بے راہ روی کا شکار معاشرہ اور ہمارا مستقبل
حکومت وقت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو ڈوب مرنا چاہئے کہ ایک معصوم بچی تین دن تک زیادتی کا نشانہ بنتی رہی اور اس گھناؤنے فعل میں ملوث ملزمان کو قانون کے شکنجے میں لانے کیلئے زینب کے باپ کو جان کی قربانی دینی پڑی، نجیب اللہ شہید نے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہی واقع پل پر سے چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا تو سوشل میڈیا پر خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، صوبے کے چیف ایگزیکٹیو (حافظ حفیظ الرحمن) نے بھی نوٹس لے لیا اور پولیس سربراہ کو بھی ہوش آیا کہ چند روز قبل ایک معصوم بچی کا اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس واقعے میں ملوث انسان نما حیوان اور درندے ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں، خود کشی کے اس واقعے کے اگلے روز صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی شیڈول تھا جس میں اس واقعے کی مذمت کی گئی اور مجرموں کو قرار واقعی سزاء دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ایک رسمی کارروائی ڈالی گئی جس کے مطابق متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او (ابھی تک اس بات کی وضاحت سامنے نہیں لائی گئی کہ کس تھانے کا عملہ اور ایس ایچ او معطل ہے) سمیت عملے کو معطل کر دیا گیا ہے، نجیب اللہ شہید دریاء گلگت میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ نہ کرتے تو وزیر اعلیٰ، گورنراور آئی جی پولیس کو اس بات کا علم ہی نہ ہوتا کہ اس شہر میں 11سالہ بچی جس کا نام زینب ہے کے ساتھ ظلم و زیادتی اور سفاکی کی انتہا ہو چکی ہے، ثناء اللہ عباسی کو اس بات کا احساس دلانے کیلئے کہ میری بچی کی عزت تار تار کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کیلئے پولیس تعاون نہیں کررہی ہے اور میری غربت، بے بسی، لاچارگی اور افلاس کا مذاق اڑانے کیلئے تھانے میں طلب کرکے کئی کئی گھنٹے بٹھایا جاتا ہے اور پھر اگلے روز دوبارہ آنے کا کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے، اتنی سی بات پولیس سربراہ تک پہنچانے اور ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے ایک لاچار شخص کو زندگی کی بازی ہارنی پڑی، مجھے حیرت ہے کہ ایک بچی کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور صوبے کے چیف ایگزیکٹیو (وزیر اعلیٰ) کو خبر تک نہیں ہوئی، ڈیلی سچویشن رپورٹ (Daily Situation Report) عرف DSRجو رات گئے تک پولیس کا اسپیشل برانچ وزیر اعلیٰ، گورنر، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو ارسال کرتا ہے میں اتنے بڑے واقعے کو رپورٹ ہی نہیں کیا گیا ہے، اگر رپورٹ نہیں کیا گیا ہے تو اس محکمے (سپیشل برانچ) کے سربراہ سے باز پرس ضروری ہے اور اگر ڈی ایس آر میں اس واقعے کا ذکر ہونے کے باوجود انتظامی اور سیاسی سربراہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے تو پھر ان سب کو اپنے اپنے عہدوں پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ، گورنر سمیت انتظامی عہدوں پر براجمان اعلیٰ آفیسران میں سے کوئی ٹس سے مس نہیں ہوگا۔۔
نجیب اللہ شہید نے انصاف کے حصول کیلئے اپنی زندگی دریائے گلگت کی تند و تیز موجوں کی نذر کر دی جس کے بعد تمام ادارے نہ صرف حرکت میں آگئے بلکہ خود کشی کے اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی تمام ملزمان بشمول دو خواتین گرفتار ہو چکی ہیں، نجیب اللہ نے خود کشی کی ہے اور ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دین اسلام میں خود کشی حرام ہے لیکن میں کیا کروں نجیب اللہ کو جاں بحق لکھنے کو دل نہیں مانتا اور اس لئے نجیب اللہ شہید لکھ رہا ہوں، نجیب اللہ کی شہادت کے بعد وزیر اعلیٰ نے انکوائری کے احکامات جاری کر دئیے ہیں، لواحقین سے تعزیت کیلئے گھر بھی جا پہنچے، نجیب اللہ شہید کے بیٹے کو ملازمت دی، تین لاکھ کی مالی امداد کا اعلان کیا، میڈیا میں تعزیتی بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ نجیب اللہ کے دریا میں کود کر زندگی کی بازی ہانے سے پہلے بھی ہو سکتا تھا، گلگت بلتستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ اپنی بیٹی کے اغوا اور اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعے میں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ایک باپ نے موت کو گلے لگا لیا، یہ کہانی صرف نجیب اللہ تک ہی محدود نہیں ہے، اس معاشرے میں ظلم و زیادتیوں کا بازار اس حد تک گرم ہو چکا ہے کہ سورج بھی آگ برسانے لگا ہے، جولائی کے پہلے ہفتے سے لیکر اگست کے پہلے ہفتے تک (30دن) شدید ترین گرمی کے دورانیے کا پہلا تجربہ ہے اور بجلی، پانی کی سہولتوں سے ناپید اس شہر (گلگت) میں اب گٹر ابلنے لگے ہیں اور شہر جہنم کا نظارہ پیش کررہا ہے، ہماری بد اعمالیوں، مذہب سے دوری اور ناچ گانوں کی محفلوں سمیت میلے ٹھیلوں کے انعقاد میں جیسے جیسے تیزی آرہی ہے ہم بحیثیت قوم پریشانیوں، مشکلات، مصائب اور آزمائشوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جسکی وجہ سے انصاف ناپید، قانون کی بالادستی ختم اور بے راہ روی اور بد کاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔۔۔۔
کالم کے اختتام سے پہلے مجھے یہ خبر بھی ملی ہے کہ کے آئی یو تھانے میں لائے ایک مشتبہ نوجوان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اسکی تفصیلات بھی سامنے آئینگی، ایک اور واقعہ جس کا مین خود چشم دید گواہ ہوں وہ یہ ہے کہ کے آئی یو کی ایک طالبہ کی عریاں تصاویر بنا کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، طالبہ نے خود کشی کی کوشش بھی کی تاہم ایک حساس ادارے کے ذمہ دار شخص کی بھر پور معاونت کے بعد یہ کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا اور اس حوالے سے کسی حد تک میں نے بھی کردار ادا کیا، کے آئی یو تھانے اور کے آئی یو کی طالبہ کے حوالے سے اشاروں کنایوں (تفصیلات میں جائیں تو رونگٹھے کھڑے ہوجائیں)میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ کس حد تک بے راہ روی کا شکار ہے اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ دین اور اپنے اپنے عقائد سے دوری ہے، صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی سر توڑ کوشش ہے کہ ثقافت کے نام پر ناچ گانے کی محفلیں عام ہوں اور اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے جس کا تعلق انتظامیہ کی جانب سے ایسی محفلوں کے انعقاد کیلئے کی جانے والی سر توڑ کوششوں سے ہے، گزشتہ روز ہنزہ کے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے، نوجوان مشتعل تھے کہ انتظامیہ بالخصوص ڈپٹی کمشنر ہنزہ بابر صاحب الدین ہنزہ میں پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کے حل میں تو دلچسپی نہیں لے رہے ہیں جبکہ محفل موسیقی اور ناچ گانے کی محفلوں کے انعقاد میں تمام سرکاری وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، نوجوانوں کی مداخلت کی وجہ سے پروگرام کو محدود کر دیا گیا جبکہ پروگرام کے دوران بھی ڈپٹی کمشنر مردہ باد کے نعرے لگتے رہے، یہی صورتحال پورے گلگت بلتستان میں ہے اور زندگی کی سہولیات سے محروم لاکھوں عوام کو رقص و سرور کی محفلوں کی جانب راغب کرنے کیلئے ہزار جتن کئے جا رہے ہیں، میں ہنزہ کے نوجوانوں کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کرتا ہوں کہ بابر صاحب الدین یا کسی اور نے ہنزہ میں ثقافت کے نام پر ناچ گانوں کی محفلیں سجانے کیلئے آگے بڑھنے کی جسارت کی تو ایسے لوگوں (انتظامیہ یا این جی اوز) کی ٹانگیں توڑ دیں،میں تن من دھن سے آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا اور اسی میں ہماری نجات ہے۔۔