کالمز

جنرل مشرف کی واپسی

سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کی سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی اُٹھالی ہے اور ان کی نااہلی کا فیصلہ کا لعدم قرار دے دیا ہے مختلف مقدمات میں ان کی مفروری کے دفعات ختم کر دیئے گئے ہیں سپریم کورٹ کے ’’ تاریخی ‘‘ فیصلے کے آخر میں صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ وطن واپسی پر ان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا جائیداد کی قرقی نہیں ہو گی نیز وہ انتخابات میں بطورِ اُمیدوار کاغذات نامزدگی داخل کر سکیں گے اس فیصلے کے بعد جنرل مشرف نے4حلقوں سے کاغذات نامزدگی داخل کروائے اور وطن واپسی کے لئے تیاری شروع کردی ہے اُن کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ میں ایک بار پھر جان پڑ چکی ہے جنرل مشرف کی وطن واپسی کے بعد انتخابی مہم کا رنگ بدل جائے گا نواز مخالف طاقتوں کو نیا حلیف مل جائے گا کیونکہ موصوف کے توپوں کا رخ بھی لامحالہ نواز شریف کی طرف ہوگا مذہبی جماعتوں کو نیا ٹارگٹ مل جائے گا عافیہ صدیقی ، جامعہ حفصہ ، لال مسجد اپریشن ، طالبان رہنماؤں کی گرفتاری ، امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ وغیرہ کی صدائے باز گشت ایک بار پھر سنائی دے گی وطن عزیز پاکستان میں سیاسی بلوغت کی کمی ہے سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی پروگرام ، کوئی منشور نہیں ہے پاکستان کے بنیادی مسائل ، عالم اسلام میں پاکستان کے مقام اور بڑی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو انتخابی مہم میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی 2018ء کے انتخابی مہم میں بھی ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی بنیادی مسائل کے مقا بلے میں ہماری سیاسی جماعتیں شخصیا ت کو سامنے رکھ کر مہم چلاتی ہیں انتخابی مہم میں گالی گلوچ ، الزامات ، جوابی الزامات اور کردار کشی پر توجہ دی جاتی ہے سیاسی رہنما ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں ایک دوسرے کا ماضی کریدا جاتا ہے گڑھے مردے باہر نکالے جاتے ہیں ملک دشمنی کے طعنے دیئے جاتے ہیں غیر ملکی ایجنٹ کے طعنے سننے کو ملتے ہیں نیز کافریا مسلمان اور حرام یا حلال کے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں پاکستان کے نظریاتی تشخص کا ذکر بار بار آتا ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ کا تذکرہ بہت ہوتا ہے 1990ء کی انتخابی مہم میں آئی جے آئی نے نظریاتی محاذ سنبھال لیا تھا اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوئے2002ء کے انتخابات میں جنرل مشرف نے آئی جے آئی کے طرز پر متحدہ مجلس عمل کے نام سے مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنانے میں مالی مدد کے ساتھ اخلاقی حمایت کی خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی بلوچستان کی حکومت میں اس اتحاد کو وزارتیں مل گئیں یا ر لوگوں نے اس کے محفف ایم ایم اے کو ملا ملڑی الائنس یا ملا مشرف الائنس کا نام دیا اُس وقت دینی جماعتوں کے لیڈروں نے اس کی پر زور تردید کی مگر 16 سال بعد 2018ء میں یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے اس سال جنرل مشرف کی تائید ، حمایت اور مالی مدد کے بغیر دینی جماعتوں کے اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی پہلے مرحلے میں مولانا سمیع الحق اور مولانا محمد طیب طاہری نے سات دینی جماعتوں کو متحدہ مجلس سے الگ کر لیا اس کے بعد کالعدم جماعتوں نے نئے نام سے الگ اتحاد بنا لیا پھر بریلوی مکتب فکر نے اپنی راہ الگ کر کے دکھایا سلفی مسلک نے الگ جماعت تشکیل دی یہاں تک کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا مرحلہ آیا تو جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے بھی اپنے راستے الگ کرکے ضلعی تنظیموں کو اتحاد برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا چترال ، سوات،دیر اور بونیر میں جماعت اسلامی نے اتحاد سے ہاتھ کھینچ لیا بنوں ،ڈی آئی خان ، صوابی، مردان وغیرہ میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے سر د مہری دکھائی چنانچہ متحدہ مجلس عمل کا شیرازہ بننے سے پہلے بکھر گیا بقول شاعر ’’ ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گر ا کوئی وہاں گرا‘‘ شاعر نے تو یہ بھی کہا ہے ؂

سر آئینہ میرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا ہے کوئی اور ہے

جنرل مشرف کی وطن واپسی اور انتخابی مہم میں ان کی شرکت کئی زاویوں اور کئی حوالوں سے اہمیت رکھتی ہے اس تاریخی فیصلے میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ سپریم کورٹ آزاد ہے اور عدلیہ پر کوئی دبا ؤ نہیں جنرل مشرف کی واپسی سے ترقی پسند اور روشن خیال یعنی سیکولر جماعتوں کو ایک فطری اتحاد ی مل جائے گا اور پاکستان کا سیکولر تشخص اجاگر ہو کر سامنے آئے گا چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ( CPEC) کو نیا ضمانتی مل جائے گا 28جولائی 2017ء کے بعد اس منصوبے پر جو پیش رفت رک گئی تھی اس کو نئی زندگی مل جائیگی کیونکہ CPECجنرل مشرف کا ’’ برین چائلڈ ‘‘ ہے اس حوالے سے چین اور امریکہ دونوں کو جنرل مشرف ہی نے 2005ء میں مطمئن کیا تھا آنیوالی حکومت میں جنرل مشرف کا کردار بے حد اہم ہوگا جاذل نے اپنی غزل کے اشعار میں پاکستانی ووٹروں کی ترجمانی کا حق یوں ادا کیا ہے ؂

میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں

تیرا نقطہ بھی سند ہے حد ہے

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر

میرے ہر بات ہی رد ہے حد ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button