کالمز

داریل کا گمنام گوشہ ( سوت داس)

تحریر: فیض اللہ فراق

ویسے تو پورا گلگت بلتستان خوبصورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے، عمیق نظروں اور دلچسپی سے بھرپورکوشیشوں کے ذریعے اس پورے خطے کو سیاحت کے حوالے سے عالمی توجہ کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ ملکی و علاقائی معیشت کی بڑھوتری کے ذریعے مقامی آبادی کو اپنے پاوں پر کھڑی کی جاسکتی ۔

گلگت بلتستان میں سیاحت کے وسیع مواقع ہیں ۔یہاں پر خوبصورت میدان بلند و بالا پہاڑی سلسلے ،جنگلات ،قدرتی جھلیں اور بہترموسمی تغیرات وہ عوامل ہیں جو نئے آنے والوں کیلئے کشش کا باعث ہیں ۔گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کی دیہی علاقوں میں درجنوں ایسی گمنام خوبصورت وادیاں اپنا وجود رکھتی ہیں جو آج تک دریافت نہیں ہوسکی ہیں ۔

ایک ایسی وادی جو آج تک حکومت و اکثریتی عوام کی انکھوں سے اوجھل رہی جو سوت داس کے نام سے ہے ۔یہ جنت نما گوشہ ضلع دیامر کے علاقہ داریل کا گیٹ گیال سے متصل ہے اور قراقرم ہائی وے پر راولپنڈی جاتے ہوئے شتیال کے دائیں سمندرپار واقع ہے۔یہ گوشہ کافی اونچائی پر ہے خوش قسمتی یہ ہے کہ گزشتہ سال گلگت بلتستان حکومت کا ای ٹی آئی نامی پراجیکٹ نے اس علاقے میں 18کروڈکی لاگت کا منصوبہ شروع کیا ہے جس میں 10کلومیٹر سڑک تیارہوکر فعال ہے۔جبکہ 12 کلومیٹرواٹر چینل پرکام بھی آخری مراحل میں ہے اور حدف یہ ہے کہ اس حاصل کردہ پانی سے 19000کنال بنجر اراضی کو آباد کیا جائیگا۔

اس منصوبے کی تکمیل سے عوام کی زرعی ضروریات پوری ہونگی اور یقیناًاس سے خود انحصاری کے رویے کو فروغ دینے کا عمل پختہ ہوگا۔ان تمام حوالوں سے ہٹ کر سوت داس کو یک نظر دیکھنے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قدرت اس جگہ پر مہربان ہے اور فطرت نے ایک منصوبے کے تحت خوبصورت طریقے سے اس جگہ پر پہاڑی کی صورت میں ایک بنی بنائی سٹیج گاڑ دی ہے۔یہ خوبصورت گوشہ ہر آنے والے مہمان کا دل سے استقبال کرتا ہے جبکہ ہر نیا آدمی یہاں پہلی قدم رکھنے کے بعد قدرت کی صناعی کی تعریف کیئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے ۔اس گوشے پر فٹ بال ،کرکٹ اور پولو کے بنے بنائے قدرتی گرونڈز موجود ہیں جن کی صرف دیکھ بھال کرنی ہے ۔

گزشتہ دنوں داریل امن فاونڈیشن کے متحرک نوجوانوں نے اسی مقام پر مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا ۔پولو کے فائنل میچ کے مہمان خصوصی فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جزل احسان محمود تھے ،موصوف کی آمد سے جہاں پروگرام کو چار چاند لگ گئے وہاں احسان محمود صاحب کی علاقے سے گہری وابستگی بھی کھل کر سامنے آگئی ۔جزل احسان محمود کی گلگت بلتستان سے خاص محبت ہے وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے زندگی کے میدانوں میں آگے بڑھیں،اُس کا خواب ہے کہ گلگت بلتستان امن کا گہورہ بنیں اور سیاحت یہاں کا اہم و فعال شعبہ بن جائے تاکہ مقامی آبادی معاشی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو۔

جزل احسان محمود ان تمام عوامل کی بڑھوتری وبہتری کیلئے عوام و حکومت کے ساتھ مل کر بھرپور تعاون بھی کرنا چاہتے ہیں جوکہ خوش آئند ہے۔یہ امر مخفی نہیں کہ گلگت بلتستان کی کی آبادی کو اپنے پاوں پر کھڑی کرنے کیلئے سیاحت کا شعبہ ہی کافی ہے جس کیلئے بہتر حکمت عملی،پرامن فضا،شعوری و تعلیمی رویوں کا فروغ اولین اور لازمی محرکات ہیں ۔جنوبی ایشیا میں واقع نیپال کی معیشت اور روزگار کا زیادہ تر دارومداروہاں کے پہاڑوں اور سیاحتی مقامات پر ہیں۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل (WTTC)کے گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق نیپال کی سالانہ جی ڈی پی میں وہاں کے شعبہ سیاحت کی جانب سے 189بلین کی سالانہ تعاون شامل ہے رپورٹ کے مطابق نیپال کی سیاحت سے اب تک چار لاکھ ستائیس ہزار وہاں کے مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں ہیں ۔گلگت بلتستان میں سیاحت کے مواقع نیپال سے زیادہ ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ خطے میں دیرپا امن کے قیام کیلئے عوامی و حکومتی سطح پر بھرپور کردار ادا کیا جائے،مقامی آبادی کو کاروباری معاشی اور مہمان نوازی کے شعورسے لیس کیا جائے ،شرح خواندگی کو بڑھانے کیلئے مربوط کوششیں کی جائیں تاکہ خطے کے گمنام خوبصورت گوشے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button