2018 قومی انتخابات کا معاملہ مشکوک صورت اختیار کر گیا ہے مگر پھر بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ وقت گذر نے کے ساتھ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی مقبولیت کا گراف بڑھتا جارہا ہے اُن کے مخالفین مقابلہ کرنے پر اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ جمہوریت کو دس بارہ گالیاں دے کر پارلیمنٹ کی بساط لپیٹ دی جائے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
1951 اور 1958 کے درمیان 7 سالوں میں پاکستان کے 6حکمران بدلے تو پڑوسی ملک کے سیاستدانوں نے یورپ اور امریکہ میں مشہور کر دیا کہ ہندوستان کا وزیر اعظم اتنی جلدی اپنے جوتے نہیں بدلتا جتنی دیر میں پاکستانی اپنا وزیر اعظم بدل دیتے ہیں۔ دونوں پڑوسیوں میں جو فرق 1951 میں تھا وہ فرق 2017 میں بھی ہے۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر وزیر اعظم یا اپوزیشن لیڈر بننے کیلئے سال ڈیڑھ سال صبر نہیں کر سکتا انتظار نہیں کر سکتا سب کو جلدی ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ پڑوس میں سیاست ایک جمہوری رویہ ہے ہمارے ملک پاکستان کے اندر سیاست ذاتی اور خاندانی دشمنی ہے۔ مولوی فضل الحق نے 1940 ء میں منٹو پارک لاہور میں پاکستان کی قرار داد پیش کی۔ جی ایم سید نے 1946 ء میں سند ھ اسمبلی سے الحاق پاکستان کی قر ار داد منظور کروائی۔ میاں ممتاز احمد خان دولتا نہ اور نواب مشتاق احمد گور مانی نے دونوں کیساتھ دشمنی کی۔ دونوں کو ملک دشمن قرار دیا۔ مخالف سیاستدا ن کا مقابلہ سیاسی طریقے سے کر نے کے لئے قابلیت اور ذہانت چاہیے محنت اور دیانت کی ضرورت ہے صداقت اور صبر و برداشت کی ضرورت ہے۔
پاکستانی سیاست میں ا س قسم کی خوبیاں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ آپ خواجہ سعد رفیق ، خواجہ محمد آصف ، رانا ثنا ء اللہ اور چوہدری عابد شیر علی کا لب و لہجہ دیکھیں تو گمان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ایک سیاسی جماعت کے ممبر ہیں عوام سے ووٹ لیکر اسمبلیوں میںآتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ پورس کے یہ ہاتھی سیاست میں کیسے آگئے ؟ پورس کے ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو پاؤں تلے روند ڈالا تھا پور س کے ہاتھی اپنی ہی فوج کو روند ڈالتے ہیں اپنے آپ کو نقصان پہنچا تے ہیں۔
اسی لئے شاعر نے لاجواب مصرعہ کہا ہے
’’ ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو !‘‘
پاکستانی سیات میں 1951 ء سے اب تک پورس کے ہاتھی موجود ہیں۔ پیر 2 اکتوبر کی شام کو قومی اسمبلی میں شیخ رشید احمد نے جمہوریت ، جمہوری نظام حکومت ، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے بعض اراکین نے مداخلت کی سپیکر نے کہا شیخ صاحب کو بولنے دو شیخ صاحب نے دل کی بھڑاس نکالی تو خلاصہ یہ سامنے آیا کہ اگلے 20 سالوں تک ملک میں انتخابات نہیں ہو نے چاہئیں قومی اسمبلی کا اگلا اجلاس شاید 20 سال بعد ہوگا مایوسی اورنا اُمید ی کے بادلوں کے باوجود ملک میں اگلے انتخابات کی تیاری جاری ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے اُمیدواروں کا اعلان کر دیا ہے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیاں 2008 ء کی طرح خیبر پختونخوا میں ہمکاری اور ہم آہنگی پر زور دیا جارہا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیتہ العلمائے اسلام کے درمیان اتحاد کا قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے اور اتحاد ہو تا نظر بھی آرہا ہے۔ ایم کیو ایم نئی شیر ازہ بندی کررہا ہے پاکستان تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ ،طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ،جنرل مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ، حافظ محمد سعید کی ملی مسلم لیگ ،جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں سولو فلائیٹ کر رہی ہیں اورغیبی امداد کی منتظر ہیں اگر 2018 ء میں انتخابات ہوئے اور عوا م کے ووٹوں سے حکومت آئی تو پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) دوبارہ حکومت بنائے گی سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہوگی ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ(ن) او ر جمعیتہ العلما ئے اسلام (ف) ملکر حکومت بنائینگی مگر اس امکان نے 2018 ء کے انتخابت کو مشکوک بنا دیا ہے۔
ریاست کے چار ستونوں پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں پہلے انتظامیہ کو بد نام کیا گیا ، بیوروکریسی کی برائیاں بیاں کی گئیں پھر عدلیہ کو بد نام کیا گیا ججوں کے کردار میں نظر یہ ضرورت کے کیڑے نکالے گئے اس کے بعد مقننہ پر زور دار حملہ ہوا مقننہ کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ مقننہ کی کوئی ضرورت نہیں پارلیمنٹ بیہودہ ادارہ ہے وقت اور وسائل کا ضیاع ہے پارلیمنٹ کے اندر ایسے لوگ پیدا ہو ئے ہیں جو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس صورت حال میں 2018 ء کے انتخابات کامشکوک ہونا تعجب کی بات نہیں۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button