کالمز

گلگت بلتستان آرڈر 2018 اور بھارتی بوکھلاہٹ

فیض اللہ فراق

گلگت بلتستان گزشتہ ستر برسوں سے تنازعہ کشمیر کی ایک اہم اکائی کے طور پر موجود ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھی یہ خطہ مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے ۔ ہندوستان نے جموں کشمیر پر قبضہ کر کے اس علاقے کو عبوری سیٹ اپ دے رکھا ہے جبکہ آزاد کشمیر ایک ریاست کی ساخت کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام ہے جبکہ گلگت بلتستان ایک صوبہ نما سیٹ اپ کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام چل رہا ہے ۔تنازعہ ایک ہے اور متنازعہ علاقے تین مختلف سیٹ اپ پر مبنی ہے اور یہی متضاد تصور آج بھی تینوں علاقوں کی سمجھ سے بالا ہے ۔ گلگت بلتستان والوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں نے 1947 میں بزور طاقت ڈوگرہ سرکار کو شکست فاش کر کے یہاں سے بھگایا ہے اور یکم نومبر 1947 کو گلگت اور 14 اگست 1948 کو بلتستان آزاد ہوا جبکہ چلاس ایجنسی سے بھی انگریز سرکار کا خاتمہ ہوا اور چلاس گلگت کے ساتھ منسلک ہوا لیکن داریل و تانگیر اس وقت بھی اپنی مخصوص شناخت اور رواجی نظام کے ساتھ تھا بعد ازاں 1952 میں ایک معاہدے کے تحت داریل و تانگیر بھی پاکستان میں شامل ہوئے لیکن تکنیکی بنیاد پر داریل و تانگیر کو کوہستان کی بجائے گلگت بلتستان کے انتظامی یونٹ میں شامل کیا یوں گلگت بلتستان کی تین مختلف اکائیاں مختلف اوقات میں گلگت بلتستان کی صورت میں ایک گلدستہ بن گیا۔ 16 نومبر 1947 کو میر آف نگر اور میر آف ہنزہ کے خطوط کی روشنی میں گلگت ہنزہ اور آس پاس کے علاقوں کا غیر مشروط الحاق پاکستان ہوا اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک نائب تحصیلدار گلگت کے حکمران بن گئے اور موصوف نے ایف سی آر کا نفاذ بھی کیا جبکہ ریاست گلگت کے صدر شاہ رئیس خان سول سپلائی میں سرکاری ملازم بن گئے اور کرنل حسن خان بھی کاکول سے دوبارہ تربیت لینے پر مجبور ہو گئے ۔ اس طرح سردار عالم بھی کم و بیش 2 سال کی حکمرانی کے بعد چلے گئے اس کے بعد انتظامی طور پر گلگت بلتستان کی بھاگ دوڑ سنبھالی گئی چونکہ گلگت بلتستان پر ریاست کا سوائے میروں کے خطوط کے کوئی مستند دستاویز نہیں تھی جس کی وجہ سے ریاستی حکمرانی کو تقویت دینے کیلئے 28 اپریل 1949 کو وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی نے تین کشمیری لیڈروں سے ملکر معاہدہ کراچی دستخط کیا جس کے تحت پاکستان کو گلگت بلتستان کے انتظامی نظم و نسق سنبھالنے کا دستاویزی جواز فراہم کیا گیا یہ الگ بات کہ اس معاہدے میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ اس معاہدے کے بعد ایڈمنسٹریٹر کو با اختیار بنایا گیا اس کے بعد جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوری نظام دیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جب 1970 کی دہائی میں ذولفقار علی بھٹو کا دور آیا اور بھٹو نے پہلی بار گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے نظام کا خاتمہ کر کے سیاسی رویوں کی نئی بنیاد ڈالی۔ 1990 کی دہائی میں دوسری بار پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کا نفاذ ہوا۔ 2000 کی دہائی میں یورپی پارلیمنٹ کی دباو اور ایمانکلسن کی رپورٹ پر جنرل مشرف کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کو شناخت پر سنجیدہ غور ہوا اور ایک بااختیار اصلاحاتی سیاسی پیکیج کی راہ ہموار کی گئی مگر کام ادھورا رہ گیا اور مرکز میں ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایک صدارتی آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کو صوبائی نظام دینے کا اعلان کیا اور پہلی دفعہ خطے میں گورنر اور وزیر اعلی جیسے مناصب متعارف ہوئے ۔ اس نظام کو گورننس ارڈر 2009 کا نام دیا گیا۔ اس آرڈر کو گلگت بلتستان کی اکثریتی سیاسی جماعتوں نے ایک اہم سیاسی ارتقائی قدم قرار دیا جبکہ مذکورہ نظام کی کوکھ سے وجود میں آنے والے گلگت بلتستان کونسل نامی ادارے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس نظام کے تحت صوبے کے 51 شعبوں کے اختیارات کونسل کو تفویض کئے گئے تھے ۔ ماضی میں گلگت بلتستان کے مختلف اسٹیک ہولڈر منفرد قسم کے سیاسی نظریات رکھتے تھے لیکن 2010 کے بعد گلگت بلتستان کی نوجوان نسل میں تیزی سے ایک سوچ نے اپنے گھیرے میں لے لیا اور آئینی حقوق کا نعرہ سب کا نعرہ بن گیا۔ مسلم لیگ وہ واحد جماعت تھی جس کے الیکشن منشور میں صوبہ بنانے کا کہیں ذکر نہیں مگر اس کے باوجود 2015 میں جب گلگت بلتستان میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو یہاں کی عوامی آواز پر سرتاج عزیز کی سربراہی میں آئینی اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی تین سال کی کوششوں نے گزشتہ دنوں ایک ہمہ جہت سیاسی پیکیج کا اعلان ہوا جس کو گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا نام دیا گیا۔ اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کے انتظامی’ سیاسی اور مالیاتی اختیارات اسمبلی اور صوبائی حکومت کو دئیے گئے ۔ یہ آرڈر 2009 کے آرڈر سے تھوڑا مختلف بھی ہے مربوط بھی کیونکہ اس آرڈر میں گلگت بلتستان کو ریاستی شہریت دی گئی اور ہندوستان کو اس بات پر شدید تکلیف ہے ۔ گلگت بلتستان کی عوام نظریاتی پاکستانی ہیں اور یہاں کی عوام ہر کڑے وقت میں ہندوستان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ گلگت بلتستان کی مٹی نے لالک جان اور میجر وہاب شہید جیسے سپوتوں کو پیدا کیا ہے جنہوں نے کرگل کی محاذ پر ہندوستان کی فوج کو عبرت ناک شکست دی ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی ہے جس پر ہندوستان کا واویلا بے جا ہے ۔ جس طرح ایک معصوم بچہ اپنی ماں کے سامنے روتا ہے اور شرارتیں کرتا ہے تو ماں کبھی اس کے مطالبات پورا کرتی ہے کبھی تھپڑرسید کر کے اس کو سمجھاتی ہے پاکستان اور گلگت بلتستان کا بھی یہی رشتہ ہے ۔ گلگت بلتستان کی عوام کے گلے شکووں کو جواز بنا کر ہندوستان کے دفتر خارجہ کا نوٹس اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ہندوستان کے عزائم مستقبل قریب میں انتہائی بھیانک ہیں۔ گلگت بلتستان میں متحدہ اپوزیشن اور عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہرے اپنی ماں سے حق لینے کی شکایتیں ہیں جس کو ہندوستانی میڈیا علیحدگی پسندی سے تعبیر کر کے صحافت کی روح کے ساتھ سنگین مذاق کر رہا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button