پاکستان اور بھارت نے پنجاب میں لاہور امرتسر اور کشمیر ریجن میں مظفر اباد سری نگر روٹس کافی عرصہ پہلے سے کھل رکھے ہیں۔ ان راستوں سے دونوں ملکوں کے بیج نہ صرف تجارت ہوتی ہے بلکہ منقسم خاندان ایک دوسرے سے ملنے جلنے آر پار آتے جاتے ہیں۔ یہ اچھا قدم ہے۔ پاکستان اور بھارت کو تجارت بڑھانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے بیج آپسی تعلقات بڑھانے کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں پنجاب ہی میں سیکھ یاتریوں کے لیے کارتارپور کوریڈور کھولنے کے حوالے سے بھی اہم کام ہوا ہے۔ جسے دونوں ملکوں کے باشندوں نے سراہا ہے۔ اس سے نہ صرف سیکھ کمیونٹی کو آر پار اپنے مذہبی مقامات پر آنے جانے میں اسانی ہوگی بلکہ پاکستان میں سیاحت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ وہی دونوں ملکوں کے شہری ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ اس کوریڈور پر اب تک چالیس فیصد کام بھی مکمل ہوا ہے۔
تاہم 1947 میں آزادی کے دنوں سے لے کر اب تک صرف پنجاب اور کشمیر میں ہی لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ نہیں گئے اس مسلۂ سے گلگت بلتستان اور لداخ ریجن میں بھی لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پر سینکڑوں خاندان 1948 سے اب تک اپنے پیاروں سے ملنے سے قاصر ہیں۔ ان خاندانوں کے بیج صرف چند کلو میٹر کی سرحد حائل ہے جو پچھلے ستر سال سے سیاسی انا کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے اور غیردانشمندی کی وجہ سے وہاں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں۔ وہاں پر ایسے مقامات بھی ہیں جہاں نہر کے اس طرف سرحد پار لوگ اپنے پیاروں کو دیکھ تو سکتے ہیں پر ستر تہتر سال سے ان سے مل نہیں سکتے ہیں ہاتھ نہیں ملا سکتے بات نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے بیج سیاست کی دیوار کھڑی ہے۔
بھارت اور پاکستان اگر پنجاب میں لاہور امرتسر کشمیر میں مظفر اباد سری نگر روڑ کھول سکتے ہیں تجارت کرسکتے ہیں لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے دے سکتے ہیں تو یہاں گلگت بلتستان لداخ ریجن میں کیوں نہیں۔ یہاں کے لوگ پچھلے کئی دہائیوں سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا احجاج بھی ریکارڈ کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ جمعے کے دن لداخ بھر میں لوگوں نے بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکال کر بھارتی حکومت اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لداخ اور گلگت بلتستان کے بند راستے کھول دیں۔
اکیسویں صدی میں لوگوں کو اپنے خاندانوں سے نہ ملنے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کو وہاں کی سرحدیں اور قدیمی راستے کھول دینا چاہئے۔ وہاں آر پار سرحد میں کوئی اجنبی نہیں بلکہ منقسم خاندان رہتے ہیں وہ ایک ہی گھرانے کے ہیں ایک زبان بولتے ہیں ایک قسم کی طرز زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں قدیم زمانے سے اہم راستے موجود رہے ہیں جہاں سے تجارت اور مسافت ہوتی رہی ہیں۔ ان رستوں میں سکردو۔ کارگل، خپلو- ترتک، گلتری۔دراس، اور استوار سری نگر روٹس بہت اہم ہیں۔
آزادی سے قابل گلگت بلتستان کے تجارتی مال کا بڑا حصہ سری نگر سے اتا تھا۔ اگر پاکستان اور بھارت پنجاب اور کشمیر میں تجارت کرسکتے ہیں تو یہاں بھی کرسکتے ہیں۔
اگر تجارت نہیں تو کم از کم لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملنے تو دیا جائے۔ اپ اس بات کا اندازہ لگائے کہ ایک بندہ لداخ سے امرتسر۔ لاہور۔ راولپنڈی سے ہوتا ہوا چار ہزار سے زیادہ کلو میٹر کا سفر کئی دن لگا کر ہزاروں روپے خرچ کرکے سکردو پہنچ جاتا ہے حالانکہ اگر بارڈر کھول دیا جائے تو وہ صرف چند کلومیٹر کا سفر کرکے چند گھنٹوں میں اپنے منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
لہذا دونوں طرف کی حکومتوں کو چاہئے کہ لوگوں کے اس دیرینہ مطالبے کو پورا کرکے یہ اہم راستے کھول دیں۔