گلیشیرز ٹوٹنے کے سلسلے کو کیسے روکا جاسکتا ہے ؟
تحریر :۔دردانہ شیر
غذر میں بدصوات کے مقام پر پہاڑ سے گلیشیر گرنے سے جو تباہی ہوئی ہے وہ اپنی جگہ مگر اس گلیشیر کے ٹوٹ جانے سے نہ صرف اشکومن بلکہ جہاں جہاں دریا ئے غذر گزرتا ہے وہاں کاشتکاروں کوجو اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں ان کو آنے والے سالوں میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اور موسمی تبدیلی کے بعد سب سے زیادہ نقصان گلگت بلتستان کے گلیشیر ز کو پہنچنے کی پیشنگوئی کی گئی ہے اور 2025تک پانی میں کمی سے ملک میں نہ صرف زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی دستیاب نہیں ہوگا بلکہ لوگوں کو پینے کا پانی کا حصول بھی مشکل ہوجائے گا اور ہمارے ملک پاکستان میں ابھی تک کسی بھی دور حکومت میں پانی کو سٹاک کرنے کے بارے میں کسی حکمران نے سوچا بھی نہیں اور یہاں کے دریاوں کے پانی کو سٹاک کرنے کی بجائے اس کو سمندر میں چھوڑ دیا گیا نصف صدی سے نئے ڈیم بنانے کی باتیں ہورہی ہیں مگر ملک میں کوئی ڈیم بنتا نظر نہیں آرہا ہے کالا باغ ڈیم بنانے کی باتیں چل رہی ہے مگر کسی بھی حکومت نے اس ڈیم کو بنانے کے لئے عملی طور پر کوئی کام نہیں کیا اس طرح کی حالت دیامر بھاشا ڈیم کی بھی ہے جو گزشتہ پندرہ سالوں سے سوائے متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کے مزید کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی اگر کام کی یہ رفتار رہی تو اس ڈیم کو مکمل ہونے میں نصف صدی لگ جائیگی گلگت بلتستان کے گلیشیرز جس تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ ملک کے دیگر صوبوں کو بھی پانی کی سخت کمی کا سامنا کرنا پڑے گااور اس کے لئے ابھی سے ہی حکمت عملی طے کرنی ہوگی اور نہ صرف ڈیم بنانے ہونگے بلکہ پانی کو سٹاک کرنے کے حوالے سے بھی وقت کے حکمرانوں کو سوچنا ہوگا.
گلگت بلتستان میں2010کے تباہ کن سیلاب سے جہاں خطے کی سڑکیں تباہ وبرباد ہوئی تو وہاں صوبے میں موجو د کئی جھیل بھی ٹوٹ گئے جس سے سیلاب آیا اور کئی ایکٹرزمینوں میں کاشت شدہ اراضی کو تباہ کیا اور اس سال خطے کے گلیشیرز ٹوٹ جانے سے جہاں بدصوات گاؤں تباہ ہواہے وہاں اب تک نصف درجن آبادی کا زمینی رابط دیگر علاقوں سے کٹا ہوا ہے گلگت بلتستان میں 2010کے بعد سے گلیشیرزتیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں اور اس وقت خطے میں موجود ان گلیشیرز کو اگر کوئی چیز نقصان پہنچاتی ہے تو وہ بلیک کاربن ہے گلگت بلتستان کے زیادہ تر عوام ایندھن کے طور پر لکڑیاں استعمال کرتے ہیں جس سے علاقے میں موجود گلیشیرز کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے دوسری طرف ہمارا ہمسایہ ملک بھارت سندھ طاس معاہدہ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان آنے والے پانی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا اور ڈیم بنانے کا کام میں تیزی لانے کی بھی اطلاعات ہیں ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہئے اگر بھارت سے آنے والے پانی کی کمی ہوئی تو اس سے ہمارے ملک کو معاشی طور پر سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اس حوالے سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا کو بھی سیاست سے ہٹ کر اس اہم موضوع پر ماہرین کی راہ لینے ہوگی اور باقاعدہ ٹاک شو رکھنے ہونگے تاکہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی خلاف ورزی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے مگر افسوس کے ساتھ کہنے پڑرہا ہے کہ شام کو ہمارے تمام چینلز پر اس طرح کے اہم موضوع کی بجائے پی ٹی آئی ،مسلم لیگ ،اور پیپلز پارٹی کے تین بندوں کو بیٹھا یا جاتا ہے جو صرف اپنی اپنی پارٹیوں کی دفاع میں باتیں کرتے ہوئے ٹائم پورا کرتے ہیں حالانکہ ملک میں بجلی کا بحران اور آنے والے سالوں میں پانی کا جو سب سے اہم بحران سامنے آنے والا اس بارے میں تاحا ل کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا اگر گلگت بلتستان میں گلیشیرز اس طرح پگھل گئے تو آنے والے چند سالوں میں ہمیں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا.
بتایا جارہا ہے کہ دنیا میں کوئی بڑی جنگ ہوئی تو وہ کسی اور چیز پر نہیں پانی پر ہوگی ہم اس وقت ملک کے مختلف دریاوں سے بہنے والا کروڑوں گیلن پانی کو ضائع کر رہے ہیں اس پانی کو سٹور کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ پانی دریامیں جاگرتا ہے اب چونکہ ملک میں تبدیلی آئی ہے اور عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے عوام کی بڑی توقعات عمران خان سے وابسط ہیں اور انھوں نے خود کے پی کے میں اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو تبدیلی لائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ملک کے چاروں صوبوں کے عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا ہے تو پورے ملک میں اربوں کے حساب سے پودے لگانے ہونگے اور نہ صرف پودے لگانے ہونگے بلکہ ان کی حفاظت کرنا ہر شہری کی زمہ داری ہوگی سرکاری سطح پر سالانہ کروڑوں پودے لگائے جاتے ہیں مگر ان کی مناسب دیکھ بال نہ ہونے سے یہ پودے جانوروں کے خوراک بن جاتے ہیں اس حوالے سے گلگت بلتستان سب سے پیچھے ہے اور 28ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا علاقے میں دو فی صد پودے بھی نہیں جو کہ موسمیاتی بدلتی صورت حال کے پیش نظر ہمیں ایک وارننگ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی کے پی کے کی طرح کروڑوں پودے لگانے ہونگے اس سے ایک طرف ہمارے گلیشیرز بچ جائینگے تو دوسری طرف علاقے کے گنجے پہاڑ بھی سر سبز ہونگے اور اہم بات علاقے میں گلیشیرز کو نقصان جہاں بلیک کاربن پہنچا رہا ہے تو پھر علاقے کے عوام کو گیس فراہم کرنی ہوگی تاکہ یہاں موجود گلیشیرز کو بچایا جاسکے