کالمز

جنرل صاحب کا اعتراف 

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سچ بولتے ہیں بے دھڑک بولتے ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر بولتے ہیں یہ خوبی بہت کم لیڈروں میں ہوتی ہے جنرل صاحب کا جوتا زہ بیاں اخبارات کی زینت بنا ہے اس میں بہت بڑی سچائی بیان کی گئی ہے یہ پاکستا نی عدلیہ کی تاریخ میں رقم کی گئی سب سے بڑی سچائی ہے ہماری 70 سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا اپنے بیان میں سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ 2006 ؁ء میں چیف جسٹس افتخار چوہد ری کے ساتھ معاملات طے پاگئے تھے چیف جسٹس نے وعدہ کیا تھا کہ سٹیل ملز نجکاری کیس میں فیصلہ حکومت کے حق میںآئے گا مگروہ حکومت کے خلاف آیا سٹیل ملز کی نجکاری روک دی گئی سٹیل ملز کا سالانہ منافع 10 ارب روپے تھا اس کی مالیت چار کھرب روپے سے زیادہ بنتی تھی اور یہ ملز 10 ارب روپے میں ایک من پسند پارٹی کو فروخت کی جارہی تھی فروخت کو قانونی تحفظ دینے کے لئے چیف جسٹس کے ساتھ معاملات طے پاگئے تھے عمران خان کی زبان میں بات کی جائے تو میچ فکس تھا اخبارات میں جنرل صاحب کے تازہ بیان کو انکشاف کا نام دیا گیا ہے حالانکہ یہ انکشاف نہیں اعتراف کا درجہ رکھتا ہے انکشاف اس لئے نہیں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں مولوی تمیز الدین خان کے خلاف آنے والا فیصلہ بھی فکس تھا بیگم نصرت بھٹو کے خلاف آنیوالا فیصلہ بھی فکس تھا خود ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قتل کیس کا فیصلہ بھی فکس تھا مقتدر قو تیں جج کو گھربلا کر کہتی ہیںیہ 10 مقدمات ہیں ان کے فیصلے ہمارے حق میںآنے چاہیں جج کہتا ہے ’’ نو پرا بلم ‘‘ اور یہاں سے ہمارا پرا بلم شروع ہوتا ہے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے میں جنرل پرویز مشرف کو پکا یقین تھا کہ طویل ترین مد ت کے لئے چیف جسٹس رہیگا اور ہماری مرضی کے سارے فیصلے یہی شخص دے گا جنرل صاحب کے معاملے میں ایسا واقعہ بھی رونما ہوا کہ سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے کوئی شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا الیکشن کمیشن کے بااختیار جج نے جنرل صاحب کو وردی میں ہوتے ہوئے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اس سے پہلے عدالت عظمیٰ نے جنرل صاحب کو تین سال حکومت کر نے آئیں میں ترمیم کر نے اور پی سی او جاری کر نے کا اختیار دید یا تھا عدالت عظمیٰ نے ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے جنگلی اصول کو نظر یہ ضرورت کے تحت قانون کا درجہ دید یا اس لئے کسی من چلے نے کہا تھا کہ تم لوگ اعلیٰ عدالتوں کو عظمیٰ اور عالیہ جیسی لڑکیوں کے نام دید یتے ہو اور پھر مردانہ فیصلوں کی توقع رکھتے ہو یہ تمہا ری بھول ہے سادہ لوحی اور حماقت ہے دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر جرمن طیاروں نے لندن پر بمباری کی ونٹسن چرچل بر طانیہ کے وزیر اعظم تھے انہوں نے چیف جسٹس کی خدمت میں حاضری دی پھر ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا چرچل نے کہا ’’ میں نے چیف جسٹس سے پوچھا عدالتیں کیسے فیصلے دیتی ہیں ؟ چیف جسٹس نے کہا میرٹ پر فیصلے دیتی ہیں اگر چیف جسٹس کی بات درست ہے تو جرمن ہمارا با ل بیکا نہیں کرسکتے ، ہٹلر ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا جس ملک میں انصاف ہوتا ہو اُس ملک کو دشمن شکست نہیں دے سکتا ‘‘ چرچل کاقول سچ ثابت ہوا اتحادی جیت گئے جر منی کو شکست ہوئی اسلامی تاریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول نقل کیا گیا ہے آپ نے فرمایا’’ کفر کے ساتھ ملک برقرار رہ سکتا ہے ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتا یعنی عدالتی طریقہ کار کے اندر ظلم داخل ہو جائے تو یہ کفر سے بڑا گنا ہ ہے جنرل صاحب نے اپنے تازہ بیان میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے بڑ ا سچ اگل دیا ہے اس اعتراف کے لئے سابق آرمی چیف اور سابق صدر کو داد دینی چاہیے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے یہ شکو ہ بجا ہے کہ دیگر ججوں کی طرح اپنا وعدہ پورا کر تے تو کتنا ہی اچھا ہوتا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button