کالمز

مشرف بہ قانون 

پاکستان میں چین اور امریکہ کی خفیہ جنگ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے نوازشریف کو پاک چین دوستی کے جرم میں راستے سے ہٹانے کے بعد چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور پر پیش رفت رُک گئی ہے مگر مقتدر حلقوں اور نادیدہ ہاتھوں کے سامنے تین نئے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز کو قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کیسے روکا جائے؟دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف کو صدر مملکت کے عہدے کا انتخاب لڑنے سے کس طرح منع کیا جائے اور تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ مارچ2018 ؁ء میں ن لیگ کو سینیٹ میں اکثر یتی پارٹی بننے سے کس طرح روکا جائے ؟

تین دیواروں کی فوری ضرورت ہے ان دیواروں میں سب سے بڑی دیوار درمیان والی ہے یہ 2017 ؁ء کا واقعہ ہے جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف کی وردی میں صدارتی انتخاب لڑنا چاہتے تھے صدارتی انتخاب کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تھا قانون میں لکھا تھا کہ کوئی سز یا فتہ شخص صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتا سرکاری ملازم ریٹا ئر منٹ کے بعد دوسال گذرنے سے پہلے انتخاب نہیں لڑسکتا مقتدر حلقوں نے قانون میں ترمیم کر دی اور اس شق کو ختم کر دیا شق ختم ہوا تو چیف آف آرمی سٹاف کے لئے صدر مملکت کا انتخاب لڑنے کی راہ ہموار ہوئی ججوں کے ذریعے راستہ صاف کیا گیا چیف الیکشن کمشنر نے اجازت دیدی اور چیف آف آرمی سٹاف نے صدارتی انتخاب لڑا ظاہرہے اس کو کا میاب ہو نا تھا وہ کا میاب ہوا 6 ستمبر 2007 ؁ء کے تاریخی دن ووٹ ڈالے گئے نتیجہ آیا تو سب نے چیف آف آرمی سٹاف کو مبارک باد دی آرمی چیف مشرف بہ قانون ہو کر ملک کا صدر بن گیا اس سے پہلے وہ ریفر نڈم کے ذریعے صدر بن چکا تھا اُس کو قانونی حمایت حاصل نہیں تھی اس کے بعد اخبارات میں ’’ مشرف بہ قانون ‘‘ کی ترکیب آنے لگی اب سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اس قانون کا سہارا لیکر صدر مملکت کا انتخاب لڑ نے پر آما دہ دکھا ئی دیتے ہیں اگر ایسا ہوا تو اُس کو روکنے کا کوئی راستہ قانون میں مو جود نہیں پانا مہ سے ہنگا مہ ، ہنگا مہ سے کار نا مہ ، کارنامہ سے اقامہ تک چکر لگا کر بھی اس کو روکنا ممکن نہیں ہے قانون میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے جو مقتدر حلقوں کے بس میں نہیں قانون میں جو ترمیم آرمی چیف کے حق میں ہوئی تھی وہی ترمیم اب اُس کے خلاف استعمال ہونے جارہی ہے ’’ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ‘‘ اس صورت حال کے لئے سانپ کے منہ میں چھچوندر والی کہاوت بھی بولی جاتی ہے سانپ چھچو ندر کو نہ نگل سکتا ہے نہ اُگل سکتا ہے مقتدر حلقوں کے ساتھ نا دید ہ ہاتھوں والے اس مشکل میں پھنس گئے ہیں اس لئے عوامی نیشنل پارٹی کے سر براہ اسفند یار ولی خان نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو توڑ کر ٹیکنو کریٹس کے نام پر باہر سے کوئی نگران حکومت مسلط کی گئی تو اس کی شدید مذاحمت کی جائیگی مولا نا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کا موقف بھی یہی ہے۔

ایک بڑی یونیورسٹی کے بڑے ہاں میں لیکچر تھا ، عنوان بڑا دلچسپ تھا جمہوریت کیوں نہیں ؟ مہمان مقرر نے تقریر ختم کی تو پہلا سوال داغتے ہوئے سامعین میں سے ایک سرپھر ے نے پوچھا کہ بھٹو اور نواز شریف کیوں نشانہ بن گئے ؟ کوئی اور کیوں نشانہ نہیں بنا ؟ مہمان مقرر نے کہا مولوی تمیز الدین، شیخ مجیب الرحمن اور حسین شہید سہر وردی کو بھی نشانہ بنا یا گیا تھا وجہ اس کی یہ ہے کہ چھوٹی موٹی پارٹیوں اور درمیا نہ درجے کے لیڈروں کو زہر کا گھونٹ پی کر برداشت کیا جا تا ہے عوامی مقبولیت کے منصب پر فائز کسی لیڈر کو برداشت نہیں کیا جاتا کیو نکہ عوامی مقبولیت سے ڈر لگتا ہے کوئی لیڈر عوام میں مقبول ہو تو وہ آنکھیں دکھا سکتا ہے بڑا فیصلہ کر سکتا ہے عوام کی طاقت کو استعمال کر سکتا ہے چھوٹی موٹی تانگہ پارٹیاں اس طرح کے کام نہیں کرسکتیں مقتدر حلقوں اور نا دید ہ قوتوں کو ان سے کوئی خوف نہیں ہوتا ان کو ضرورت کے وقت استعمال کر کے پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دینا آسان ہوتا ہے ۔

اب نواز شریف کا تازہ ترین حال یہ ہے کہ وہ مشرف بہ قانون ہوگیا ہے مو جودہ حالت میں کلثوم نواز کووزیر اعظم بننے سے روکنا مشکل ہے۔ نوا ز شریف کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنا محال ہے ۔

کرو کج جبیں پر سر کفن مر ے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا با نکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button