار کرپو پھٹنے سے قبل سفرشروع کرکےسہ پہرتک درکوت گلیشئیرپار کرنا ہے کیونکہ سہ پہرکےبعد برفانی ہوائےچلتی ہیں اورگلیشئیرپرکچھ نظرنہیں آتا یوں آدمی برفانی طوفان میں دب جاتا ہے۔ چند سال قبل باراتی درکوت سے بروغل جاتےہوے برفانی طوفان میں گھر کر زندہ درگور ہوے تھے جن کی لاشیں اگلےسال دریافت ہوئی تھیں۔ مشہورتاریخی مقام دربن کی چڑھائی چڑھنےکےبعد تھکاوٹ سی محسوس ہوئی ، بھوجل قدموں کےساتھ گئےکوشی سے ہوتے ہوئے راوت پہنچے۔ یہ دونوں مقامات قدرتی حسن سے مالامال ہیں۔ یہاں پر اچھلتی کودتی شفاف ندیاں بھی ہیں، چشمےاورجھرنے بھی، شاداب چراگاہیں بھی ہیں، چیلی اوربرچ کے جنگل بھی، نگاہوں کو خیرہ کرنے والے گلیشئیربھی ہیں اور جو کے لہلہاتے کھیت بھی۔ تھوڑی دیر کےلئے مناظر سےخاصے محظوظ ہوے۔
راوت کےاختتام پر گرم چشمہ کی جانب چڑھائی چڑتے ہوے ٹانگےکمزور پڑنےلگیں، مجھ سے چلا نہیں جارہا تھا، بائی کی طرف دیکھا اس کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں لگ رہی تھی۔ میں نے اپنی کیفیت اسےبتا دی تو وہ بولا کہ میری ٹانگیں اتنی بھاری ہوچکی ہیں کہ مجھ سے اٹھائی نہیں جا رہیں۔ چند قدم چلنےکےبعد دو چار منٹ سستانےبیٹھ جاتے، اس کے قریب ہو کر میں نےکہا: ہم آ ہی کیوں گئے پہلےدن حالت غیر ہوگئ، آگےآگے کیا ہوگا ! میری بات سےاتفاق کوتے ہوے بولا: مال مویشی کےسوداگر، بھیڑ بکری کےخریدار یاسن سےبروغل جاتےہیں، بروغل کےباشندے محنت مزدوری کی خاطرگلیشئیر چڑھ کر ادھر آجاتےہیں، ہم نہ تین نہ تیرا میں، نہ اس پار کام کاج نہ رستےسےواقف، جان بوجھ کراعزاب اپنے سر لےلیا ہے۔ان کے ان ریمارکس سے میں نےبھی اتفاق کیا، خود کو برا بلا کہتےہوے زیادہ سستاتے کم چلتے، بالاخر یہ چیونٹی کی چال شام کےدھندلکے میں اپنےاختتام کو پہنچی۔ ہم بلندی پرواقع گرم چشمہ پہنچ چکےتھے۔
مختلف بیماریوں میں مبتلہ مریض شفا کےلئےگرم چشمےکا رخ کرتےہیں، رات ٹھیر کرگھنٹےگھنٹےکےوقفےسے پانچ منٹ تک چشمےمیں ڈبکی لگاتےہیں، باہرنکلتےہی خود کو گرم کمبلوں میں لپیٹ لیتےہیں ۔ چوبیس گھنٹے پانی کےاستعمال سے پرہیز کرکے صرف اسی چشمےکا پانی پیتےہیں۔ بہت سارےمریض شفایاب بھی ہوتے ہیں۔
ارے ! چشمے پر کوئی فیملی آکے ٹھری ہوئی ہے۔ تین عورتیں ایک مرد دورسے ہی نظر آئے سلام اورعلیک سلیک کےبعد مرد نےہماری خستہ حالت بھانپ کرعورتوں کوحکم دیاکہ کتلی میں بھر کے چائےبنائے۔ پھرہماری طرف متوجہ ہوکر پوچھا کہ چائےکہاں پی کر آئےہو؟ ہم نے یک زبان ہوکر کہا کہ دوپہرکا کھانا درکوت میں کھایا تھا لیکن چائےوائی نہیں پی۔ بولا: ہوں! میں پہلےہی سمجھ گیا تھا کہ تمہاری تھکاوٹ محض چائےنہ پینےکی وجہ سے ہیں۔
اتنےمیں چائےبھی آگئ، ہم نے متعدد روٹیوں کےہمراہ پورے چار چارکپ چائےانڈیلیں۔ کیا خوش ذائقہ نمکین چائے تھی! آدھا گھنٹےبعد درد تھکاوٹ سب اڈنچھو! کمبل اوڑھ کرلیٹتےہی یوں بےخبر سوئے کہ رات کب کی گزر گئ، اللہ بھلا کرے اس مرد کا، نام بھی نہیں پوچھا، ہم اسے للا،للا کہتےرہیں، یاسن کےکلچر میں چھوٹے بڑوں کا نام نہیں لیتےبلکہ اس نام سےپکارتےہیں جو بڑےپن کےلئے مستعمل ہے۔
اس مرد مومن نے تین بجےرات ہمیں جگایا، ناشتہ ہمارے لئےتیارتھا۔ ہم نےانڈوں اور پراٹھوں کےساتھ بھرپور ناشتہ کیا، ان کا شکریہ ادا کرکے چڑھائی چڑھنے لگے۔ اب کی بار جسموں میں اتنی پھرتی آگئ تھی کہ چڑھائی کچھ معلوم نہ ہوا، ہم بلندیوں کی جانب دوڑ رہےتھے۔
اس سےپہے کہ آپ کو وادی بروغل کی سیر کراوں، درکوت کا مختصرتعارف کراتا ہوں، ایک فیس بک دوست نےدرکوت پرلکھنےکوکہا تھا لیکن بشارت کی اچانک فوتگی نےذہن اپ سیٹ کرکےرکھ دیا تھا۔ آج قلم اٹھا رہا ہوں۔
درکوت گلگت بلتستان کےضلع غذر، تحصیل یاسن کا آخری شمالی گاؤں ہے۔ سطح سمندر سے اٹھائیس سو میٹربلندی پر واقع ہےجو کہ پھنڈر کے برابر ہے۔ درکوت میں ساڑھے تین سو گھرانے آباد ہیں۔ درکوت کسی زمانےمیں سرسبز وشاداب، آباد میدانی گاؤں ہوا کرتا تھا۔ 1980 کی دھائی میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرق کی جانب سےبہنےوالی شفاف مگر تند و تیز ندی جس کا مقامی نام ڈاڈنگ بلچرہےجس کےکنارے بمقام "فرنگ بر”1870 میں مشہور انگریز جارج ھیواڈ کا قتل ہوا تھا۔ ندی گرمیوں کے موسم میں اپنےزوروں پرتھی کہ اچانک شرقی تنگ نالہ سےکالی مٹی کا تودھ ٹوٹ ٹوٹ کر ندی کے بہاؤ میں شامل ہونے لگا اور دیکھتےہی دیکھتےسیلاب دونوں کناروں سےبہنا شروع ہوا۔ سیلاب ناپرسان نے گھر،باغات، کھیت کھلیان،جنگل سب نگل لیا۔ آدھا درکوت صفحہ ہستی سےمٹ چکا تھا۔ سیلاب نےاسی پر بس نہ کیا بلکہ باقی ماندہ آباد اراضیات بھی ہڑپ کرتا گیا۔ حکومت نے نہ بےگھر ہونےوالوں کی مدد کی اور نہ ہی سیلاب کی روک تھام کےلئےقدم اٹھایا۔ یوں صدیوں سےآباد قصبہ بنجر ہوا، اب وہاں سبزہ نہیں اگتا دھول اڑتی ہے۔