پاک فوج تجھے سلام
تحریر :محمد شریف رحیم آبادی
معرکہ کاگل جاری تھا ۔ممتاز کالم نویس خوشنود علی خان کا کالم جو کہ پاکستان کے ایک مشور روزنامہ میں شائع ہوا تھا اس کے ہر لفظ اور ہر سطر کو پڑھتے ہوئے افسوس ہورہا تھا ۔صحافتی دنیا کا اتنا بڑا نام مگر گلگت بلتستان کی تاریخ اور زمینی حقائق کے برعکس ان کے خیالات تضادات کا مجموعہ اس قسم کی صورت حال میں کچھ لوگ آنسو بہاتے ہیں ،کچھ آنسو پی جاتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو احتجاج کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔میری سرشت میں بھی تیسرا آپشن بذریعہ اتم موجود ہے ۔اتفاق کہیے کہ کالم کے آخر میں تجزیہ نگار نے اپنا فون نمبر درج کیا تھا دل کی بڑاس نکالنے کا بہترین موقع سیل فون مارکیٹ میں آیا نہیں تھا لینڈ لائن کا زمانہ ،راقم پی سی او کی جانب رواں ہوا ۔پبلک کال آفس پہنچا جو کہ وحدت کالونی اور ذولفقار کالونی کی اکثریت کا اپنے اہل و عیال سے بات کرنے کا ذریعہ جسے یاسین سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ صوبیدار چلارہے تھے ۔ موصوف نے نمبر ڈائل کیا ،فون کوئی نہیں اٹھارہا تھا مگر ہم بھی ہار مانے والے نہیں تھے ۔باربار ڈائل کرتے رہے ۔ہماری محنت رائگا نہیں گئی جوں ہی خشنود علی خان نے فون ریسیوکیا صوبیدار صاحب نے کریڈل ہاتھ میں تھاما دیا غصہ بہت تھا مگر دوسری طرف نامور شخصیت تلخی کا امکان بھی تھا تاہم اپنے جذبات پر قابورکھتے ہوئے زمینی حقائق ان تک پہنچائی ۔ کچھ دنوں بعد مذکورہ پی سی او کے مالک سے راہ چلتے ملاقات ہوئی بڑی گرم جوشی سے ملے اور کہا کہ راولپنڈی سے لالک جان کی فیملی کو مدعو کیا گیا ہے اور خوشخبری سنائی ہے کہ حولدار لالک جان نشان حیدر کے حق دارٹھریں ہیں تب تک میڈیا میں یہ خبر بریک نہیں ہوا تھا ۔کسرتی جسم کے حامل اس نوجوان سے مہینہ پہلے میری ملاقات ہوئی تھی ۔بے ساختہ میرے منہ سے نکلا آفرین لالک جان ۔صوبیدار صاحب کے وہ الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں کہ ناقدین کے حوش و حواس ٹھکانے آئے ہونگے ۔یہ واقعات اس وقت کے ہیں جب گلگت بلتستان کی فضاء شہدا کی خوشبوسے معطر تھا ۔گلگت سکاوٹ کے نوجوان دشمن کے فوجیوں سے نبرد آزماء تھے ۔ہندوستانی فوج نقصان اٹھارہا تھا ۔بھارتی میڈیا اپنی افواج کی بے بسی پر تلملارہا تھا ۔اپنے مظلومیت کا ناٹک وہ کررہے تھے ۔انڈیان آرمی کارپٹ بمنگ کے ذریعے ہمارے جوانوں کے حوصلہ کو شکست سے دوچار کرنا چاہتی تھی ۔مگر قوت ایمانی سے سرشار یہ نوجوان چھ ستمبر 1965ء کی تاریخ دہرارہے تھے ۔لالک جان نشان حیدر ،شیر خان اور کیپٹن نویدمیرباز جیسے عظیم مجاہد سرحدوں کے محافظ ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی ۔ان کے کارناموں کونئی نسل میں منتقل کرنا ہمارے ذمہ دارویوں کا حصہ ہے ۔
چنانچہ عساکر پاکستان کی غازیوں اور شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تحریک انصاف گلگت بلتستان نے 6ستمبر سے متعلق پروگرامز ترتیب دیئے ۔فتح اللہ خان جنرل سیکریٹری پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان ،دلشاد بانو جنرل سیکریٹر تحریک انصاف خواتین ونگ ،نائب صدور گلگت بلتستان غلام محمد اور ابراہیم دولت شو نے میجر منہاس عالم شہید کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔بعد ازاں خواتین ونگ کی جنرل سیکریٹری اور ان کی ٹیم مختلف شہدا کے مقبروں پر جاکر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔اس سلسلہ کی ایک کڑی ڈسٹرکٹ گلگت کے صدر شیر غازی نے یوم دفاع کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام سلطان آباد حلقہ 3میں کیا تھا ۔جس میں گلگت کے علاوہ دیگر اضلاع سے آئے ہوئے پارٹی رہنماوں اور کارکنوں نے شرکت کی ۔کریم حیات جو پاکستان تحریک انصاف کے درینہ کارکن ہیں مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔دیگر مقررین میں محبوب ابامہ ،امتیاز گلگتی ،ریٹائرڈ ڈائریکٹر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان شامل ہوئے تھے ۔اس پروگرام میں پاک فوج کے کارناموں پر رشنی ڈالتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ۔اس تقریب میں 1965ء کی جنگ میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرنے والے صوبیدار علی مدد ستار جراعت کے فرزند کو پھولوں کا ہار پہنایا گیا اور وہ تحریک انصاف میں شامل بھی ہوئے ۔ان کے علاوہ سلطان آباد گاوں کی ایک بڑی تعداد کا پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا وزیرتعمیرات ڈاکٹر اقبال کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔وہ اس لئے کہ اس گاؤں کے 90فیصد ووٹر ان کے حامی تھے ۔ان میں نسیم خان جیسے قدآور شخصیات بھی شامل ہیں بڑی تعداد میں پارٹی میں شمولیت ڈاکٹر کیلئے سوالیہ نشان ہیں ۔کیا وزیر موصوف اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے ازسر نو غور کرنے کی جسارت کرینگے ،اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی کیوں کہ اس ملک کے ہر فرد کو شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے محنت اور ایمانداری کا عملی مظاہرہ کرنا ہے ۔اس تقریب میں آئی ایس ایف کے صدر رحمان دریلو اور آئی ایس ایف کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ۔