عدالت عظمیٰ میں غیرمقامی ملازمین کی تعیناتی کے ذمہ دارکون؟
صفدرعلی صفدر
گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے دیرآید درست آید کے مصداق خطے کی عدالت عظمیٰ میں مختلف ادوار میں ہونے والی خلاف ضابطہ تقرریوں کے خلاف بالآخر آواز تو اٹھا لیا۔ مگر وہ آواز ایک ایسے وقت میں اٹھائی گئی جب بلی نو سو چوہے کھاکے حج کو چلی گئی تھی۔ گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009کے تحت علاقے کے لوگوں کو سستاانصاف کی فراہمی کی غرض سے سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کا قیام عمل میں لانا بظاہر ناانصافی اورمحرومیوں کے شکار عوام کے لئے ایک نئی امید کی کرن تھی مگرابتدا سے ہی ادارے میں سیاسی بنیادوں پر ججوں کی تعیناتی سے یہ ادارہ عدالت کی بجائے ایک سیاسی اکھاڑہ کی شکل اختیار کرتاگیا۔ پھر جب ایک ادارے کا سربراہ ہی سیاسی وابستگی کی بنیادپرتقررکیا جائے تونیچلے درجے کی اسامیوں پر پسندوناپسندیدگی کی بنیادپر تقرریاں تولازمی بات تھی۔ لیکن اس تمام تر صورتحال پربروقت آواز اٹھانا بھی تو لازمی تھا۔ مگرسوال یہ کہ وہ آواز اٹھائے بھی تو کون اٹھاسکتا تھا، کیونکہ میڈیا پر توہین عدالت کا خوف طاری تھا، وکلاء کو لائسنس کی منسوخی کا اندیشہ، ملازمین کو نوکریوں سے برطرفی کا ڈر،عوام کو حقائق سے لاعلمی، حکمران خاموش تماشائی بنے رہے۔ ایسے میں بہتی گنگا میں سبھی ہاتھ نہ دھوتے تو اور کیا کرتے۔
وہ بھی کسی غیرمقامی شخص کوبلا مشقت جب ایک علاقے کے سیاہ وسفید کا مالک بنادیا جائے توانہوں نے وہی کچھ کرنا ہوگا جو اس کا من چاہے گاکیونکہ ان کی تقرری کا اختیار بھی ایک غیرمقامی کو حاصل ہے جوکہ سادہ الفاظ میں وزیراعظم پاکستان کہلاتے ہیں۔ وہ شاید گلگت بلتستان کی اس قومی المیے سے بھی بخوبی اگاہ ہوگا کہ ان لوگوں کو جیتنا بھی نقصان پہنچادے یہ وقتی طورپر لب کھولنے کی جرات نہیں کرتے۔ پھر جب سب کچھ کرکے بوری بسترسمیٹ کررخصت ہونے پر پیچھے سے چیخیں مارنا شروع کردینگے کہ فلاں صاحب نے علاقے کے ساتھ فلاح ظلم کیا۔
وہ اس لحاظ سے کہ ماضی میں عدالتی سربراہان کے علاوہ دیگراداروں میں تعینات غیرمقامی بیوروکریٹس نہ صرف سرکاری اداروں میں ملازمین کی تقرریوں میں اپنی من مانی کرتے رہے بلکہ متعدد افسران کرپشن کے ذریعے علاقے سے منہ مانگی رقوم سمیٹ کررخصت ہوئے لیکن کسی میں بھی ان کے خلاف چوں کرنے کی جرات نہ ہوئی بلکہ الٹا علاقے کے لئے شاندارخدمات کے اعتراف میں انہیں روایتی ٹوپی اور چوغا پہناکرالواع کہا گیا جس سے غیرمقامی افراد کی من مانی کی اس روایت کو مذید پروان چڑھ گیا۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الزامات بالکل بجاہیں کہ گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ کی مختصرتاریخ میں چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہونے والے چار غیرمقامی ججوں میں سے کوئی بھی علاقے اور عوام کے وسیع ترمفاد کی خاطرکوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دے پایا جسے اس کی مدت ملازمت کے اختتام پر سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جاسکے۔البتہ ان چاروں ججوں میں سے جسٹس نواز عباسی ضاصے متحرک نظرآئے جوکہ اکثروبیشترعوامی اہمت کے حامل منصوبوں پر کام کی رفتارمیں سست روی سمیت دیگرمعاشرتی ناانصافیوں پرازخود نوٹس لیا کرتے تھے۔ مگرریٹائرمنٹ پر علاقے کے حکمرانوں نے حسب روایت انہیں بھی علاقائی سوغات پیش کئے اور ائیرپورٹ سے رخصت ہونے کے بعدپیچھے سے شورہوا کہ عباسی صاحب نے عدالت عظمیٰ میں تھوک حساب سے خلاف ضابطہ بھرتیاں کیں۔ لہذا مشترکہ مطالبہ ہوا کہ اب کی بارعدالت عظمیٰ میں کوئی غیرمقامی جج کی تعیناتی نہیں ہوگی، اگر پھر بھی اس مطالبے پر کوئی شنوائی نہ ہوئی تو نئے تعینات ہونے والے غیرمقامی جج کو حلف اٹھانے سے روک دیا جائیگا۔
اس مطالبے کے کچھ عرصہ بعدوزیراعظم پاکستان کی جانب سے رانا ارشد نامی ایک اور غیرمقامی شخص کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا چیف جج مقررکیا گیا تو یک دم سب کی زبان بندی ہوگئی۔ تاہم کچھ لوگوں نے نئے جج کی حلف برداری کے روز جی بی ہاوس اسلام آباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی اطلاع ملتے ہی جج صاحب نے شروع دن سے یہ ٹھان لی کہ انہیں اپنی نوکری کے علاوہ ان لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔انہوں نے اس عہد کے تحت واقعی میں علاقے اور عوامی مفاد کا کوئی کام نہیں کیا اور چندمن پسند لوگوں کو ملازمتوں اور ترقیوں سے نوازکرمدت ملازمت کے اختتام پرروایتی ٹوپی اور چوغا پہن کررخصت ہوگئے۔
رانا ارشد کی رخصتی پر پھر سے شور مچ گیا کہ انہوں نے فلاح فلاں کام غیرقانونی طورپرسرانجام دیئے، اب کی بار ہرصورت مقامی جج ہی تعینات کیا جائے۔کچھ عرصہ بعدپھررانا شمیم کی صورت میں ایک اورغیرمقامی جج صاحب کی باری آگئی جو شروع کے دنوں میں بڑے متحرک اور اصول پسند دکھائی دیئے مگرآہستہ آہستہ انہیں بھی عوام کی نفسیات سمجھ آگئی۔چنانچہ وہ بھی وہی کچھ کرنے پر تلے رہے جوکہ ان کے پیش روکیا کرتے رہے تھے۔ بلکہ انہوں نے توادارہ جاتی قوائد وضوابط کو پاؤں تلے روندکرسب کچھ ادھر سے ادھرکرکے رکھ دیا۔ حتیٰ کہ جاتے جاتے خطے کے چیف ایگزیٹوکو بھی ایک مبینہ جعلی ڈگری کیس میں سزا دینے کے لئے کمرکس لی تھی مگران صاحب کی قسمت کہ اس روز بینچ نامکمل ہونے کے سبب وہ اپنے عہدے کے لئے نااہل ہونے سے بال بال بچ گئے۔
ہائیکورٹ بارکی جانب سے دیئے گئے اعدادوشمارکے مطابق ان چاروں غیرمقامی ججوں نے ماتحت عدالت میں گریڈ ایک سے لیکر بیس تک کی خالی اسامیوں پر مجموعی طورپر37کے لگ بھگ غیرمقامی ملازمین بھرتی کئے جن میں سے زیادہ تران کے اپنے یا ان کے سیاسی آقاوں کے عزیزواقارب بتاتے جاتے ہیں۔مگرسوال یہ ہے کہ کیایہ ملازمین راتوں رات بھرتی کئے گئے؟ کیا وہ اپنے عہدوں کے لئے مروجہ قوائدوضوابط پر پورااتر رہے تھے۔ کیاان سے کوئی ٹسٹ انٹرویو بھی لیا گیا۔ اگر نہیں یا فارملٹی کے طورپر سب کچھ ہوا بھی تو یہ سارا پراسس ہونے تک حکومتی ذمہ داران اور خود گورنرصاحب کیونکر خواب خرگوش سوئے رہے؟
کیا سپریم اپیلٹ کورٹ کے ملازمین کے سروس رولز میں اس کام کی گنجائش موجود ہے؟کیا ملک کے دیگر صوبائی عدالتوں یا وفاق میں اس طرح کی اقربا پروری کی کوئی مثال مل سکتی ہے؟کہا تھے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے وہ معزز ممبران جودیگر سرکاری اداروں میں ایک چوکیدارکی تقرری یا کسی افسرکی ٹرانسفری پر آسمان سرپر اٹھائے نظرآرہے ہوتے ہیں، انہیں یہ جرات کیوں نہ ہوئی کہ اس ساری صورتحال کا نوٹس لیکرذمہ داری حکام تک اپنی مدعا پہنچادے۔ کیا کسی نے ان غیرقانونی تقرریوں کے مرتکب افراد کے خلاف کسی سرکاری تحقیقاتی ادارے کو شکایت درج کرادی؟
اگر سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہر طرف سے خاموشی چھائی رہی تواس کے ذمہ دار غیرمقامی جج یا ماتحت ملازم نہیں بلکہ بحیثیت قوم ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہم مشترکہ مفادات کی بجائے انفرادی سوچ میں بٹے ہوئے قوم ہے ، ہمیں قومی مفاد کی بجائے علاقائی، لسانی اور مذہبی وابستگی زیادہ عزیز ہے۔ ہمیں اپنے علاقے کی غربت کی انتہاکا اندازہ ہے نہ بیروزگاری کے عذاب کا، میرٹ اور اہلیت کا احساس ہے نہ محرومیوں اور ناانصافی کا ادراک، حق وناحق کی تمیزہے نہ سزاوجزا کا تصور۔ہماری یہی کمزوری غیروں کو ایک بہترین موقع فراہم کردیتی کہ وہ ایک بے تاج بادشاہ کی مانند علاقے پر غیراعلانیہ حکمرانی چلائے۔ ورنہ اگر حقیقی معنوں میں ایک قوم بن سب اجتماع مفاد کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں توگھنسارہ سنگھ جیسے قابض حکمران کو راتوں رات گرفتار کرکے علاقہ بدرکرنے والی قوم کے لئے عدالت عظمیٰ کے ایک جج کو سبق سیکھانا کوئی مشکل کام تو نہیں۔