کالمز

یکم مئی اورپاکستانی مزدورطبقہ

دنیا بھرمیں یکم مئی کو مزدوروں سے منسوب کیا جاتاہے،اس دن کی مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا بھرمیں مختلف پروگرامزمنعقدکیا جاتاہے، آگے بڑھنے سے پہلے ہم یکم مئی کی تاریخ پرروشی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

یکم مئی 1886کوامریکی شہرشکاگومیں اپنے حقوق کیلئے جمع ہونے والے مزدوروں کے ایک گروہ پرپولیس نے گولی چلائی،اس واقعے کامقدمہ 21جون 1886کوکرمینل کورٹ میں چلا،کیس کے دفاع میں کسی کوبھی صفائی پیش کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی،اٹارنی جنرل نے عدالت سے محاطب ہوکرکہا کہ سماج کو بچانے کیلئے ان مزدوروں کو سزادی جائے،جس پر19اگست کو پانچ مزدوررہنماوں کو سزاموت سنائی گئی،جبکی رنیبے نامی شخص کو پندرہ سال قیداورشواب اورفلٹن نامی اشخاص کو عمربھرقیدکی سزاسنائی گئی،قید کے دوران ایک قیدی لیڈزلنگ نے قیدخانے میں ہی خودکشی کرلی، 11نومبر 1887 کومزدوررہنماؤں ایجنل،اسپائر،پارسنزاورفترکوپھانسی دے دی گئی،ان میں سے دوافرادامریکی اورباقی آئرلینڈ،انگلینڈاورجرمی کے شہری تھے،ان رہنماؤں کے جنازے میں سولہ لاکھ سے زائد شہریوں نے شرکت کی،1989میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صدسالہ یادگاری تقریب کے موقع پرریمونڈلیونگ نے یہ تجویزرکھی کہ 1890میں شکاگوکے مزدوروں کی برسی کے موقع پرعالمی طورپراحتجاج کیا جائے،یوم مئی کوعالمی طورپرمنانے کیلئے اس تجویزکو باقاعدہ طورپر1891میں تسلیم کرلیاگیا،اب دنیابھرمیں 8گھنٹے کی ڈیوٹی کوتسلیم کرلیاگیاہے،اوریکم مئی کو پاکستان سمیت دنیاکے اکثرممالک میں لیبرڈے کے نام سے منایاجاتاہے،جن میں چین،بنگلہ دیش،بحرین،برازیل،ارجنٹائن،کمبوڈیا سمیت دیگرممالک سرفہرست ہے،جبکہ امریکہ کے بعض ریاستوں میں یہ دن اکتوبرکے پہلے ہفتے میں کسی روزمنایاجاتاہے۔

دنیابھرمیںیکم مئی مزدورں کے عالمی دن کی مناسبت سے منایاجاتاہے،جہاں ترقی یافتہ ممالک کی بات ہے وہاں پرمزدوروں کو تمام ترسہولیات میسرہے،صحت تعلیم ہرکسی کا حق ہے اس میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں ،مزدوروں کو جواجرت دی جاتی ہے اس سے ان کا گزاراآرام سے ہوجاتاہے۔

پاکستان میں یکم مئی کو حکومتی سطح پرعام تعطیل ہوتی ہے،حکومتی اورعوامی سطح پربڑے بڑے اجلاس ہوتے ہیں،مختلف سیمنارزمنعقدکیے جاتے ہیں لیکن مزدوروں کو اس کازرہ برابربھی فائدہ نہیں ہوتا،اس دن صدووزیراعظم سے لے کرتمام حکومتی عہدیداران مزدوربھائیوں کی غم میں ڈھوباہوانظرآتاہے،حکومتی سطح پربہت سارے وعدے کیے جاتے ہیں مگراگلی سال ان کی حالت پہلے سے ابترہوچکی ہوتی ہے،مجھے یہ جان کرحیرت ہورہی ہے کہ پاکستان غلامی جیسے حالات کی زندگی گزارنے والوں کی فہرست میں تیسرے نمبرپرہیں ،جوکہ باعث شرم ہے،جدیدغلامی کی اصطلاح استحصال کی ایسی صورتحال کیلئے استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی شخص تشدد،جبر،دھمکیوں اورطاقت کے غلط استعمال یادھوکہ دہی کے باعث انکارنہیں کرسکتایاکام چھوڑکرنہیں جاسکتا،یہ پاکستانی معاشرے کاسب سے پسہ ہواطبقہ ہے،جوکہ پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

آج کل پاکستان کی حالات یوں ہے کہ بہت سے مزدوروں کویہ بھی نہیں معلوم کی یکم مئی کے روزیوم مزدورمنایاجاتاہے،وہ اس دن بھی فکرروزگارمیں مگن ہوکرگھرسے کام کی تلاش میں نکل جاتے ہیں جبکہ حکومتی اداروں کے اعلیٰ آفسران یوم مئی کی مناسبت سے چھٹی کرکے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں مزدورں کی حالت کبھی نہیں بدلی،مزدورکل بھی کمزورتھا ،آج بھی کمزورہے،مزدورکل بھی مفلوج حال تھا ،آج بھی مفلوج حال ہے،مزدورکل بھی مظلوم تھا آج بھی مظلوم ہے،کسی شاعرنے کیا خوب فرمایا ہے۔سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پراخباربچھاکر،مزدورکبھی نیندکی گولی نہیں کھاتے۔

آپ یہ ذہین میں رکھیں ہمارے ملک میں آج بھی چھ کروڑسے زائدافرادخط غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسرکرنے پرمجبورہے ،ملک میں چھ کروڑ20لاکھ مزوربھی موجودہے،حکومت پاکستان نے پچھلے سال مزدوزکی کم سے کم اجرت چودہ ہزارروپے طے کی تھی جوکہ آج کل کے مہنگانی کے دورمیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے،آپ ملک کے بڑے بڑے اکانومسٹ کے ہاتھ میں کاغذقلم تھماکرکہہ دیجیے کہ چودہ ہزارمیں ایک خاندان کا ماہانہ بجٹ نکال کردیکھائیں،وہ صرف پانچ افرادکابجٹ نہیں بناپائے گا، آپ ملک کے کسی بھی شہرمیں جاکردیکھیں وہاں لوگ کم سے کم اجرت پرکام کرتے ہوئے ملیں گے،کیا حکومت کوا ن سب کاعلم نہیں ہے؟؟،حکومت سب جانتے ہوئے بھی نظام کی درستگی نہیں چاہتے،حکومت چاہیں توکچھ بھی کرسکتے ہیں مگرکسی کو آج تک اس امرمیں دلچسپی لینے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ خودجوآرام و راحت کی زندگی بسرکررہے ہیں، یہ ہے ہماری ملک کی حالت ،خیرچھوڑیں آج یکم مئی سے مزدورڈے منا نے دو۔

دنیا میں کسی بھی شعبے کے ورکرزکیلئے سب سے اہم ان کی تنخواہ ہوتی ہے اس سے ان کے گھرکا جولہاجلتاہے ،مگرہمارے ملک کاالمیہ یہ ہے یہاں مہینہ بھردل وجان لگاکرکے کام کرنے کے باوجوقلیل تنخواہ کیلئے بھی خوارہوناپڑتاہے،تنخواہیں کئی کئی مہینوں تک روک کے رکھاہواہوتاہے ،جسکے سبب ان کے گھروں میں فاقے کی نوبت آجاتی ہے،کیاایساکرنے سے مزورطبقے دلچسپی سے کام کریں گے؟؟؟معصوم کافرمان ہے کہ” مزدورکی اجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکیاکرو”،لیکن ہمارے معاشرے میں مزدورں کو اجرت دینے میں سرمایہ داروں کی جان نکل جاتی ہے۔

ہم 71سالوں سے مزدورڈے مناتے آرہے ہیں،حکومتی عہدار71سالوں سے یہ عہدکررہے ہیں کہ ہم مزوروں کیلئے جدوجہدکریں گے لیکن یہ کلمات محض ہوائی فائرنگ ثابت ہورہی ہے،مرزدورطبقے آج بھی وہیں پڑے ہیں جہاں سترسال پہلے تھا،ہمارے ملک میں ان کی حالت نہیں بدلی،ہاں ایک چیز ضروربدلی ہے وہ ہے مزدورخود، کسی زمانے میں باپ مزدورہواکرتاتھا اب اس کی جگہ بچے نے لے لی ہے،اگرہماری حکومت واقعی میں ان کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں توبہت کچھ کرسکتے ہیں۔اگرحکومت ان کی بہتری کیلئے زبانی وعدوں سے نکل کرعملی میدان میں کام کریں تو یہ طبقہ جھولی اٹھاکردعاکریں گے،حکومت کوچاہیے کہ ان کے مقررکردہ اجرت نامے سے کم مزدورکو کام پررکھنے والوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے انہیں کیفرکردارتک پہچائیں ،ہرادارے کو پابندکردیں کہ وہ مزدورں کو کام کے دوران ٹریننگ بھی دیں گے اورہرادارے کو پابند بنائے کہ وہ مزدورں کی تنخواہیں وقت پراداکریں گے،اگریہ کام کردیں تویقیناًآپ کو پانچ سالوں کے اندراندرواضح تبدیلی نظرآئے گی۔

ہم ہرباریکم مئی کے دن تقاریرکرکے اسی پراکتفاکرتے ہیں باقی 363اس کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے ہیں،ہمیں اب تقریروں سے اگے بڑھناہوگا،ہمیں مزدروں کیلئے کچھ کرناہوگا،آج اس دن کی مناسبت سے حکومت یہ پلے باندھ لیں کہ ہم مزدوربھائیوں کے مسائل حل کریں گے تویہ ملک وقوم دونوں کیلئے سودمندثابت ہوگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button