کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کا پروسیچر  قسط نمبر ۔۱

شمس الحق قمرؔ
بونی حال گلگت

ڈاکٹر طبقہ کسی مریض کے جسم کے متاثرہ حصے کو  انجکشن کے ذریعے بے حس کر کے کاٹ کر  درست کرنے کو  پروسیجر کہتے ہیں چاہے اُس عمل  میں آُ پ  کی آنتیں ہی باہر کیوں نہ نکالی جائیں  مگر کام پروسیجر ہی ہے ۔ دو بڑے مشکل کام ہیں جنہیں پروسیجر کہہ کر ڈاکٹر لوگ مریض کے دل کو بہلا پھسلا کر جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ باقی جسم سے الگ کرتے ہیں ایک دانت جو کہ انجکشن لگا کے سن کیا جاتا ہے اور نکال کے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور دوسرا انکھوں کا معاملہ  ۔ میری ایک آنکھ میں موتیا اتر ایا تو میں نے آغا خان ہسپتال کا رخ کیا ( آغا خان ہسپتال میں ماہر امراضِ چشم محترم عرفان جیوا سے ملاقات کی کہانی’’ میری ڈائری کے اوراق سے ‘‘ کی زیل  میں لکھ چکا ہوں ) مجھے معلوم تھا کہ اپریشن کے علاوہ اس اندھے پن کا اور کوئی علاج نہیں ہو سکتا ۔ لیکن میرے لئے  اپریشن موت سے کم  لفظ نہیں تھا مگر اس سے بھی زیادہ ہیبت ناک اور دہشت  ناک  شئے انجکشن تھا یعنی سوئی لگانا( قدیم زمانے میں لوہے کا ایک چھوٹا سا ڈبہ ہوا کرتااُس کے اندر سیرنج اور سوئیاں مختلف نمبر کے رکھے ہوئے ہوتے ۔ لوہے کے اس ڈبے میں تھوڑا سا پانی ڈال کر آگ میں ابلنے تک گرم کیا جاتا تاکہ جراثیم کاخاتمہ ہو سکے پھر  دوسرے مریض کو لگایا جائے ) ۔ ہمارے زمانے میں سکول میں جب وکسین کرنے والے آتے تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑ تی۔ یہ ویکسین دو طرح سے لگائے جاتے تھے ۔ ایک کو ہم اپنی زبان یعنی کھوار میں ’’ ہُدا کوریک ‘‘ کہتے تھے ۔اس فرض کی انجام دہی کے لئے ہمارا اپنا ایک چچا  خیر عظیم شاہ  ( مرحوم )  تعینات تھے ۔ بچوں میں اُن کی دہشت اتنی تھی کہ مائیں اپنے روتے بچوں کو آپ ( مروحوم) کا نام لیکر’’ ہدا کوراک ہائے )  چپ کرایا کرتی تھیں۔ ان کے پاس ایک کھردری سوئی ہوتی تھی جسکا نقشہ موچی کے جوتے سینے والی  سوئی’’ سونزور‘‘ سے ملتی تھی۔ آسی آلہ کی مدد سے وہ ہمارے بازو یعنی کہنی سے اوپر اور کندھے سے قدرے نیچے گوشت  کے موٹے پھٹوں کو کھرج کھرج کر ’’ ہدا‘‘ کرتے  ۔ گہرا زخم بنانے میں تقریباً تین سے چار منٹ لگا لیتے اور  ہم نیم بسمل جانور کی طرح نیچے  ٹرپتے رہتے ۔ اس سے بھی خطرناک کام اُس زخم پر دوائی ڈالنا ہوتا  تھا یوں سمجھ لجیئے کہ زخموں پر نمک پاشی ہوتی تھی ۔ ہفتوں تک زخم بھر نہیں ایا کرتے اور بعض مرتبہ کسی بیماری کے بدن میں پہلے سے موجودگی اور دوائی کی مزاحمت کی وجہ سے بخار بھی چڑھا کرتا ۔  وکسین کا دوسرا طریقہ سوئی لگانے کا  ہوتا  تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں اتنے ظالم اور سفاک میڈیکل ٹیم  ہمارے سکول میں وارد ہوئی جو کہ سوئیوں کو اسپرٹ کے چولہے میں تپاکر گوشت میں گھسیڑ دیتے  تھے ۔ میرے لیے یہ منظر قیامت کا تھا ۔ میں سہمے ہوئے جانور کی طرح حواس باختہ ہو کر بستہ بھی وہی چھوڑ کر اندھا دھند بھاگنے لگا لیکن ہمارے ڈرل ماسٹر بہت سخت آدمی تھے( علی شیر خان کا نام سن کر اب بھی لرزہ طاری ہوتا ہے  ) انہیں ہمارے اوپر نظر رکنھے کا کام تفویض تھا لہذا انہوں نے مجھے پکڑ کے ایک لات بھی مارکے سوئی برداروں  کے حوالہ کر دیا ۔ نرس نے غصے سے شاید غلط جگہے میں سوئی گھونپ دی مجھے ایسا لگا جیسے میرے سر پر کوئی بہت بڑا دھماکہ سا ہو گیا شاید سوئی کسی حساس شریاں میں یا رگ میں لگ گئی تھی ،میں نے زوردار چیخیں ماریں یوں نرس نے سوئی نکال کر مجھے زدوکوب کرتے ہوئے اُسی لمحے دوبارہ دوسرے  پھٹے میں گھسا دیا ۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی انجکشن نہیں لگوائی ۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوانجکشن نہیں لگواؤں گا ۔

            میری دائیں آںکھ کی بینائی جب مضمحل ہو گئی تو میں نے اپنی ڈاکٹری کے مطابق یہ سوچا کہ رات کو سوتے وقت شاید میرا بازو میری آںکھ کے اوپر اتا ہے اور یوں دباؤ کی وجہ سے نظر کمزور ہو رہی ہے، یہ خیال صرف اپنے دل کو بہلانے کے لئے ابھر ایا تھا ورنہ معلوم تھا کہ کوئی پچیدگی ہے ۔ لہذا میں نے اپنی طرف سے تدبیر یہ کی کہ مفلر سے اپنے دائیں بازو کو اپنی ٹانگ کے ساتھ ٹانک کے سونے لگا ۔ رات کو سیدھا لیٹنے کی وجہ سے سانس بند ہوگئی اور بازو جکڑے ہوئے  تھے  نیم خوابی کی کیفیت میں  جھٹکے سے اُٹھنے کی کوشش میں  میرےسر کے عین  دائیں آںکھ  کا اوپر والا حصہ کھڑکی سے زور سے ٹکرا گیا ۔میں نے مفلر کھولا اور سر پر داوئی لگائی اور نیند کی ایک گولی کھا کے سوگیا ۔  صبح جب آنکھ کھل گئی تو نظر پہلے سے زیادہ دھندلی تھی ۔  میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کسی ایسے ڈاکٹر کی تلاش کرنی چاہئے جو کہ مجھے یہ تسلی دے سکے کہ آنکھوں کا ایک اپریشن ایسا بھی ہوتا ہے جس میں انجکش نہیں لگا یا جاتا ۔  یہی سوال میں نے گلگت میں ایک رازدار ٹیکنیشن سے پوچھ کر اطمینان کر لیا  کہ واقعی ایک اپریشن ایسا بھی ہوتا ہے جس میں ڈراپس کے ذریعے متاثرہ جگہے کو سن کیا جاتا ہے ۔ اب میں نے کھلےعام سب کو بتانا شروع کیا کہ میری آںکھ خراب ہو گئی ہے اور میں  اپریشن کے لئے جا رہا ہوں  ۔ اور ساتھ ساتھ میں ہر ملنے والے کو یہ بھی بتاتا تھا کہ ’’فیکو‘‘ نام کا ایک اپریشن ہے جسے لیزر بھی کہتے ہیں جس میں انجکشن نہیں لگایا جا تا ۔ قصہ مختصر یہ کہ  مجھے کراچی اے۔ کے ۔یو جانا ہی پڑا ۔ جس دن میرا پروسیجر ہونے والا تھا اُس دن پروسیجر سے دو گھنٹے قببل مجھے سفید پوشاک میں ملبوس کیا گیا ۔ تنبیہ کی گئی کہ اندر کی پوشاک خصوصی طور پر اُتاری دی جائے ( شاید کچھ مریض ایسا نہیں کرتے ہوں گے  لیکن یہاں صفائی کا بڑا خیا ل رکھا جاتا ہے تاکہ ہمارے لباس سے دوسروں کو کوئی بیماری نہ لگے ۔ یہ بہت ہی اعلی نظام ہے ) میں نے ہسپتال کی پالیسی کا پورا پورا احترام کیا ۔ اس دوران مجھے اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے باربار یہ خیال آتا رہا کہ شاید میں مرا ہوا ہوں اور میری روح اوپر سے میرے جسم کو دیکھ رہی ہے ۔ مجھے ایک اور کمرے میں دخل کیا گیا جہاں صاف و شفاف کرسیاں لگی ہوئی تھیں سامنے اپریشن تھیٹرز تھے  یہاں پروسیجر شدہ مریضوں  کی پروسیجر شدہ  آنکھوں کو ڈانپ کر ویل چیرز میں بٹھا کر شاہانا انداز سے وارڈز میں منتقل کیا جا رہا تھا ۔ اس وقت تک میری آنکھ میں سولہ مرتبہ قطرے ڈالے گئے تھے میں سوچ رہا تھا کہ ابھی میری آنکھ سن ہو گئی ہوگی ۔ میں ۔بار بار اپنی آنکھ کو انگلیوں سے چھو کر دیکھ لیتا کہ سن ہوئی ہے یا نہیں ۔  ( جاری ۔ بقایا دوسری قسط میں ملاحظہ فرمایں )

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button