وادی باشہ قدرت کاحَسین تحفہ ،لیکن!!!
ممتازعباس شگری
کیساعجیب اتفاق ہوا،کہ مجھے پچھلے دنوں ایک بارپھراسکردوشہرسے100کلومیٹرکی دوری پرپہاڑوں کے دامن میں ہستی بستی حسین وای باشہ کی زیارت نصیب ہوئی،جب آپ ضلع شگرمیں داخل ہوکریونین کونسل تسرکی سرحدکوچیرتے ہوئے دریااورپہاڑوں کے دسط سے گزرتے ہوئے چھوترون کی سرزمین پرقدم رکھیں گے توسمجھوآپ وادی باشہ میں داخل ہوگیا،چھوترون میں پہنچتے ہی گرم پانی کاچشمہ آپ کااستقبال کریں گے،آپ جس موسم میں بھی جائیں لوگ اس گرم چشمے میں نہاتے ہوئے پائیں گے،گرمی کے موسم میں بھی اس گرم پانی میں نہانالوگوں کی عادت بن گئی ہے یااللہ کی رحمت سے لطف اندوزہوناچاہتے ہیں ،وہ تولوگوں سے ہی جان سکتے ہیں،مقامی لوگوں کے مطابق یہ گرم چشمہ کمردر،موٹاپاسمیت کئی بیماریوں کے لیے نہایت کی مفیدثابت ہوتی ہے،شایدیہی وجہ ہے بلتستان بھرسے لوگ محض اسی میں ڈبکی لگانے کی خاطردوردورسے تشریف لاتے ہیں،صرف یہی نہیں اگر چھوترون سے نکل کردوکوکی طرف کچی سڑک اورڈھلوان راستوں سے ہوتاہواجب آپ کی گاڑی سیسکومیں پہنچیں گے توسمجھوآپ نے باشہ ویلی کے دل میں قدم رکھاہے،اگروہاں سے ہری بھری کھیتوں ،سرسبزباغات،اورہریالے گھاس کے میدان کوپارکرکے کھٹن راستوں کوبرداشت کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے توایک لکڑی سے بنی ہوئی پل آپ کے راستے میں سلامی دیتے ہوئے نظرآئیں گے،بس آپ بیسل گاوں میں پہنچ گئے ہیں،وہاں پربلتستان کاگرم ترین پانی کاچشمہ آپ کاخیرمقدم کریں گے،وہاں کاپانی چھوترون کی پانی سے زیادہ گرم ہے،اگرآپ کونہاناہے تونہایت اختیاط کی ضرورت ہے، پندرہ منٹ سے زیادہ پانی میں قیام کرناآپ کیلئے خطرہ ہوسکتاہے،کیونکہ مقامی لوگوں کے مطابق اگراس پانی میں کچاانڈارکھ دیاجائے توپچیس منٹ بعدپک کرتیارہوجائیں گے،اس سے آپ خوداندازہ لگاسکتے ہیں کہ پانی کتناگرم ہوگا،اگرآپ باہرکھیتوں کیطرف نکلیں گے تومن میں ڈوپ جانے کودل کرتاہے،سرسبزوشاداب کھیتیں،ہری ہری گھاس کے میدان ،پھلوں سے لدے ہوئے درختیں دیکھ کرآپ کواسی جگہ اپنی مسکن بنانے کادل کرتاہے،لیکن ہاں اگروہاں پرآپ بیمارپڑھ جائیں تودوائی کیلئے تگ ودوکرنے پڑیں گے،وہاں پرکوئی اہسپتال نہیں ملیں گے کیونکہ عوامی نمائندوں کونہ وہاں اہسپتال بنانے کی توفیق ہوئی ہے ناں بچوں کیلئے تعلیمی درس گاہیں بنوانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور ناں لوگوں کیلئے پکے روڈ بنوانے کی زحمت کی ہے۔
اب آپ اس کامکمل احوال ملاخظہ فرمائیں،یہ چودہ اگست کادن تھا سورج کی سرخ کرنیں پہاڑکی چوٹی سے ٹکرارہے تھے ،چڑیاں اپنے گھونسلوں سے دانے کی تلاش میں نکل چکے ہیں ان کی آوازسے پوری فضاگونج رہی تھی،پچھلے مصروف دن کی تھکاوت کے باوجودمیں نے وادی کی طرف رخ کرنے کی تھان لی،سلطان محمداپنی ڈیوٹی نبھانے کی خاطروادی کی طرف جارہے ہیں،ان کے ساتھ اول الصبح رخت سفرباندھ کرنکل پڑا،کچی سڑکوں اورڈھلوان راستوں کیوجہ سے تھکن سے چورچورہوکرباشہ کے دل (سیسکو)میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوا،میں وادی کی سیرکرنے پربضدتھا،وہ اپنی ڈیوٹی پرجانے کیلئے تیارتھا،خیرآخرجیت اس کی ہوئی اورہم مڈل اسکول سیسکوکیجانب نکل پڑا،راستے میں سوچنے لگاشایدیہاں پردوسرے علاقوں کی طرح عالی شان عمارت بنی ہوئی ہوگی جس میں طلبہ تعلیم کے نورسے ہمکنارہورہے ہوں گے،شایدان دوردرازعلاقوں میں بھی گورنمنٹ کوتعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہوگی،جب دوست نے گیٹ کھولاتومیں بے ساختہ بول اُٹھا بھئی تم نے مجھے یہ کس جگہ لے آئے ہویہ تومسجدہے،ہمیں اسکول میں جاناتھا ناں،میں رکا،وہ بولے یہاں کوئی اسکول نہیں ہے طلبہ اسی مسجدمیں بیٹھ کرتعلیم حاصل کرنے پرمجبورہے،ان کوکوئی بھی تعلیمی سہولیات موجودنہیں ہے،دس کلاسیں ایک ساتھ اسی مسجدمیں تعلیم حاصل کررہے ہیں،یہاں کے لوگوں کی بھی کرم ہے کہ انہوں نے تعلیم دوستی کاثبوت دیتے ہوئے جامع مسجدکواسکول بنادیاہے،جہاں پرجمعے کونماز ہوتی ہے باقی دنوں میں طلبہ کی پڑھائی،ایک اسکول ضرورتھا لیکن کچھ عرصہ پہلے ہوائی طوفان کی وجہ سے اس کاچھت اُڑگیا،کسی کوبھی مرمت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی،وہ رکا،میں نے پوچھاشایدیہاں سارے اسکول اسی طرح کے ہوں گے،اس نے جواب دیا اتنی بھی کیاجلدی ہے،یہ تویہاں کابہترین اسکول ہے، آپ اس سے بھی عجیب قسم کے اسکول دیکھ لیں گے،ابھی ہم یوم آزای کی پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔
اسمبلی سے فارغ ہوتے ہی پورامسجدپاکستانی ملی نغموں سے گونجنے لگا،بچہ بچہ ہاتھ میں پاکستانی سبزہلالی پرچم تھامے پاکستان زندہ بادکے نعرے لگارہے تھے،دل ہی دل میں سوچنے لگایااللہ یہ کیسے محب وطن لوگ ہے، گلگت بلتستان کواب تک پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے کی سزادی جارہی ہے،انہیں آئینی حقوق سے محروم رکھاگیاہے،اوریہاں کابچہ بچہ پاکستان زندہ بادکانعرہ لگاتے ہوئے وطن عزیزپرکٹ مرنے کوتیارہے،جشن آزادی کاپروگرام شروع ہوا،ہرآنے والامقریراپنی تمام ترمسائل کوایک طرف رکھ کرآزادی پاکستان اورتحریک پاکستان پرروشنی ڈالتے چلے گئے،طالبعلوں کے گروہ آتے پاکستانی ملی نغمے گاتے ہوئے رخصت ہوئے،میری نظرمسجدکے کونے میں لٹکتے ہوئے کتابوں پرپڑی ،طالبعلوں سے جاننے کی سعی کی توبولایہ ہماری لائبریری ہے،میں حیران رہ گیا،شایدوہ دنیاکی پہلی لائبریری ہوگی جس میں کتابیں الماری میں رکھنے کے بجائے لٹکے ہوئے تھے۔وہاں سے ہم سیدھامڈل اسکول دوکوسبڑی میں پہنچاتووہاں بھی کھلے میدان میں یوم آزادی کی تقریب ہورہی تھی ہرننھے کلی کے ننھے ہاتھ میں پاکستانی پرچم تھا،آگ برستی سورج کی گرمی سے بچنے کیلئے طلبہ اپنے سرپرکتابیں رکھ کرتقریب میں شریک تھے،تعلیمی انقلاب برپاکرنے کادعواکرنے والوں کووہاں بھی ایک ہال تعمیرکرانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی،ہماری اگلی منزل ذل اورذل گونڈ کی اسکولزتھی،ذل میں طلبہ نے مسائل بیان کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یہاں نہ کلاس رومزپورے ہے ناں کہ ٹیچرز،نہ ہمیں کرسیاں میسرہے ناں کہ واش رومزکی سہولت ہے،ذل گونڈمیں پہنچ کرمیں دنگ رہ گیا،ایک بندہ خدایسابھی تھا جس نے خودمنت سماجت کرکے اقراء فنڈسے دوٹیچرزعلاقے کے بچوں کوپڑھانے کی خاطرلایاہواتھا،اوراپنی گھرکے دوکمرے اسکول بنائے ہوئے تھے گھرکے،پچھواڑے میں موجودگھاس کے میدان کوقوم کی خاطروقف کی ہوئی تھی،طلبہ وہاں دھوپ میں بیٹھ کرپڑھ رہے تھے،منزل درمنزل طے کرتے ہوئے ہم بیسل،عمبوژوق،بین ،دوغورو،ڈیمل،ہمیسل اورچھوترون کے اسکولوں میں بھی پہنچ گیا،وہاں کی صورتحال بھی مذکورہ اسکولوں کے مترادف تھا،سیسکومیں ایک علاقہ ایسابھی پایاجہاں پرنہ روڈتھا نہ پائپ لائین ،لوگوں سے جانے کی کوشش کی توکوئی بزرگ فردآکرکہنے لگاہم اس ترقی یافتہ دورمیں بھی روڈکی سہولت سے محروم ہے،جسکی وجہ سے ہمیں مشکلات کاسامناہے،گدیلے پانی کی استعمال سے علاقے میں موزی امراض پھیلنے کاخدشہ ہے ،عوامی نمائندوں کوبارہاکہنے کے باوجودکوئی شنوائی نہیں ہوئی،نمائندے صرف ووٹ کی خاطرعلاقے کارخ کرتے ہیں،انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکارنہیں۔
ہمارے حکمرانوں کاالمیہ ہے اول وہ کوئی عمارت بنانے سے ہی گریزکرتے ہیں اوراگرغلطی سے کوئی عمارت بنوابھی دیں تووہاں پرسہولیات ناپیدہوتے ہیں،آپ پورے علاقے میں صحت کے مراکزکاڈیٹانکال کرچیک کریں کسی میں بھی آج تک ضرورت کی حدتک بھی دوائی نہیں آئی ہوگی،یہ ہماری صحت کے مراکزکی حالت ہے،آپ انتہادیکھیں،سیسکومیں سول ڈسپنری کی عمارت توبنی ہوئی تھی مگراندرادویات موجودتھی نہ ڈاکٹرصاحب تشریف فرماتھے،جبکہ حاضری رجسٹرمیں اُن کی پوری خاضری لگی ہوئی تھی،پورے علاقے میں گائنی سنٹرکانام ونشان تک نہیں،حاملہ خواتین کوبی ایچ یوتسرمیں لایاجاتاہے یاگھنٹوں کاسفرڈھلوان اورکچے سڑکوں پرسے کرتا ہواسکردولے جایاجاتاہے،علاقے میں گائنی سنٹرکی ضرورت توہے مگرشایدعوام چیف سیکریڑی صاحب کے سوال کے ڈرسے مطالبہ کرنے سے ہی گریزکررہے ہیں،ان کولگ رہاہے کہ کہیں چیف سیکریڑی صاحب انہیں بھی یہ سوال نہ پوچھیں کہ آپ لوگ کتناٹیکس دیتے ہیں،اسی لیے وہ خاموش ہے۔
حکومت ایک طرف سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں اوردوسری طرف سیاحتی اعتبارسے مالامال علاقے ہمیشہ نظراندازکرتے ہیں ،علاقہ باشہ بھی ساحتی اعتبارسے مالامال ہے،حکومت وقت اورعوامی نمائندوں کوچاہیے آپ صرف موسمی پرندہ بن کرعوام سے ووٹ کے استدعاکرنے کی بجائے ان کے مسائل کی حل پرتوجہ دیں،ان کے بچوں کیلئے درس گاہیں بنائیں،ان کوروڈ کی سہولیات فراہم کریں،علاقے میں صحت کے مراکزبنائیں،یقین کریں آپ جس دن لوگوں کے مسائل حل کریں گے اس دن سے آپ کوووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑیں گے نہ ہی کنوینسنگ کیلئے بندے بھیجنے کی ضرورت پڑیں گے،اگرآپ ان کے مسائل پرتوجہ دیں گے توعوام خوداپنی ووٹ آپ کے جھولی میں ڈالیں گے ،آپ کی جھولی بھرنے کیلئے عوامی مسائل حل کرتے ہوئے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔اوراگراب بھی آپ نے علاقے کی ترقی کیلئے کام کرنانامناسب سمجھاتومجھے لگتاہے لوگ اب آپ کے نام کے آگے ٹھپہ لگانے کی بجائے ,ان میں سے کوئی نہیں،والے خانے میں ٹھپہ لگانے کوغنیمت سمجھیں گے،اوریہ ان کاصحیح فیصلہ بھی ہے اورانکاحق بھی۔