ٹا ؤن پلاننگ کیسے ہو؟
خیبر پختونخوا کے 16درمیانہ قصبوں میں کنویں نکا لے گئے تو سیوریج کا پا نی نکل آیا 3بڑے شہروں کا سروے ہوا تو پتہ چلا کہ آگ لگنے کی صورت میں کسی بھی گلی کے اندر فائر بریگیڈ کی گاڑی نہیں جا سکتی 2بڑے شہروں کے 10بڑے ہوٹلوں کا سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 60کمروں کے ہوٹل کا کوئی کار پارک نہیں درمیانہ درجے کے قصبوں اور پہاڑی علا قوں کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ز کا برا حال ہے بٹگرام ، لکی مروت ، کر ک ، دیر اور چترال جیسے قصبوں میں ڈپٹی کمشنر اور سیشن جج کے گھروں کا سیوریج دریا میں بہتا ہے یا ندی میں گر تا ہے یا کسی بر ساتی نا لے میں ڈالا گیا ہے انگریزوں کے جا نے کے بعد خیبر پختونخوا میں ٹاون پلا ننگ اور اربن ڈیولیپمنٹ کا پورا شعبہ بند کر دیا گیا یہ شعبہ چھوٹے بڑے قصبوں کی منصوبہ بندی اور شہری ترقی کا کام کر تا تھا انگریزوں نے1947ء میں پشاور کے حکام کوبلڈنگ کنٹرول اور لینڈ یوز پلا ننگ کا فعال محکمہ حوالہ کیا تھا یہ محکمہ نئی تعمیرات کی منظوری دیتا تھا اور دستیاب زمین کے منا سب استعمال کے قا نون پر عمل درآمد کر تا تھا آج پشاور کے وکلا اور ججوں کو بھی اس قانون کا نا م یاد نہیں رہا کیونکہ قانون کو دفن ہوئے 70سال گذر گئے 71واں سال چل رہا ہے اس قا نون کی قبر پر کوئی کتبہ بھی نہیں لگا یا گیا یہ دکھ اور دردکی بات ہے کہ آزادی کے 70سال بعد ہم دور غلا می کی اچھی باتوں کو یا د کر کے افسوس کر تے ہیں یہ ڈوب مر نے کا مقام ہے مگر کس کے لئے ؟ جو لوگ 70سال اقتدار میں رہے اُن کو شرم نہیں آتی جن لو گوں نے قو می تعمیر کے محکموں کی سر براہی کی انہوں نے اپنے بچوں کے لئے دوبئی اور لندن میں جا ئداد یں خریدیں میو نسپل انجینئروں کی پوری کھیپ نے ڈیفنس اور بحریہ ٹا ون میں کوٹھیاں بنواکر اپنی او لاد کو وہاں آباد کیا بیڑہ غرق ہوا تو غریب اور متوسّط طبقے کا ہوا ہے جو 21کروڑ کی آبادی کا 85فیصد ہے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر چترال میں کسی بھی سر کاری اور نجی عما رت کا نقشہ مجاز حا کم نے نہیں دیکھا، ہسپتال ، سکول ، بینک ، ہوٹل اور دفاتربغیر نقشے کی منظوری کے بن گئے دسمبر 2018ء میں چلڈرن اور ویمن ہسپتال کی کارپارکنگ کے سامنے تین منزلہ سر کاری عمارت بن رہی ہے اس کے اندر 200بندوں کے بیٹھنے کی گنجا ئش ہے باہر دو گاڑیوں اور چار موٹر سائیکلوں کی جگہ نہیں اسی سال شاہی مسجد روڈ پر ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر کا دفتر تعمیر ہو اہے اس دو منزلہ عما رت کے اندر 120بندوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے باہر ایک مو ٹر اور ایک موٹر سائیکل کے لئے بھی پارکنگ کی جگہ نہیں ہے دونوں عمارتوں کے لئے سیوریج لائن کا کوئی بندو بست نہیں نکا سی آب کی کوئی جگہ نہیں سر کار اپنی عمارت کو بغیر نقشے کے بنا رہی ہے تو عوام کی شکا یت کون کرے اور کس سے کرے شکا یت کا ازالہ کیسے ہو ؟ خیبر پختونخوا کے ایک اہم ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ہو ٹل ما لک سے در یافت کیا گیا کہ تیرے ہو ٹل میں 60کمرے ہیں 8لاکھ روپے ما ہا نہ آمدن ہے کا ر پا رک اور سیوریج کے انتظام کے بغیر نقشہ کیسے منظور ہواَ ؟ فائر بریگیڈ کی گاڑی اس گلی میںآہی نہیں سکتی تمہیں یہاں ہو ٹل تعمیر کرنے کی اجا زت کس طرح ملی؟ انہوں نے سیدھا سا جواب دیا ہم ان پڑ ھ لو گ ہیں ہمیں نقشوں کا کیا پتہ ؟ میرا بھتیجا بینک میں کیشیرہے اُس نے 50ہزار روپے دے کر کمیٹی سے دسخط کروا یا تھا کس چیز پر دستخط کر وا یا تھا ؟ اس سوال کے جواب میں ہو ٹل کا بھولا بھا لا ما لک کہتا ہے کہ کیشیر کو پتہ ہے مجھے پتہ نہیں وہ کہتا تھا کمیٹی والے 50ہزار روپے مانگتے ہیں اس بات سے اندازہ ہو تا ہے تحصیل میو نسپل ایڈ منسٹریشن کے اندر نقشہ منظور کرنے کا ایک کمرہ ضرور ہے اُس کمرے میں کوئی ’’ نر بچہ ‘‘ یا شیر کا بچہ بیٹھا ہوا ہے وہ 50ہزار روپے لیتا ہے اور آنکھیں بند کر کے 60کمروں کے ہو ٹل کا نقشہ منظور کر تا ہے اگر اُس کی جگہ انگریز افیسر ہوتا تو نقشہ منظوری کے لئے درخواست اُس کی میز پر آتے ہی شہر کا دورہ کر تا بلڈنگ کے سا ئیٹ کا جا ئزہ لیتا گلی کی تنگی کو دیکھتا سیوریج لائن کی گنجا ئش کو دیکھتا ، فائر بریگیڈ کی گاڑی کا راستہ اور کارپارکنگ کے لئے جگہ کی گنجا ئش کو دیکھتا پھر بلڈنگ کے مر بع فٹ رقبے کے حساب سے ادارے کا ٹیکس بینک میں جمع کر کے رسید لا نے کا حکم دیتا اور قا نونی تقا ضے پورے ہونے کے بعد ایک پائی کا تقا ضا کئے بغیر نقشے پر دستخط کر تا لیکن آج ہم خیبر پختونخوا کے کسی ضلعی ہیڈ کوارٹر یا تحصیل ہیڈ کوارٹر میں انگریز افیسر کہاں سے لائینگے ؟ آزادی کی نعمت نے ہمیں نیک ، قا بل ، ایماندار ، دیا نت دار اور فرض شنا س افیسروں سے محروم کر دیا ہے ایک سروے کے مطا بق گزشتہ 70سا لوں میں ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر کم سے کم 8کھرب روپے کی سر کاری رقم خرچ ہوئی ہے چترال ، مانسہرہ ، بٹگرام ، دیر اور سوات میں بین لاقوامی ڈونر ایجینسیوں نے بھی کھربوں روپے خرچ کئے مگر ٹا ؤن کے اندر شہری منصوبہ بندی ، کچرے کو ٹھکا نے لگا نے کی تد بیر ، سیوریج لائن کی تنظیم اور کار پارکنگ کے ساتھ گلیوں کی کشاد گی جیسے بنیا دی مسائل 1947ء کی سطح پر رکے ہوئے ہیں اگر انگریز حکمران رہتے تو شہریوں کو اس طرح کے گھمبیر مسا ئل پیش نہ آتے میں چترال ، شانگلہ اور بٹگرام کا رونا رو رہا تھا ایک دوست نے مجھے پشاور کی جدید ترین بستی حیات اباد کی گلیاں دکھائیں ، سر کاری کا لونی گلشن رحمن میں کچرے کے ڈھیر دکھا ئے انہوں نے بتا یا کہ حیات اباد کی گلیوں کے اکثر بورڈ چوری ہو گئے ہیں گلی اور سیکٹر کا نمبر نہیں ملتا چور کو پکڑ نے کا انتظام بھی نہیں نیا بورڈ لا کر لگانے کا بندو بست بھی نہیں گو یا پشاور کی جدید ترین بستی کا پوش علا قہ بھی چترال اور شانگہ کی طرح لا وا رث ہے کا ٹلنگ اور جڑوبہ کی طرح اس کا بھی کوئی پُر سان حال نہیں میرے دوست کہتے ہیں کہ تم نے اتنا لکھا ہے کوئی تجویز بھی دیدو میں کہتا ہو ں تجویز کی ایک ہی گنجا ئش رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ پشاور کا کور کمانڈر شہری منصوبہ بندی کے تما م حکام کی میٹنگ بلا کر انہیں ڈنڈا دکھا ئے اور چھ مہینے کے اندر جو لائی 1947ء والے قوانیں پر عمل کر کے دکھا نے کی وار ننگ دیدے اس طرح ایک روز این جی اوز کے سر براہوں کو بلا کر ان سے پوچھے کہ تم لو گوں نے شہری منصو بہ بندی پر کا م کیوں نہیں کیا ؟ رہی بات سول انتظا میہ اور سول حکو مت کی ، تو بقول شاعر
نہ خنجراُٹھے گا نہ تلوار اُن سے
یہ بازو میرے اَزمائے ہوئے ہیں