غذر سے چین تک ۔۔۔ (۱)
تحریر :-دردانہ شیر
ہر سال کی طرح امسال بھی چائینہ یاترا کا پروگرام بنایا اس سال گو پس سے برادرم نیت ولی شاہ میرا ہمسفر بنا نیت ولی شاہ گوپس سے مختلف اخبارات کے لئے رپورٹنگ کر رہا ہے بدھ17اکتوبر کو گاہکوچ سے ہم چائینہ کی طرف روانہ ہوگئے اور سینگل سے عزیزم ندیم علی رفع جو پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں شمار ہوتے ہیں اور سوست میں چائینہ کا کاروبار کرتے ہیں سوست تک ہمارے سفر میں شامل ہوگئے راقم گزشتہ تین سالوں سے چائنہ جارہا ہوں اور گاہکوچ سے سوست تک اپنی گاڑی میں سفر کرتا ہوں تاکہ چائینہ سے واپسی پر گاڑی کا مسلہ درپیش نہ ہو چونکہ چائینہ سے واپسی پر ایک تو سوست کی سردی دوسری طرف اگر اس دوران گاڑی نہ ملے تو وہاں سے اشیاء ضرورت کا سامان کو ہوٹل پہنچانے میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تین دفعہ پہلے بھی چائینہ کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے اور دو دفعہ میں نے اپنے سفر نامے کے بارے میں قارئین کو باقاعدہ طور پر باخبر رکھا ہے چائینہ میں ایک سال بعد اگر انسان قدم رکھے تو اس ملک میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ قوم واقعی میں دنیا کی سب سے محنتی قوم ہے اور ترقی کی راہ پر نہ صرف گامزن ہے بلکہ اس وقت پوری دنیا میں ستر فی صد مصنوعات چائینہ کی فروخت ہوتی ہیں اور سی پیک کی وجہ سے چین مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ہم جب گلگت سے شاہراہ قراقرم میں داخل ہوگئے تو درجنوں کنٹنیر چائینہ سے گوادر جاتے دیکھا جن میں ٹنوں کے حساب سامان لدا ہوا تھا علی آباد میں کھانا کھانے کے بعد ہم سوست کی طرف روانہ ہوگئے موسم کافی ابر آلود تھا اور سردی کی شدت علی آباد میں ہی محسوس ہورہی تھی اور ہم کوئی شام چھ بجے کے قریب سوست پہنچ گئے عزیزم ندیم علی رفع نے شاید پہلے ہی اپنے ساتھیوں کو ہمارے بارے میں اطلاع دیا تھا جب ہم سوست میں ان کے مکان پہنچ گئے تو انھوں نے بخاری کو اچھا خاصا گرم رکھاتھا جس سے سردی کی شدت میں کمی ہوئی اور خود کو گرم کرنے کے بعدسردی کی شدت میں کافی کمی محسوس ہوئی وہاں موجود ایک دوست نے بتایا کہ کاشغر میں پاکستانی روپے کی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے وہاں کے تاجر نہیں لیتے اس وجہ سے اپ ین یہاں سے ہی لیکر جائے اب ہماری پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا اور سوست کی سردی میں ایک بار پھر ہمیں بازار کی طرف نکلنا پڑا چونکہ ایک سال قبل جب میں چائینہ گیا تھا اس وقت ین اٹھارہ روپے کا تھا مگر اس دفعہ پتہ کیا تو بائیس روپے کا ین مل رہا تھا بڑی مشکل سے عزیزم ندیم علی رفع کے ایک دوست نے ہمیں اکیس روپے کے حساب سے ین دیدیا اور ین لینے کے بعد نیٹکو بکنگ آفس سے تشقرغان کے لئے ٹکٹ لے لئے عزیزم ندیم علی رفع نے ہمارے اعزاز میں ایک بکرا ذبع کیا تھا اور ان کی طرف سے ڈنر کا جو اہتمام کیا گیا تھا وہ زندگی بھر یاد رہے گا جمعرات 18اکتوبر کی صبح ہم نے چائینہ جانے کی اپنی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھی چونکہ سوست میں اتنی سردی ہو تو خنجراب کی کیا حالت ہوگی ہم نے اپنے ساتھ لائے گرم ملبوسات کو استعمال میں لانا سوست میں ہی مناسب سمجھا اور نو بجے کے قریب ہم سوست امیگریشن میں داخل ہوگئے سامان کی چیکنگ ہوگئی اور سب اہم بات اس دفعہ پھر ہمیں پولیو کے قطرے پلائے گئے یہ چوتھی دفعہ میرا ساتھ ایسا ہوا میں نے بتایا بھی کہ بھائی پچھلے سال ہی میں نے پولیو کے قطرے یہاں پی لیا ہوں اس دفعہ کیوں مگر انھوں نے کہا کہ چائینہ جانا ہے تو پولیو کے قطرے ضرور پینے ہونگے مجھے سمیت جتنے مسافر جو چائینہ جانا چاہتے تھے سب کو پولیو کے قطرے پلائے گئے اور اس کے ساتھ ایک رسید بھی تھما دی اور کہا کہ اس کو سنبھال کر رکھنا اگر اپ کے پاس یہ رسید نہیں ہوگی تو اپ کو چائینہ امیگریشن والے اپنے ملک میں داخل ہونے نہیں دینگے یہ کتنے المیہ والی بات ہے کہ دنیا پولیو فری ہورہا ہے مگر ہمارے ملک میں اب تک یہ مرض ختم نہیں ہوئی جس کی اصل وجہ پولیو کے قطرے نہیں پلانے بتایا جاتا ہے اور کچھ دن قبل ہی غذر کے دور افتادہ علاقے چھشی میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم نے جب ایک شخص کے گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے کی کوشش کی تو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی بجائے پولیو ٹیم پراس شخص نے اسلحہ تان لیا اور جب پولیس نے اس شخص کی خبر لی تو پولیو کے قطرے پلانے پر راضی ہوگیا یہ سب کچھ جاہلیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی نیٹکو کی گاڑی میں چائینہ جانے والے سواریوں کو بٹھایا گیا اور ہم بھی گاڑی میں سوار ہوگئے ابھی نصف گھنٹے سفر طے ہی کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا کہ بارڈر پاس والے چالیس روپے اور پاسپورٹ والے ایک سو روپے جمع کر ادیں ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ خنجراب نیشنل پارک کی فیس ہے تمام مسافروں نے پیسے جمع کر ادئیے مگر ہمارے ساتھ سفر کرنے والی چائینہ خاتون سے کوئی پیسے وصول نہیں کئے جبکہ ایک جاپانی لڑکی سے بھی پانچ ڈالر لئے گئے جب ہم نے ان لوگوں سے یہ پوچھا کہ پاکستان کے ہوتے ہوئے ہم سے پیسے لئے جاتے ہیں تو چائینہ والوں کو اس چھوٹ کیوں ؟؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا بہرحال ایک بندے نے جاکر خنجراب نیشل پارک کے بندے کو رقم تھمادی انھوں نے رقم جیب میں ڈالی پتہ نہیں یہ حکومت کے خزانے میں جمع بھی ہونگے یا نہیں اس حوالے سے متعلقہ حکام ہی جواب دیں سکتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مسافروں کو رسید دی جاتی تاکہ یہ پیسہ حکومت کے خزانے میں جمع ہونے کی امید تو ہوجاتی اگر ان اہلکاروں نے جیب میں ڈالنی ہے تو پھر یہ رقم لینے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا خیر پیسے اہلکار کو مل گئے اور انھوں نے چیک پوسٹ کا بیرل کھول دیا اور ہم اپنے سفر پر رواں دواں تھے کوئی ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم خنجراب چائینہ امیگریشن میں داخل ہوگئے سب سے پہلے تمام مسافروں کے جوتے اتاروا دئیے گئے اس کے بعد سامان کی سخت چکینگ ہوگئی اور تمام مسافروں کے موبائیل چیک کر دئیے گئے کسی بھی قسم کی کوئی تحریر چاہے وہ انگریزی میں ہو یا اردو میں اس ڈلیٹ کیا جاتا رہا میرے موبائیل سے بھی میرے آریٹکل کو ڈلیٹ کر دیا گیا اس کے بعد وڈیو کی باری آئی جس میں میرے آج ٹی وی کے پیکیج تھے جب چیک کرنے والے آفیسر کی نظر ان پر پڑی تو کہنے لگے کہ آپ صحافی ہیں میں نے اثابت میں سر ہلادیاتو اس کو شاید مجھے پر رحم آیا مزید کچھ پوچھے بغیر مجھے جانے دیا اس دوران دیگر مسافروں کے موبائیل سے بھی تصویریں ہٹانے کا سلسلہ جاری رہا اور پہلی بار میں نے دیکھا کہ چائینہ امیگریشن کے آفسیر اور دیگر اہلکار پاکستان سے چائینہ جانے والے مسافروں کے ساتھ بہت ہی اخلاق سے پیش آ رہے تھے اور تمام مسافروں کو باعزت طریقے سے کرسیوں پر بیٹھایا گیا تھا اور سامان کی چینگ مکمل ہوتے ہی ہمیں جانے کی اجازت مل گئی ورنہ اس سے قبل ایسا ہوتا تھا کہ پاکستان سے آنے والی تمام گاڑیوں چیکنگ مکمل نہیں ہوتی کسی گاڑی کو چائینہ جانے نہیں دیتے تھے اور گاڑیوں میں کیمریں نصب کئے جاتے تھے راقم اس تبدیلی کو پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے پر چائینہ حکومت کی طرف ایک اہم تبدیلی سمجھتا ہوں ہم لوگ گاڑی میں سوار ہوتے ہی ایک آفسیر آیا نہ ہماری گاڑی میں کسی اہلکار کو بیٹھایا اور نہ ہی گاڑی میں کیمریں نصب کئے گئے جواس سے پہلے چائینہ آئے تھے وہ اس تبدیلی پر خوش بہت خوش تھے (جاری ہے )