خواتین کا عالمی دن
تحریر:سعدیہ دانش
صوبائی سکریٹری اطلاعات
پیپلز پارٹی گلگت بلتستان
آٹھ مارچ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منائے جانے کا مختصر تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ آٹھ مارچ 1907 کو نیویارک میں کپڑوں کی صنعت سے وابستہ کچھ خواتین نے اس موقف کی بنیاد پر کہ انہیں اپنی محنت کے عوض ناکافی معاوضہ دیا جاتا ہے اور جو کام کا دورانیہ ہے وہ بھی زیادہ ہے احتجاج کیا۔مگر بد قسمتی سے بجائے ان محنت کش خواتین کے اپنے حق کے لئے پر امن احتجاج کی کوئی شنوائی ہوتی الٹا ان خواتین پر پولیس کے ذریعے تشدد کیا گیا اور اور آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی تاہم یہ کوئی آخری واقعہ نہیں تھا اسکے بعد بھی اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی خواتین کو پر تشدد طریقوں سے خاموش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔تاہم خواتین نے اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی اور بلاخر ان کی کوششیں رنگ لئے آئیں اور آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا۔خواتین کے حقوق کی تلفی ان کے ساتھ صنفی امتیاز کا برتاؤ اور انہیں مردوں سے کم تر سمجھنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے وجود سے ہی یہ عمل جاری ہے۔اس حوالے سے زمانہ جاہلیت کو تاریک ترین دور قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جب لڑکی کا پیدا ہونا تضحیک اور ذلت و رسوائی کا باعث سمجھا جاتا تھا اور پیدائش کے فوراً بعد زندہ درگور کیا جاتا تھا۔تاہم دین اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسومات اور امتیاز پر مبنی رواجوں کو یکسر مسترد کر دیا اور عالم انسانیت کو ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کیا۔اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں،بہن اور بیٹی کے مقام و مرتبت اور عزت و تکریم عطا کی انہیں باپ کی وراثت کا حصہ دار قرار دیا یہاں تک کہ عالم انسانیت کی تربیت کا ضامن قرار دیا یعنی ماں کی گود انسانی تربیت کی بنیاد ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اگر خواتین کے حقوق کے حوالے سے جائزہ لیں تو پیپلز پارٹی اس حوالے سے سر فہرست نظر آتی بے جس نے اپنے ہر دور میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے عملی اور انقلابی اقدامات کئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن تھیں کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک مثالی خاتون اور خواتین کے حقوق کی آواز قرار دیا جاتا ہے بینظیر بھٹو شہید نے جن نامساعد حالات اور کرب و آلام میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا انکے تناظر ميں اگر انہیں خاتونِ آہن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔تمام تر مشکلات اور آمرانہ ظلم و جبر کو برداشت کرتے ہوئے بلاآخر آپ کو پورے عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔بطور وزیراعظم انہوں نے خواتین کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمائندگی دی۔ان کے لئے فرسٹ وومن بنک کا قیام عمل میں لایا۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کو بھر پور نمائندگی دی۔خواتین کے حقوق اور انکے تحفظ کے لئے قانون سازی کی۔محترمہ کی شہادت کے بعد جب پیپلزپارٹی دوبارہ برسراقتدار آئی تو پیپلزپارٹی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کے تسلسل کو جاری رکھا اور قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا اسکے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت شہروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے پسماندہ علاقوں کی غریب اور نادار خواتین کو نہ صرف مالی معاونت فراہم کی بلکہ انہیں خود روزگاری کے مواقع بھی فراہم کئے۔اسکے علاوہ پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس نے اپنی جماعت میں خواتین ونگ کے علاوہ بھی دیگر تنظیموں میں خواتین کو بہترین اور مناسب نمائندگی دی ہے۔حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات میں تھر کے ایک نہایت غریب اور غیر معروف گھرانے کی اعلی تعلیم یافتہ خاتون کو ملک میں آئین سازی کے سب سے بڑے ادارے ایوان بالا کا ٹکٹ دے کر سینیٹر منتخب کیا جو کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے نہایت حوصلہ افزاء اور قابل تقلید مثال ہے۔پیپلز پارٹی کے موجودہ نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اپنے نانا اور ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔اسی سلسلے میں آٹھ مارچ کو خواتین بے نظیر کے نام سے ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی خواتین کی ریلیاں اور سیمینارز منعقد کرنے کا فیصلہ بلاول بھٹو کی سیاسی پختگی،وسیع النظری اور دور اندیشی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ان تمام اقدامات کے باوجود بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کا استحصال کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔جن میں وراثت سے محرومی،ہراسگی،تیزاب گردی، کاورکاری،ونی،سوارہ اور اسی طرح کے بہت سے مذموم اقدامات اور قبیح رسوم شامل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے حقوق اور انکے تحفظ کے حوالے سے مزید قانون سازی اور سخت اقدامات کئے جائیں اور اسطرح کے غیر اسلامی،غیر قانونی اور غیر اخلاقی جرائم کے خلاف سخت ترین فیصلے اور سزائیں دی جائیں تاکہ نہ صرف کسی بھی طرح سے خواتین کا استحصال ممکن نہ ہو بلکہ وہ ایک احساس تحفظ کے ساتھ معاشرے کی تعمیر اور ملک ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا بہت کلیدی کردار ہوتا ہے۔
بقول حکیم الامت علامہ اقبال
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں۔۔
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن۔۔
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں۔۔