کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
شریف ولی کھرمنگی ۔ بیجنگ
بہترسال سے لٹکائے گلگت بلتستان کے حقوق سے متعلق کیس کا "فیصلہ” سپریم کورٹ نے سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی سفارشات کے مطابق "اپنا حکم ” دے ڈالا۔ نہ آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا گیا نہ جموں کشمیر طرز کا، اور نا ہی عبوری صوبہ بنانے کی قطعی سفارش کی گٸی۔ وہی پرانی بات دہرائی گئی کہ تنازعہ کشمیر کے تصفیئے تک ”تمام تر حقوق“ دیئے جائیں۔ یہ تو آنیوالا صدارتی حکم نامے سے واضح ہوگا کہ ”تمام تر “ سے کیا مراد ہے۔ نئی بات یہ ہوئی کہ اب غیرآئینی علاقے پر آئینی عدالت کی عملداری ہوگی۔ سپریم کورٹ کے 1999 کے فیصلے کا ذکر کرکے بھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا ”De’facto & De’jure“ حصہ بنایا جائے۔ حالانکہ یہ اُس تاریخی فیصلے کے حکم میں شامل تھا جسکا حوالہ خود چیف جسٹس نے اس حالیہ فیصلے میں بھی دیا ہے۔ کئی سالوں کی مشاورت کے بعد طے پائی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر بھی من و عن عملدرآمد کرنے کا حکم نہیں دیا جس میں علاقے کو عبوری حیثیت دیکر کشمیر کاز کو مضبوط کرنے کا کہا گیا تھا۔ اور یہی کمیٹی کے رکن وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سمیت موجودہ حکومت کیطرفسے متعین علاقے کے گورنر کا بھی موقف ہے۔
اب اس تناظر میں گلگت بلتستان کی عوام کالونیل سسٹم کو یقینا قبول نہیں کرتی۔ عدالت کا حکم کہ تمام وہ حقوق دیئے جائیں جو دوسرے صوبوں کو ہے، تو سوال بنتا ہے کہ دوسرے صوبے ملک میں حکمران چننے کا حق رکھتے ہیں، قانون سازی میں حصۃ دار ہیں، پالیسی ساز اداروں میں شامل ہیں، آئینی طور پر اپنی شہریت کو ببانگ دہل بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ تو کیا گلگت بلتستان کو بھی یہ ”تمام حقوق“ دیئے جارہے ہیں؟ اگر نہیں تو دوسرے صوبوں سے برابر کے حقوق کا مطلب کیا ہوگا ؟ اگر برابر یعنی دوسرے امور سمیت درج بالا متذکرہ حقوق حکومت نہیں دیتی تو کیا عدالت عالیہ حکومت پر ”contempt of court“ کریگی؟ اور اب جبکہ سپریم کورٹ تک گلگت بلتستان والوں کی رسائی ہوگئی ہے تو عدالت کے احکام کی خلاف ورزی یعنی برابر حقوق نہ دینے کی صورت میں علاقے کے عوام اور حکومت، وفاقی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع بھی کریگی؟ یہ سوالات غور طلب ہیں۔
گلگت بلتستان کی عوام خصوصا یوتھ کیلئے یہ فیصلہ کئی حوالوں سے بیدار ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں۔ باوجود اسکے یہاں پاکستان کی مخالفت کی کوٸی قابل قدر تحریک نہیں چلی۔ حالانکہ ملک کے کٸی دیگر علاقوں میں باقاعدہ علحدگی پسند قوتیں وقتا فوقتا سر اٹھاتی رہی ہیں۔ بلکہ یہ سو فیصد درست بات ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام دنیا کی واحد آبادی ہے جو اپنے قوت بازو سے آزادی لینے کے بعد سات دہاٸیوں سے ملک کا آٸینی حصہ بننے کیلٸے تحریکیں چلا رہی ہیں، مگر وفاق کی بدلتی حکومتوں نے انکے مطالبات کو تسلیم نہیں کٸے۔ سات دہاٸیاں گزر گٸیں، اب عوام خطے کو آرڈر کے ذریعے چلانے کو قبول نہیں کرتی۔ گزشتہ آرڈر کے بعد جو صورتحال سامنے آئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اب نئے آرڈر کی صورت میں بھی عوام خاموشی سے راضی ہرگز نہیں ہوگی۔ گو کہ وفاقی حکومت عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمان سے عوام کی اکثریتی رائے کے مطابق فیصلہ لینے کا حق محفوظ رکھتی ہے، مگر اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ میں حکومتی سفارشات اور ممکنہ ریفارم پیکیج سے سامنے آنیوالی معلومات سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح لوگوں کو وقتی طور پر بھی آمادہ کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ علاقے کیلئے غیر آئینی علاقے کے مکمل حقوق دے دیئے جائیں۔ وہ چاہے جموں کشمیر طرز کے سیٹ اپ کی شکل میں ہو یا آزاد کشمیر کے طرز کا سیٹ اپ دیکر۔
ایک مستقل مسئلہ گلگت بلتستان کی عوام کیساتھ بھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علاقہ ملک کا آئینی حصہ نہیں۔ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک عوام یکجا ہوکر احتجاج نہ کرے کوئی مطالبہ کسی حکومت نے آج تک نہیں مانی۔ لوگ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کا بہت زیادہ فقدان ہے اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے، الزامات لگانے، غلط زبان اور غلط لہجے استعمال کرنے سے اتفاق و اتحاد کو فروغ نہیں ملنے والا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی جماعت کی وفاق میں بننے والی حکومت آج تک گلگت بلتستان کے حقوق کے ایشو کو پارلیمنٹ میں لیکر نہیں گٸی۔ جن جن جماعتوں کو ماضی میں وفاق میں حکومتیں ملیں ان سے موجودہ حکمران جماعت کا حال کچھ مختلف نہیں۔ جبکہ جن جماعتوں کی وفاق میں کبھی حکومت نہیں اور امکان بھی نہیں وہ بھی ان باتوں کا ادراک بخوبی رکھتے ہیں۔ مگر ہم عدم برداشت اور مشترکات پر یکجا ہونے کیلئے اب تک آمادہ نہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے رہنما کا بیان آجائے تو دوسرے اسکے خلاف شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک عالم دین کا بیان آجائے تو علمائے کرام کی تضحیک و توہین کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ہر ایک اپنی سوچ کو ہی حرف آخر سمجھنے پر مصر ہیں۔ اپنے علاوہ گویا کسی کو کچھ سوچنے کا حق نہیں۔ اکثر مقامی جماعتیں جو صرف سوشل میڈیا میں زندہ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انکے علاوہ سب جھوٹ بولنے والے اور صرف وہی سچے ہیں۔ مگریہ کبھی سوشل میڈیا سے نکل کر عوام کو عزت و احترام کیساتھ اپنے نظریئے پر قانع نہیں کرتے۔ مذہبی جماعتیں مذہبی خول سے باہر نہیں نکلتیں۔ وہ بھی اپنی بات کو ہی حرف آخر سمجھتی ہیں حالانکہ عام طور پر مذہبی جماعتیں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں جو عوام کے حقوق کیلٸے اقدامات نہیں کرتیں۔ انکے تقریبا تمام وفاقی سیاسی جماعتوں کے اکثریت کارکن تو گویا لائین میں لگے ہوتے ہیں کہ وفاق میں جس جماعت کی حکمرانی ہو موقع مناسبت دیکھ کر اسی میں ہی کود جاٸے۔ چاہے پہلے اس جماعت کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے میں کوئی حد نہ چھوڑی ہو۔ گویا بقول بسمل عظیم آبادی
واٸے قسمت پاٶں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے۔
اسلٸے اب ضروری ہے کہ لوگ اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں۔ صوبے کا مطالبہ کرنیوالے بھی یقینا اس خطے اور اپنی قوم کی بہتری کیلئے ایسا کرتے رہے۔ اور ڈوگروں سے آزادی کے چار دہاٸیوں بعد یعنی نوے کی دہاٸی کے بعد سے جو لوگ صوبے کے علاوہ دوسرے آپشنز کی بات کرتے آٸے ہیں وہ بھی کسی کے ذاتی فائدے میں نہیں بلکہ اس پورے خطے اور عوام کیلئے ہی کی جاتی رہی انکی بھی قدر دانی کرنے کی جانی چاہٸے۔ مذہبی جماعتوں کے وہ رہنما جو ہر عوامی ایشو پر صف اول میں رہے وہ اس سلسلے میں تمام دیگرسیاسی جماعتوں سے ہٹ کر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ کیونکہ انکو نہ وفاق میں حکومت کا آسرا کبھی رہا، نہ مستقبل میں ممکن ہوسکتا ہے اور نہ ہی مقامی طور انکی حکومت بننے کا امکان نظر آتا ہے۔ اسطرح ان کے پاس دوسری جماعتوں کی طرح ٹھیکیداری اور نوکریوں کی لالچ دینے کا کوٸی موقع نہیں۔ مگر خطے کے امور اور مسائل میں عوام کی ترجمانی کرنا اپنا فریضہ سمجھ کر نکلتے رہے تبھی عوام بھی ان کے حکم پر لبیک کہتے ہیں۔ اسلئے اب مل بیٹھ کر اپنی سمت طے کریں۔ یہ واضح کریں کہ کیسے آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرکے خطے کی محرومیوں کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جوانوں کی جانیں تو ستر سال سے پاکستان پر قربان ہوتی رہیں، قراردادیں بھی جلسے جلوسوں سمیت اسمبلی سے بھی منظور ہوتی رہیں، مگر دوسری طرف سے ایک ہی پٹی ہر بار پڑھ کر سناٸی گٸی کہ ”تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک۔۔۔“ بھلا ہو بار کونسل کا جنہوں نے بیس سال بعد سپریم کورٹ سے باٸیس لاکھ عوام کے اس اہم ترین ایشو کو ایک بار پھر سے تروتازہ کرکے پیش کروادیا۔ یہ اور بات کہ اب اس غیر آٸینی علاقے پر بھی سپریم کورٹ کو آٸینی فیصلے نافذ کرنے کیلٸے باقاعدہ فیصلہ بھی ہوگیا۔ ورنہ ستر سالوں سے تو ہماری حالت یہ تھی کہ بقول ساحر لدھیانوی،
عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں
قتل اخبار تک نہیں پہنچا۔
انقلابات دہر کی بنیاد
حق جو حق دار تک نہیں پہنچا۔