Uncategorized
میری جمع پونجی اور یہ سیلابی ریلے!!!
ذوالفقار علی کھرمنگی
گرمی کی آمد ہے اور گلیشروں کی سرزمین گلگت بلتستان اس وقت سیلابی ریلوں کی ذد میں ہے۔داریل دیامیر سے لے کر ایک طرف خنجراب پاس کی وادیاں ہو یا شندور میدان غذر بدصوات کی خوبصورت چمن،دیوساٸی سکردو واستور کے دلفریب نظاروں پر مبنی وادیاں ہو یا کھرمنگ و روندو کی چھوٹی چھوٹی سحر انگیز موضعات ہر طرف سیلابی ریلے نے اس حسین خطے کی وادیوں کو تہس نہیس کر دیا ہے۔یہ سیلابی ریلوں کا دور آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے حکمرانی کرتے آٸے ہیں۔نہ جانے کیوں یہ ہمارے زندگی بھر کے محنت کو پل بھر میں نیست و نابود کرنے کے لٸیے آتے ہیں۔ مجھے تو یہ سیلابی ریلے یاغستان کی سرزمین کے باشندے لگتے ہیں۔ کیوں کہ یہ آج تک ہمارے حکومت کی گرفت میں نہیں آٸی ہے اور دوسری بات اس کی یاغستانی کی دلیل یہ ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔کسی غریب کے زندگی بھر کے جمع پونجی کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔پچھلے کٸی سال پہلے راقم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے گاٶں گیا ہوا تھا اسی دوران ایک رات کو بارش کا سلسلہ شروع ہوا یوں صبح معلوم ہوٸی کہ آس پاس کے دیہاتوں میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچاٸی ہیں۔یہ خبر سنتے ہی میں بھی اپنے علاقے کے عماٸدین کےساتھ مدد کے واسطے چلے گٸے۔اللّہ کا شکر تھا کسی جانی نقصان نہیں ہوا تھا البتہ ان غریبوں کے مالی نقصانات کا اندازہ لگا کر گہرا صدمہ ہوا۔صدمہ گہرا کیوں نا ہوتا یہاں کے باسیوں نےجس گل کو سینچا تھا اس کی پرورش میں صرف ان کے ہی محنت ہی شامل نہیں تھا بلکہ انکے آباواجداد کی محنت بھی شامل تھیں۔جی ہاں میں ان کھیتوں اور باغات کی بات کر رہوں جن کو ان کے بزرگوں نے کٸی دہاٸیوں پہلے لہو دے کر بنایا تھا۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہمارے علاقوں میں ایک کھیت و باغ تعمیر کرنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔اور کس طرح کی محنت کرنا پڑتا ہے۔مجھے شکوہ اس سیلابی ریلوں سے جو میری حالات دیکھے بغیر مجھ جیسے کمزور انسانوں کی املاک کو نقصان پہنچانے میں کسر نہیں رکھتے ۔یہ دیکھے بنا ان کو خدا کی ذات کےعلاوہ بچانے والا کوٸی نہیں ہے۔جی میرا حکومت کی طرف اشارہ یہ نہیں کہ آپ سیلاب روک دے۔میرا حکومت سے یہ مطالبہ نہیں آپ بارش روک دے میرا تو صرف اتنا سا گزارش ہے کہ سیلاب کے لٸیے راستہ بنا دے یعنی زمینوں کو محفوظ بنانے کے لٸیے بند تو باندھ سکتے ہے نا۔سیلاب کو روکنے کے لٸیے ضروری اقدامات تو کر سکتے ہو نا۔لیکن جناب آپ نے کچھ نہیں کیا آپ تو زمینوں کے نقصانات کا اذالہ بھی نہیں کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں کھبی آپ کو اس معمولے میں متحرک نہیں دیکھا۔میں نے اس حوالے سے حکومتی ادارے کو کھبی متحرک نہیں دیکھا۔میں اور عوام بس بے بسی کی داستان بن کر مجبور ہو چکے ہیں۔یہ سیلابی ریلے کھبی میرے ہر گاٶں گاٶں کے ایک حصے کو کھا جاتی ہے تو کھبی دوسرے حصے کو ہم خود اس کے کھا جانے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ہماری بے بسی اس ذیادہ اور کیا ہو سکتا ہے ایک طرف سیلابی ریلوں کا ڈر تو دوسری طرف حکومتی عدم توجہی ناشاد دل کو بھی بے شاد بنا دیتے ہیں۔کیوں نہ اپ ہماری حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس معمولے میں غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی کوشش کرنی چاہے۔ایسے میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ ناگہانی آفت کی صورت میں کم از کم جانی و مالی نقصانات ہو۔زمینی حقاٸق کو مدنظر رکھتے ہوٸے اور خطرات کی نشاندہی رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہم مکمل پلاننگ کے زریعے ان خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔جس کے لٸیے یقینی طور پر حکومت اور عوام کی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔تاکہ اپنے علاقے کو ناگہانی آفات سے بچایا جا سکے۔حکومت کو چاہے کہ ایسے علاقے جہاں سیلاب آنے کے امکانات ذیادہ ہوتے ہیں وہاں بند باندھنے کے علاوہ اس کے اردگر ایسے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بناٸے جس سے پانی کے فلو کو کم کیا جا سکے۔اس سے ایک طرف تو پانی کی بچت ہو گی تو دوسری طرف پانی کا بہاو کم ہو جانے کی صورت میں نا گہانی آفات سے بچایا جا سکتا ہے۔اور دوسری اہم کام فوری طور پر شجر کاری کرنا ہے۔درختوں کی کاٹاٸی سے موسمی تبدیلیوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے اور یوں گرمی میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس سے پہاڑوں پر موجود گلشیرز پگلنا شروع ہو گٸے ہیں ۔جس سے ایک طرف مستقبل میں پانی کی کمی واقع ہو گی تودوسری طرف سیلاب کی تباہ کاریاں بارش کے پانی کے مقابے میں ذیادہ تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔اگر حکومت اور عوام اس مسٸلے پر ابھی غور نہیں کرینگے تو آنیوالے وقت تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔میں اس بوڑھی عورت کے وہ الفاظ کھبی نہیں بھول سکتا جو اس نے پچاس سال پہلے اپنے ہاتھوں سے اگاٸے ہوٸے پودے کی بربادی کے بعد مجھ سے کہا تھا کہ میری زندگی کی جمع پونجی اس سیلابی ریلے نے ایک ہی لمحے میں برباد کر دی۔