گلگت کے جنوب مغرب میں نپورہ نام کا ایک گاؤں ہے۔ اِس گاؤں کے ساتھ ہی وادی کارگاہ کے پہاڑی سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ اِنہی میں سے ایک پہاڑی پہ ایک عورت کا مجسمہ بنا ہوا ہے۔ یہ مجسمہ زمین سے تقریباً تیس فٹ بلند ہے۔ بلاشبہ یہ مجسمہ قدیم زمانے میں بنایا گیا ہے۔ اِس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کبھی اِس علاقے میں بدھ مت کے ماننے والے رہتے ہوں گے۔ اِس مجسمے کو مقامی زبان میں یچھنی کہتے ہیں۔ یہ محض ایک مجسمہ ہی نہیں۔ اپنے دامن میں بہت سی روایات اور واقعات چھپائے آج بھی بڑی شان سے ایستادہ ہے۔ باہر سے آنے والوں کے لیے گلگت میں یچھنی سے بڑھ کر دِل چسپی اور حیرت کی کوئی دوسری چیز نہیں۔ یچھنی کے نیچے کافی گہرائی میں ایک نالہ بہتا ہے۔ گرمی کے موسم میں اِس نالے میں بہت پانی ہوتا ہے۔ اوپر پہاڑوں کی گود سے بہنے والے اِس پانی کا رنگ نیلگوں ہے۔ جب تیزی سے پتھروں سے ٹکراتا ہوا یہ پانی نشیبی علاقے کی طرف بہتا ہے تو اِس کے چھینٹے دُور دُور تک اُڑ کر جاتے ہیں اورپانی اِس زور سے پتھروں سے ٹکراتا ہے کہ اِس کا نیلگوں رنگ تبدیل ہوجاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے فرہاد نے کوہِ بے ستون کھود کر دودھ کی نہر نکالی ہو۔ سیاحوں کے لیے اِس جگہ بڑ ی کشش ہے۔ بہادر قسم کے سیاح تو مہم جوئی کے شوق میں نالہ پار کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر سیاح دوسری طرف سے ہی یچھنی کا نظارہ کرتے ہیں۔ تصاویر کھینچتے ہیں اور ایک یادگار سمجھ کر مدتوں اِس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ کوریا، جاپان، ہانگ کانگ اور چین وغیرہ کے سیاح تو باقاعدہ اپنے مخصوص انداز میں اِس کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ سردیوں میں جب نالے کا پانی خشک ہوتا ہے تو سیاح، یچھنی کے قریب جاتے ہیں۔اس کے نیچے گھاس کا ایک ہموار قطعہ ہے۔وہاں بیٹھ کر تصویر کشی کرتے ہیں۔
اِس مجسمے سے متعلق گلگت میں ایک لوک کہانی مشہور ہے۔
کہا جاتا ہے قدیم زمانے میں یچھنی زندہ تھی۔ اِس کا تعلق دیو وں کی نسل سے تھا۔ بعض روایات کے مطابق گلگت کے ایک ظالم، آدم خور راجہ شری بدت کی بہن تھی۔
یچھنی بھی بہت ہی ظالم اور آدم خور تھی۔ نپورہ کے اوپر ہَپوکر کی پہاڑی پر رہتی تھی۔ جہاں شری بدت کا بھی قلعہ تھا۔ گلگت کے لوگ جب نپورہ کے پہاڑوں پر شکار کے لیے یا لکڑیاں لانے کے لیے چلے جاتے تھے تو یچھنی انہیں پکڑ کر اپنے غار میں لے جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے اگر دو افراد جنگل کی طرف جاتے تو ایک کو یچھنی کھالیتی تھی اور دوسرے کو چھوڑ دیتی تھی۔ اِسی طرح چار میں سے دو کو اپنا شکار بنالیتی۔ اِس کے علاوہ اماؤس کی راتوں میں اُس کے اندر ایسی شکتی پیدا ہوتی کہ پہاڑی سے ہی اپنا ہاتھ بڑھا کر نیچے گلگت کے گھروں سے نوزائیدہ بچوں کو اُٹھالیتی۔ اُس یچھنی کی وجہ سے گلگت کے لوگ بہت پریشان تھے۔ اُن کا سکون ختم ہوا تھا۔ ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ یچھنی کو ختم کرنے یا اُس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی تھی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ گلگت سے کوسوں دُور شمال مشرق کی طرف ایک گاؤں بگروٹ کہلاتا
ہے۔ وہاں سے ایک لڑکا اور لڑکی گلگت اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے۔ اُن کی ابھی ابھی شادی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ شام کے وقت اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں سے نپورہ نالہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اُن کے رشتہ داروں نے خبردار کرتے
ہوئے بتایا کہ زیادہ بلندی کی طرف مت جائیں اور بہت دُور نیچے سے ہی واپس آجائیں۔ ورنہ یچھنی کی نظر پڑی تو اپنا شکار بنا لے گی۔ اُن دونوں نے یقین دہانی کرائی اور رشتہ داروں سے رخصت ہوکر نپورہ نالے میں آگئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ نیلگوں پانی تیزی سے پتھروں سے ٹکراتا ہوا، جھاگ پیدا کرتا ہوا نشیب کی طرف گر رہا تھا۔ پانی کے اُڑتے ہوئے چھینٹوں سے سورج کی کرنیں ٹکرانے سے یوں لگتا تھا جیسے پانی کی دیویاں موتی اُچھال رہی ہوں۔ اُنہوں نے پہلے ایسا دلکش منظر نہیں دیکھا تھا وہ بے خودی کے سے عالم میں نالے کے ساتھ چلتے رہے اور انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ وہ یچھنی کی حدود میں آگئے ہیں۔
یچھنی اپنے غار میں بیٹھی تھی۔ اچانک اسے انسانی بو محسوس ہوئی۔ وہ ایک دم اپنے غار سے باہر آئی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیچے دیکھنے لگی۔ اُس کی نظر نیچے کچھ فاصلے پر موجود دو انسانوں پر پڑی۔ وہ بہت خوش ہوئی اور ایک دم چھلانگ لگاکر اُڑتی ہوئی اُن کے سامنے گئی۔ بگروٹ کا وہ جوڑا وہاں کے دِل کش مناظر میں کھویا ہوا تھا جب اُنہوں نے اپنے سامنے اچانک ایک بھیانک مخلوق کو دیکھا تو خوف سے گھگی بندھ گئی۔ اُن کے ہوش و حواس جاتے رہے، بس وہ ساکت سے ہوکر رہ گئے۔ یچھنی مکروہ انداز میں ہنستی ہوئی بولی۔ ’’بڑے دنوں سے بھوکی تھی۔ آج تم ہاتھ آئے ہو، خوب مزے اُڑاؤں گی۔‘‘
اُن دونوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ نہ اپنی جگہ سے حرکت کر رہے تھے نہ ہی کچھ بول رہے تھے۔ یچھنی نے اپنے بڑے بڑے ہاتھ بڑھائے اور لڑکی کو پکڑا۔ لڑکی چیختی ہوئی خود کو اس سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ لیکن یچھنی کی گرفت سے نہ نکل سکی۔ یچھنی نے بڑے آرام سے لڑکی کو اُٹھایا اور مسرت بھری آوازیں نکالتے ہوئے اپنے غار کی طرف چلی گئی۔ اُس کے جاتے ہی لڑکے کو ہوش آیا۔ جب اپنی محبوب بیوی کو نہ پایا تب جیسے اُس کی روح فنا ہوگئی۔ چیختا
چلاتا نیچے آبادی کی طرف آیا۔ اُس کے رشتہ داروں کو بھی پتہ چلا۔ سب مل کر ماتم کرنے لگے۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔ یچھنی کا مقابلہ کرنا اُن کے بس میں نہیں تھا۔ اِس لیے رو دھو کر ایک دوسرے کو تسلی دلاسہ دے کر چُپ ہوگئے۔لیکن وہ نوجوان بیٹھا نہ رہ سکا۔ وہ فوراً بگروٹ روانہ ہوا۔ اُس زمانے میں بگروٹ میں ایک عامل رہتا تھا۔ اُس کا نام کھمیٹو تھا۔وہ ایک SHAMAN تھا۔شنا زبان میں اسے دئنل کہتے ہیں۔دئنل کھمیٹو بڑا عامل تھا۔اپنے عمل سے جنوں ،پریوں کو تابع بناتا تھا۔ نوجوان اُس سے ملا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ کھمیٹو کو نوجوان پر ترس آیا۔ وہ نوجوان کے ساتھ گلگت آنے پر راضی ہوا۔
گلگت کے لوگوں نے جب دئنل کھمیٹو کے بارے میں سنا تو اُمید سی بندھ گئی۔ اُنہوں نے کھمیٹو کا زبردست اِستقبال کیا۔ گلگت آکر کھمیٹو نے حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا اور اپنا عمل شروع کیا۔
اُس نے لوگوں سے کہا۔ ’’میں اپنے عمل کے ذریعے یچھنی کو ختم کروں گا۔ لیکن میری ایک نصیحت یاد رکھو۔ یچھنی کے خاتمے کے بعد میں جہاں بھی چلا جاؤں اور میرا وہاں انتقال ہوجائے تو میری قبر یچھنی کے پیروں کے نیچے بنائی جائے۔ ورنہ کچھ ہی عرصے بعد یچھی پھر سے زندہ ہوجائے گی۔‘‘
لوگوں نے یقین دلایا کہ اُس کی نصیحت پر عمل کیا جائے گا۔
کھمیٹو نے لوہے کی میخیں تیار کیں اور منتر پڑھتا ہوا ہپوکر کی پہاڑی کی طرف چل پڑا۔ اُس نے منتروں کے ذریعے اپنے گرد ایسا حصار قائم کیا کہ یچھنی کو اُس کی بو محسوس نہیں ہوئی۔ جس جگہ یچھنی کا غار تھا وہ ایسی دشوار جگہ تھی کہ کسی اِنسان کا وہاں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن کھمیٹو
اپنے منتروں کی شکتی سے، چٹانوں پہ لوہے کی میخیں ٹھونکتا ہوا اُس چٹان تک پہنچ گیا، جس کے
ساتھ یچھنی ایک غار میں رہتی تھی۔ کھمیٹو غار کے دھانے کے پاس گیا ۔تب یچھنی کو محسوس ہوا کہ وہاں اُس کے علاوہ بھی کوئی ہے۔ وہ ایک دم بھیانک آوازیں نکالتے ہوئے باہر آئی۔ پھر ایک اِنسان کو دیکھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی اور حیرت سے چیخ کر بولی۔ ’’اے اجل رسیدہ آدم زاد، لوگ مجھ سے ڈر کر گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور تم میرے غار تک آئے ہو؟‘‘
کھمیٹو مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’میں عام آدمیوں کی طرح نہیں ہوں۔ میرے اندر ایک خاص قسم کی طاقت ہے۔ میں بیٹھے بیٹھے دُور دُور کی خبر لاتا ہوں اور تجھے بھی ایک اہم خبر سنانے آیا ہوں۔‘‘
یچھنی اپنے بال کھول کر، منہ سے آگ نکالتی ہوئی بولی۔ ’’میرے لیے تو تم صرف ایک آدم زاد ہو۔ آ تجھ سے اپنی بھوک مٹادوں۔‘‘ یہ کہہ کر یچھنی اپنے بڑے بڑے ہاتھوں کو پھیلاکر آگے بڑھی۔ کھمیٹو ایک دم اُچھل کر دوسری چٹان پہ آیا اور فوراً چیخ کر کہا۔
’’میری بہن! بے شک تم مجھے کھاؤ۔ لیکن پہلے میری بات سن لو۔ میرے پاس تمہارے لیے ایک بہت بری خبر ہے۔ افسوس ہے تمہارا بھائی کشمیر میں مر گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر یچھنی صدمے سے چیخ پڑی اور اپنا دایاں ہاتھ بے اختیار سینے پہ رکھا۔ کھمیٹو نے فوراً منتر پڑھ کر میخ پہ پھونکا اور یچھنی کی طرف پھینک دیا۔ میخ تیزی گردش کرتی ہوئی یَچَھنی کے سینے پہ جہاں اس نے ہاتھ رکھا تھا، اُس میں اُتر گئی۔ یچھنی کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی۔ درد کی شدت سے وہ تڑپنے لگی۔پھر چند ہی لمحوں میں اُس کا سینہ اور ہاتھ پتھر کے بن گئے۔
یچھنی درد اور غصے سے چلاکر بولی۔ ’’اے آدم ذاد! یہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟میرے ہاتھ اور سینے کے ساتھ یہ کیا ہوا ہے؟‘‘
کھمیٹو نے کہا۔ ’’یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تمہارے لیے اِس سے بھی بری خبر ہے۔ سن میری بہن! تمہارا باپ بھی بلتستان میں مر گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر یچھنی نے ایک بار پھر افسوس اور دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے دوسرا ہاتھ اپنی ران پہ مارا۔ کھمیٹو نے فوراً منتر پڑھتے ہوئے وہاں بھی میخ ٹھونک دی۔ کیل گُھستے ہی ٹانگ اور دوسرا ہاتھ بھی پتھر کے ہوگئے۔ اب یچھنی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ وہ چلانے لگی اور کھمیٹو کی دغا بازی پہ واویلا کرتے ہوئے بولی۔ ’’اے جھوٹے آدم زاد! یہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا؟ اب میں اپنے لیے شکار کیسے کروں گی؟‘‘
کھمیٹو نے کہا۔ ’’اے ظالم یچھنی! آج سے پہلے تو انسانوں کو کھاتی تھی اور آج سے کنکر اور پتھر تیری خوراک بنیں گے۔‘‘
کہا جاتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک جب اوپر سے چھوٹے چھوٹے پتھر اور روڑے لڑھکتے ہوئے نیچے گرتے تھے تو لوگ کہتے تھے کہ یچھنی کے لیے خوراک آرہی ہے۔
جب یچھنی بالکل بے بس ہوئی تب کھمیٹو نے مزید منتروں کے ذریعے اُسے مکمل پتھر کا بنا دیا۔ پھر اُس کے غار میں داخل ہوا۔ وہاں بہت سی انسانی ہڈیاں پڑی تھیں۔ کھمیٹو نے بہت افسوس کیا کہ پہلے کیوں نہ اُسے اِس بلا کی خبر ہوئی، ورنہ بہت سے معصوم لوگ اُس کی خوراک بننے سے محفوظ رہتے۔
جب وہ نیچے آبادی میں آیااور یچھنی کے خاتمے کی خبر دی تو گلگت کے لوگوں نے اُسے سر آنکھوں پہ بٹھایا۔ کئی دنوں تک گلگت میں جشن منایا گیا۔ پھر ایک روز کھمیٹو گلگت والوں سے بہت سے تحفے اور مال و دولت لے کر بگروٹ روانہ ہوا۔ گلگت کے بہت سے لوگ قافلے کی شکل میں، اُسے کندھوں پر اُٹھا کر دریا کے اُس پار، دنیور کی وادی تک لے آئے۔ پھر اُسے رخصت کرکے واپس آئے۔
اُس وقت جب کھمیٹو کے ساتھ گئے لوگ دنیور سے گلگت واپس آرہے تھے گلگت میں کچھ لوگ جمع ہوکر ایک اہم فیصلہ کر رہے تھے۔ کھمیٹو نے کہا تھا یچھنی کے خاتمے کے بعد جب کبھی وہ مر جائے تو اسے یچھنی کے نیچے ہی دفن کر دیا جائے ۔ ورنہ یچھنی پھر سے زندہ ہوسکتی ہے۔ گلگت میں جمع ہونے والے اُن لوگوں نے بہت غورو فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ کھمیٹو اگر چلا جائے اور کسی نامعلوم جگہ مرجائے تب یچھنی کا عفریت دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ اِسی لیے یہی وقت ہے اُسے مار کر یچھنی کے پاس دفن کر دیا جائے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اِس بلا سے نجات مل جائے۔
یہ طے کرکے وہ کھمیٹو کے پیچھے گئے۔ گلگت کے دوسرے لوگ کھمیٹو کو چھوڑ کے واپس آئے تھے اور کھمیٹو اکیلا بگروٹ کی طرف رواں دواں تھا۔ ایسے میں ان لوگوں نے اُسے پکڑ لیا۔ کھمیٹو نے اُن کے ارادے کو بھانپ لیا اور حیرت سے پوچھا۔ ’’اے لوگو! کیوں میری جان کے در پے ہوئے ہو؟ میں نے تمہارے ساتھ اتنی بھلائی کی ہے۔ کیا اُس کا یہ صلہ ہے؟‘‘
گلگت والوں نے کہا۔ ’’ہم آپ کو دِل سے چاہتے ہیں۔ مگر آپ کو چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ آپ کہیں اور جاکر مر گئے تو یچھنی پھر زندہ ہوگی۔‘‘
کھمیٹو نے جب محسوس کیا گلگت کے لوگ اُسے زندہ چھوڑنے والے نہیں تو افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم لوگ بڑے خود غرض اور احسان فراموش ہو۔ میری وجہ سے تمہیں ایک بڑی بلا سے نجات مل گئی اور اب میری موت کا انتظار بھی نہیں کر رہے ہو۔ اے لوگو! جس طرح تم میرے معاملے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہو اِسی طرح قیامت تک تقسیم ہی رہوگے اور کبھی سکھ چین نہیں پاؤگے۔‘‘
نہ جانے یہ کھمیٹو کی بد دُعا کے اَثرات ہیں یا کیا ہے…………؟ کئی دہائیوں بعد بھی گلگت کے لوگ ٹکڑوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ اکثر بھڑکتی رہتی ہے۔کئی کئی دنوں تک ایک ہی علاقے کے لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے رہتے ہیں۔ ایک ہی علاقے میں، ایک ہی محلے میں، بازار،دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور دُورہوتے ہیں۔