تعلیمی جرگہ دیامر: ایک مثبت قدم
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔ تعلیم ہی ہے جو فطرت خدا وندی اور انسانی علمی ورثے کے ذریعے سے ہی شخص کی صلاحیتیوں کو جِلابخشتی ہے اور فرد کو معاشرے میں معتدل و متوازن حیات گزارنے کے قابل بنادیتی ہے۔تعلیم کی کی وجہ سے اجتماعی شعور بہتر ہوتا ہے۔تعلیم ہی تبدیلی کا سب سے موثر اور اہم ٹول ہے۔تعلیم ہی ایک ایسی سیاسی و سماجی اور معاشرتی شعوری سرگرمی ہے جس کی بدولت انسانی معاشرہ اپنی سماجی،ثقافتی، دینی، اخلاقی اور معاشی و عسکری روایات ، آئندہ نسلوں کو بہتر انداز میں منتقل کرسکتا ہے۔تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے فرد کائنات اور خالقِ کائنات کی حقیقت جان لیتا ہے اور پھر مکمل ایقان و ایمان کیساتھ ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل میں بہترین کردار ادا کرتاہے۔
ہم میں سے ہر فرد یہ جانتا ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں اپنی بقاء اور ترقی کے لیے تعلیم کا محتاج اور مرہون منت ہے۔تعلیم ہی وہ واحد راہ ہے جس پر چل کرقومیں اپنی منزلیں پا لیتی ہیں۔تعلیم ہی ہے جو قوموں اور ملکوں کو سخت ترین بحرانوں اور مشکلات سے بچا لیتی ہے۔انسانی زندگی کا ہر پہلو تعلیم سے بھرپور اثر قبول کرلیتا ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے قومی تشخص قائم ہوجاتا ہے۔ جاہل قومیں خاک قومی تشخص پیدا کرلیں گی۔
یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کی تمام قومیں اپنے مزاج، اقتضاء و ضروریات کے عین مطابق نظام تعلیم منضبط کرتی ہیں۔ہمارے ہاں یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ کیاہمارا نظام تعلیم ہماری قومی ضروریات ، احتیاج اور مزاج کے مطابق ہے؟۔سردست یہ ہمارا موضوع نہیں لیکن ہر قوم اور اس کے تعلیمی مفکرین و ماہرین ، حکومتوں اور پالیسی ساز اداروں پر یہ پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قومی ضروریات،دینی وسماجی مزاج، اقتضائے حال اور مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام و نصاب تعلیم تشکیل دیں۔
آج کی گلوبل ولیج میں جو قومیں اور ریاستیں ایک باکمال قومی تشخص کے حامل ہیں وہ بہر صورت میدان تعلیم میں سب سے آگے ہیں۔ان کی ترقی و تعمیر اور استحکام کی سب سے بڑی اور اساسی وجہ تعلیم ہی ہے۔ تعلیم ہی کی وجہ سے کسی بھی قوم کو آج کی عالمی دنیا میں قیادت میسر آتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ عالمی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے اور کیوں ہے۔ اور ہاں تعلیم میں پسماندگی کا شکار قومیں اور سلطنتیں خاک قومی تشخص قائم کریں گی یاقیادت کریں گی۔ان کا حال ہمارے سامنے ہے۔
میں ہمیشہ اپنے طلبہ، والدین، سامعین و قارئین سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ سب سے زیادہ وقت تعلیم کو دیا جائے ، اور سب سے زیادہ انویسمنٹ بھی تعلیم پر ہی کی جائے۔ ایسے افراد، فیملیز،معاشرے اور ملک قیادت کے اہل قرار پاتے ہیں۔
تعلیم ،فلسفہ تعلیم، مقاصد تعلیم، اسالیب تعلیم،اصول تعلیم،ماخذ تعلیم،نظریات تعلیم اور نصاب تعلیم پر بہت ہی مفصل گفتگو کی گنجائش ہے لیکن سردست ہمارا موضوع فورس کمانڈر گلگت بلتستان ڈاکٹر احسان محمود صاحب کا ضلع دیامر میں شروع کردہ ”تعلیمی جرگہ ضلع دیامر” ہے۔
ہم کافی سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جارہی ہے۔ احکامات صادر ہوچکے ہیں۔ انصاف سے بتایا جائے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات جاری کرنے والے ارباب اختیار، بالخصوص وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم اور ایجوکیشن ڈائریکٹر کے اعلی آفیسران نے اس پورے عرصے میں دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے بنفس نفیس کتنے دورے کیے۔کون کون سے گاؤں کا چکر لگایا، کس کس اسکول کے مسائل سنے ہیں؟، کتنے طلبہ و طالبات سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے والوں کو دیامر کے حدود اربع کا بھی علم نہیں۔وہ خاک تعلیمی ایمرجنسی نافذ کریں گے۔کاغذات کی حد تک، محکمہ ایجوکیشن دیامر کو ایک آفیشل لیٹر جاری کرنے اور اخباری بیانات جاری کرنے سے تعلیمی ایمرجنسی نافذ نہیں ہوتی۔
تعلیمی ایمرجنسی اور تعلیمی جرگے کاغذوں کے بجائے عملی اقدام سے منعقد ہوتے ہیں۔جو کام ایجوکیشن منسٹری اور تعلیمی ماہرین کو کرنے کا تھا وہی کام ایک خالص پروفیشنل فوجی کرتا ہے تو دل سے دعائیں نکل جاتی ہیں۔ فورس کمانڈر میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود کا تعلق اگرچہ گلگت بلتستان سے بھی نہیں اور نہ ہی ضلع دیامر سے ہے مگر یہ آدمی اتنا ایکٹیوو ہے کہ ہر مصیبت کی گھڑی پر عوام کے درمیان پایا جاتا ہے۔کاش کہ عوامی نمائندوں کو یہ توفیق ہوتی! گلہ کیا جاتا ہے کہ فوج معاملات میں دخل اندازی کررہی ہے مگر عوامی نمائندے اپنے لازمی فرائض بھی بجا نہ لائیں تو پھر فوجیوں کو ایکٹیوو ہونا پڑتا ہے۔سیاسی امور سے ہٹ کر ”خالص تعلیمی سرگرمیوں” میں فوجیوں کا ایکٹیوو ہونا مفید تر ہے۔
اب تک ضلع دیامر میں امن جرگے اور فساد جرگے ہوا کرتے تھے، ان جرگوں کے قیام اور پرموٹ کرنے کے لیے لاکھوں کروڈوں کا خفیہ انتظامی بجٹ ہوا کرتا ہے۔اس بجٹ کا کوئی ایڈٹ بھی نہیں ہوتا۔انتظامی آفیسران اللے تللوں میں اڑاد دیتے ہیں اور شاید کچھ نوٹ ایبل مضر اشخاص کا جیب بھی گرم ہوتا ہوگا جو ہر وقت فساد اور امن کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ان خود ساختہ خدائی فوجداروں اور انتظامی بھجنگوں سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔آمین
ایسے حالات میں خدا بھلا کرے میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود کا جس نے دیامر میں تعلیمی استحکام اور ارتقاء کے لیے خود اور اپنی پوری ٹیم کیساتھ کمرکس لی۔میدان میں اُتر آئیے۔جب گلگت میں انہوں نے پہلا تعلیمی جرگہ کیا تو مجھے خوش گوار حیرت بھی ہوئی لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ اس تعلیمی جرگے کا حشر بھی ارباب اختیار کی طرف سے شروع کردہ ”تعلیمی ایمرجنسی ” جیسا ہوگا لیکن مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ محبتوں کی زمین وادی گوہرآباد کے ہائی اسکول کے اساتذہ اور ہیڈماسٹر افتخار صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے گوہرآباد کی طرف سے تعلیمی جرگے میں سپاس نامہ پیش کرنے کی آفر کی گئی۔ہائی اسکول کے استاد برادرم عبدالقدوس نے کہا کہ ہم نے اجتماعی فیصلہ کیا ہے کہ ” آپ گوہرآباد کے فرزند ہیں، اس اسکول کے طالب علم رہے ہیں لہذا اس تاریخی پروگرام میں آپ سپاس نامہ نہ صرف پیش کریں گے بلکہ لکھ بھی لیں گے”۔ پھر محکمہ ایجوکیشن دیامر کیساتھ رابطہ کروایا گیا۔ دیامر انتظامیہ نے مجھے تعلیمی جرگے کے اغراض و مقاصد اور شیڈول سے آگاہ کردیا۔تب ایک سپاس نامہ لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا گیا جو بہت سراہا گیا۔ڈپٹی کمشنر دیامر اور متعلقہ اداروں نے ایک لفظ میں بھی ترمیم کیے بغیر من و عن منظوری دی اور احقر کے لکھے سپاس نامے کو انتہائی وقعت دی گئی۔پھر فیصلہ ہوا کہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی میں انجام دوں جس کے لیے مجھے خصوصی گوہرآباد جانا پڑا۔
بہت ہی کم وقت میں فورس کمانڈر اور ان کی ٹیم نے محکمہ ایجوکیشن کی معیت میں ضلع دیامر کے دور دراز علاقوں میں درجن بھر تعلیمی جرگوں کا انعقاد کیا۔بالخصوص دور دراز اور پسماندہ علاقے، گوہرآباد،گونرفارم، تھک نیاٹ، بٹوگاہ، گینے، کھنر،تھور، ہوڈر، داریل تانگیر، کھنبری اور ڈوڈویشال کے علاقے شامل ہیں جہاں فورس کمانڈر اپنی ٹیم کیساتھ تشریف لے گئے۔ ان علاقوں کے عوام ، عمائدین، ماہرین تعلیم اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ گھل مل گئے۔ان محب وطن غریب پاکستانیوں نے اپنے فوجی بھائیوں کا جس انداز میں استقبال کیا وہ بھی از خود ایک تاریخی واقعہ ہے۔ فورس کمانڈر نے اساتذہ اور طلبہ کو اپنے گلے سے لگایا، انہیں ایوارڈ، سوینئر اور بیگ اور کاپیاں گفٹ کی۔ضرورت مند اسکولوں کو نقد رقم دی اور انہیں مشکلات میں مزید مدد کرنے اور ہر قسم کا انتظامی تعاون دلانے کی یقین دھانی بھی کروائی۔
دیامر کی تاریخ میں اساتذہ کی اتنی عزت افزائی کبھی نہیں ہوئی۔ان پروگراموں میں سینکڑوں اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو ایوارڈ دیا گیا اور ان کی خدمات کو علی الاعلان سراہا گیا۔ کاش ایسی ایکٹویٹیز محکمہ تعلیم کے احباب کرتے ۔ لیکن خیر
میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود صرف ایک فوجی نہیں بلکہ ایک بہترین ماہر تعلیم، ریسرچر اور استاد بھی ہیں۔اس پر مستزاد ایک انسانیت نواز شخص ہیں۔ ہیومن سیکورٹی پر پی ایچ ڈی کی ہے اور ڈیفنس یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے ہیں۔ہیومن سیکورٹی پر مشتمل ان کا تحقیقی مقالہ تین سو صفحات پر مشتمل ہے ۔انسانی حفاظت کا ہر پہلو زیر بحث آیا ہے۔یقینا پڑھنے کے لائق کتاب ہے ۔اس کتاب کے مطالعے سے انسان کی حفاظت و عظمت پر مزید یقین پختہ ہوجاتا ہے اور علم میں بھرپور اضافہ بھی۔
گوہرآباد کے تعلیمی جرگے کے لیے سپاس نامہ اور اسٹیج سیکریٹری کے فرائض کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی۔ مجھے ان کا صدارتی خطبہ سن کر بہت ہی خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی بڑھا۔گوہرآباد کو گلگت بلتستان کا اسلام آباد قرار دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ گوہرآباد کے لوگ تعلیمی جرگے کے محتاج نہیں تھے اور نہ ہی ان کی ضرورت تھی لیکن میں ان کی محبتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا اس لیے باقاعدہ آغاز بھی گوہرآباد سے ہی کیا۔آج تک دیامر میں امن کے جرگے ہوتے رہے لیکن ہم نے سوچا کہ تعلیم کا جرگہ بھی منعقد کیا جاوے۔ اس لیے آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔ تعلیم فرض ہے لہذا فرض جتنا اہمیت دیجیے۔ تعلیم حاصل کرنا واجب، سنت یا نفل ومستحب نہیں اس لیے اس میں کمی کوتاہی اور کنجوسی کی گنجائش بھی نہیں۔ فرض سے کسی طور چھٹکارا نہیں تو تعلیم سے بھی فرار اور کمزوری بھی کسی طرح جائز نہیں اور نہ ہی قابل برداشت ہے۔”
کمانڈر صاحب کا یہ بھی ماننا ہے کہ ”گوہرآباد اور دیامر کے لوگ بالخصوص محب وطن ہیں۔ان کی ملک و ملت کے لیے خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔مجھے ہر ہر گاوں میں ان کی پاکستانیت کا احساس ہوا ہے۔غریب سے غریب آدمی اور بچوں تک پاکستان کے لیے قربانی دینا فخر سمجھتا ہے۔پاکستان آرمی کو اپنی سرحدوں کا واحد محافظ سمجھتا ہے۔دیامر والوں کی پاکستان سے محبت بے لوث ہے جس میں کسی لالچ اور طمع کا شک تک نہیں گزرتا۔لاریب ایسے لوگ ملک کے اثاثے ہوتے ہیں۔پورا دیامر ہر اعتبار سے پاکستان کا اثاثہ ہے جس پر پاکستان اور پاکستان آرمی کو فخر ہے”۔
فورس کمانڈر کے احساسات، خیالات اور اقدامات کو دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ ایک خالص فوجی انسان تعلیمی گہرائیوں میں کتنا ڈوبا ہوا ہے ۔ساتھ ہی یہ خیال بھی دُر آیا کہ جو لوگ کسی ٹریجڈی یا نوکری کے لیے تعلیم یا محکمہ تعلیم میں وارد ہوئے ہیں وہ کیونکہ کر تعلیم اور مقاصد تعلیم پر اپنا وقت ضائع کریں یا انرجی صَرف کریں۔ وہ تو بس تنخواہ کی حد تک تعلیم جیسے مقدس شعبے سے منسلک ہیں ، ورنا انہیں اگر کوئی چھوٹی سی انتظامی پوسٹ بھی دی جائے تو وہ فورا تعلیم و تربیت اور تدریس جیسے مقدس پیشے اور محکمے کو خیرباد کہہ دیں۔ہمارے ہاں تو تدریس کے مقابلے میں عارضی انتظامی پوسٹ میں اٹیچمنٹ پر کام کرنے کے لیے بھی باقاعدہ دھینگامشتی ہوتی ہے جو قابل مذمت ہے۔
ضلع دیامر میں شرح خواندگی ہوشربا حد تک افسوس ناک ہے۔خواتین ایجوکیشن کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ مردوں کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ مردوں میں پندرہ اور بیس فیصد کے درمیان پائی جانے والی شرح خواندگی سے جدید دور کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی جدید چیلنجز سے نمٹاجاسکتا ہے۔ملک بھر میں ضلع دیامر شرح خواندگی کے اعتبار سے انتہائی کم درجے پر کھڑا ہے۔شاید 113 ویں نمبر پر دیامر کا نام آتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے نام پر قوم کو بے قوف بنایا گیا اور شاید بہت سارا فنڈ بھی ہڑپ کیا گیا۔
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ غذا کے بغیر جسم مرجائے گا مگر تعلیم کے بغیر روح اور پورا سماج مرجائے گا۔میں علم کا دلدادہ ہوں اور معرفت کا متلاشی۔ یہی میری تاریخ بھی تھی مگر میں اب علم و معرفت دونوں سے کوسوں دور ہوں۔ آہ! علم، ادب اور معرفت، آپ کی تلاش میں صدیاں گزرگئی ہیں۔تجھے اب میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔گذشتہ پانچ صدیوں سے ”تو” لاپتہ ہے۔اس سے قبل پوری مغربی دنیا علم و معرفت کے لیے تیرے در پر حاضری دیتی تھی۔ مگر اب اسلامی دنیا تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پھر رہی ہے۔
اے علم! اے میرے محبوب! شاید میرے تیرے درمیان حالات ٹھہر گئے ہیں۔میرا ہر لمحہ تیری جدائی اور فراق و ہجر میں گزررہا ہے۔ مگر یہ کیسا ہجر ہے، یہ کیسی جدائی ہے، یہ کیسا فراق ہے کہ اس میں ہجر و فراق اور جدائی کا کوئی غم نہیں اور نہی ہی تڑپ ہے۔یہ فصل بھی کیا فصل جس میں کرب ہی نہیں۔
میں اس دکھ اور غم کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہوں۔”کاش! میرے پاس یہ طاقت ہوتی کہ میں جو کہتا، جو سوچتا اور جو سمجھتا وہی ہو بھی جاتا، اے کاش! پھر تو میں تیرے غم اور جدائی و ہجر کو اپنے وجود سے بہت دور پھینکتا ، اتنا دور کہ اس جدائی کو کہیں دھکیل ہی دیتا۔”
محبتوں کی زمین وادی گوہرآباد میں فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود اور دیگر معزز مہمانوں کے اعزاز میں جو سپاس نامہ تحریر کیا تھا وہ پڑھ کر سنایا گیا ،قارئین کے استفادے کے لیے یہاں پیش کیا جاتا ہے ،ملاحظہ ہو۔
جناب فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود صاحب
اور دیگر تمام معزز مہمانان گرامیبالخصوص عمائدین گوہرآباد،
میرے اساتذہ کرام اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے صاحبان علم
میرے عزیز طلبہ ساتھیو!
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام عقیدت و محبت قبول کیجیے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جناب عالی!
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم ،ملک، علاقہ یا وادی کی زندگی میں کچھ دن یادگار ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک منفرد اور ممتاز دن محبتوں کی سرزمین وادی گوہرآباد کو آج (14 اکتوبر 2019) میسر آیا ہے جہاں گوہرآباد کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک علمی شخصیت جو کہ پورے گلگت بلتستان کا سپہ سالار ہیں ، اپنے رفقاء کیساتھ تشریف فرما ہیں۔
جناب والا: آپ کی موجودگی ہمارے لیے باعث صدافتخار ہے۔
جناب کمانڈر صاحب
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے اور میری ذاتی دلچسپی ہے اور معلومات بھی کہ
آپ ایک خدا ترس شخصیت ہیں۔
قرآن اور اہل قرآن سے محبت آپ کی زندگی کا جزلاینفک ہے
علم پرور ہیں
انسان دوست ہیں۔
مریضوں اور زخمیوں کا معاون ہیں۔
معذروں کا سہارا ہیں۔
مقہوروں کا حامی ہیں۔
قلم کاروں کا قددردان ہیں۔
استادوں کا رفیق ہیں
غریبوں کا ہمجولی ہیں
ملک و ملت کا محافظ ہیں
نگہ بلند
تخیل نرالا
بس آپ کے اعزاز میں صرف یہی کہونگا
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
جناب فورس کمانڈر صاحب
آپ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ اپنی ٹیم کیساتھ تشریف لائیے ہیں۔آپ کا دل اپنے بھائیوں کی لیے ہر وقت دھڑک رہا ہوتا ہے۔ آپ بس صرف محبتوں کے قائل ہیں۔ ہم اس محبت بھری محفل میں اپنی محرومیاں، مسائل اور پریشانیوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتے ۔
تاہم جناب ڈاکٹر صاحب
آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی اور دستور بھی
ہم آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند اہم باتیں /گزارشات اس نیت سے آپ سے اور آپ کی توسط سے دیگر ارباب اقتدار اور صاحبان بست وکشاد سے شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ میرے لیے بھی ذاتی طور پر اعزاز کی بات ہے کہ میں اس گوہرآباد ہائی اسکول کا خوشہ چیں یعنی طالب علم رہا ہوں اور آج میرے اساتذہ اور اسکول انتظامیہ نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ آپ صاحبان علم و دانش اور بست و کشاد کی خدمت میں ایک مختصر سپاس نامہ پیش کروں۔
جناب صدر ذی وقار
یہ بات آپ کی علم میں لاتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کررہا ہوں کہ
28 ہزار مربع میل پر پھیلے اس پورے گلگت بلتستان میں گوہرآباد ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ گاوں کی سطح پر پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ
حفاظ قران کریم
سب سے زیادہ مستند اداروں سے فارغ التحصیل علماء کرام اور دینی مدارس کی فاضلات
اور سب سے زیادہ ججز صاحبان، وکلاء، پروفیسرز،انجیئنرز، ڈاکٹرز،اسکول کے اساتذہ اور انتظامی آفیسرز گوہرآباد سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔یہی ہماری علم دوستی کا بین ثبوت ہے.
جناب کمانڈر صاحب
ہمارے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ ہمارے بہت سارے سپوتوں نے پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ
ملک و ملت کی حفاظت کے لیے مختلف محاذوں پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور شہادت کے عظیم رتبے سے سرفراز ہوئے ہیں۔
یہ میرے نوجوانوں کا اعزاز ہے۔ ان کے لیے بس اتنا کہونگا
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
لیکن عالیجاہ
انتہائی دکھ کیساتھ آپ سے شیئر کیے بغیر رہ نہیں پاتا کہ
علم و عمل کی وادی گوہرآباد سے پاکستان آرمی میں نان کمشنڈ آفیسرز اور سپاہی کی بڑی تعداد ہے اور بہتوں نے جان کا عطیہ بھی پیش کیا
باوجودیکہ پاکستان آرمی میں آبادی اور تعلیم کے اعتبار سے گوہرآباد کے کمیشنڈ آفیسرز یعنی میجر، کرنل، برگیڈیر،میجر جنرل اور لیفٹننٹ جنرل کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ہمارے لیے دکھ اور پریشانی کا مقام ہے۔
آخر کیوں۔۔طویل سوچ و بچار کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ اس طویل عرصہ پاکستان آرمی اور گوہرآباد کا تعلق بہت کمزور رہا،یعنی گوہرآباد پاک آرمی کے توجہ سے محروم رہا۔ ہاں مگر اس محرومی کو ختم کرنے کی ایک بہترین صورت کیڈیٹ کالج ڈرنگ کی شکل میں نکالی جاچکی ہے،جس کے لیے گوہرآباد کی عوام نے دل کھول کر ہزار کنال مہنگی ترین اراضی گفٹ کی ہے۔کیڈٹ کالج کے قیام پر ہم بالخصوص صوبائی حکومت اور پاک آرمی کے ممنون و مشکور ہیں۔کیڈیٹ کالج ڈرنگ کا کافی کام ہوچکا ہے لیکن تعمیرات کی تکمیل کے لیے فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام تعطل کا شکار ہے۔فوری فنڈ کی منظوری دے کر تعمیرات مکمل کرکے ایک سال کے اندر کیڈیت کالج کے پورے سسٹم کو چلا س سے ڈرنگ شفٹ کیا جاوے۔
جناب صدر محفل
گوہرآباد کے منجملہ عوام، عمائدین، والدین اور طلبہ کی طرف سے ایک انتہائی اہم گزارش آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے کہ:
ہائی سکول گوہرآباد کی کئی کنال اراضی ہے اس میں پاکستان آرمی کی طرف سے ایک آرمی پبلک اسکول،ہاسٹل اور بہترین لائیبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں گوہرآباد کے غریب عوام کے بچے علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہوکر پاکستان آرمی جوائن کریں اوراپنا ٹیلنٹ ، اپنی صلاحتیں اور محبتیں پاکستان اور پاکستان آرمی پر نچھاور کرسکیں۔
جناب عالیجاہ
فیڈرل بورڈ کا سنٹر ہائی سکول گوہرآباد میں ہونا از حد ضروری ہے تاکہ گوہرآباد کے طلبہ و طالبات میٹرک کے ایگزام کے لیے دور دراز علاقوں میں دربدر نہ ہوں۔
گوہرآباد پل انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے ، آرسی سی پل گوہرآباد کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔
گوہرآباد ہسپتال کی عمارت تقریبا مکمل ہے۔ ڈاکٹرز،دیگر عملہ اور ضروریات کیساتھ فوری اجراء از بس ضروری ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہتر نظام،سردست انٹرکالج کا قیام بہت ضروری ہے
طلبہ و طالبات کی سہولت کے لیے کسی شیڈول بینک کی برانچ
فوری طور پر فور جی کا اجراء، تاکہ کمیونکیشن میں خلا نہ رہے۔
KKHتھلیچی سے گوہرآباد سینٹر تک لنک روڈ منظور کیا جائے جس کی مسافت ٢٠ منٹ بنتی ہے۔اس روڈ کی وجہ سے گلگت سے گوہرآباد آنے والے مسافروں کا ڈیڑھ گھنٹہ بچ سکتا ہے ہے۔اس کے لیے ایفاد کو بھی متحرک کیا جاسکتا ہے۔
جناب عالی
یہی چند گزارشات تھی۔جو آپ اور تمام معزز مہمانوں کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔امید ہے کہ امیدیں بھرآئیں گی۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
گوہرآباد کے طلبہ وطالبات، اساتذہ کرام، نمبردارن، اور جملہ عمائدین اور ماوں بہنوں کی طرف سے آنجناب کی خدمت میں یہی دو اشعار پیش کرنا چاہونگا:
ممکن نہیں کہ عشق ہو اور دل حزیں نہ ہو
میرا ہی حال دیکھ لیں جسے یقین نہ ہو
دل کے ٹکڑے ، خاک پروانوں کی، آنسو شمع کے
کچھ نہ کچھ لے کر اٹھیں گے آپ کی محفل سے ہم
اور اسی شعر کے ساتھ اجازت چاہونگا:
انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کے تیرے دل میں اترجائے میری بات
پاکستان تابندہ باد، پاک فوج زندہ باد، گوہرآباد زندہ باد، وماعلینا الاالبلاغ
میری فورس کمانڈر اور ان کی ٹیم بالخصوص کرنل اسٹاف جناب حبیب اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ تعلیمی جرگے کو باقاعدہ ایک پروجیکٹ کا شکل دیں اور منسٹری آف ایجوکیشن گلگت بلتستان کیساتھ مل کر اس پروجیکٹ کو پورے گلگت بلتستان میں لاونچ کریں۔اس پروجیکٹ کا دورانیہ کم از کم پانچ سال ہو۔اہداف و مقاصد طے ہوں۔فنڈ رائزنگ کی پوری ڈیٹیل موجود ہوں۔اگر خلوص دل اور مکمل ایمانداری کے ساتھ اس پروجیکٹ کو لانچ کیا گیا اور ایک ٹرانسپیرنٹ سسٹم متعارف کروا کر، آرمی اس پروجیکٹ کی خود نگرانی کریں تو بعید نہیں کہ مخیر حضرات اور این جی اوز اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش نہ کریں۔میں جانتا ہوں کہ آج بھی مغربی دنیا کے مخیر حضرات پاکستان کی سول انتظامیہ سے مکمل شاکی ہے۔تعلیم اور دیگر تعمیراتی پروجیکٹس کی مد میں کروڈوں ڈالر دیے جاتے ہیں مگر یہ رقم اصل حقدار تک نہیں پہنچ پاتی۔ہمارا تو المیہ ہی یہی ہے کہ ہم یتیموں کا مال تک ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ جس طرح دیامر کے دور دراز علاقوں کے غریب طلبہ و طالبات پاک آرمی کی توجہ کے مستحق ہیں اسی طرح پورے گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں کے وہ ہزاروں بچے بھی محکمہ تعلیم اور پاک آرمی کے سپورٹ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ہمارے ہاں منسٹری آف ایجوکیشن اور ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ کے لوگ ان مقہور و مجبور طلبہ و طالبات اور پرائمری سطح کے اسکولوں کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔وہ تو بڑی ڈگری کالجز کا وزٹ تک کرنے کو معیوب سمجھتے ۔جب کبھی یہ حضرات وزٹ بھی کریں تو طلبہ و طالبات اور اساتذہ کے مسائل سننے، حل کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انہیں دھمکانے اور دور دراز ٹرانسفر کرنے کا مژدہ سنا کر چلے جاتے ہیں۔یہ حضرات بس اپنی دفتروں میں دبکے رہنے کو گوشہ عافیت سمجھتے۔ایسے میں ایک خالص عسکری شخص کا ہرہر گاوں پہنچنا، ماہرین تعلیم، اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات سے گھل مل جانا، انہیں شیلڈ اور ایوارڈ سے نوازنا، کاپیاں اور کتابیں دینا، مستحق اسکولوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر فنڈ کا اعلان کرنا یقینا تعلیمی انقلاب کا باعث بنے گا۔
اب کوئی صاحب مجھ پر الزام نہ لگائے گا کہ میں کسی شخص یا آرمی کا مداح بن گیا ہوں۔میں تو ہر اس انسان کا مداح بننے کے لیے تیار ہوں جو میرے دیامر میں تعلیمی ریفامز کے لیے کچھ بھی عملی اقدام کرتا ہے۔سچ کہوں تو تعلیم ومعرفت میرا عشق ہے۔ محبت ہے اور جنون بھی۔کون نہیں جانتا کہ محبت اور عشق میں انسان کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔پاکستان آرمی تو پھر بھی میرا اپنا ادارہ ہے اور میری پہچان بھی۔بلاشبہ پورے پاکستان کو اس ادارے پر فخر ہے۔
اے تعلیم! تیرے نازک ہاتھوں اور خوبصورت رخساروں کی قسم! میں تیری روح سے، تیری کُل سے، تیری جز جز سے محبت کرتا ہوں۔میری محبت میں مکمل انفرادیت ہے۔میرے خلوص میں کامل عجز ہے۔خلوص و محبت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور جملوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔تعلیم و معرفت سے میری محبت سدا بہار بھی ہے جواں سال و اور جواں دم بھی۔میں اس پر کسی صورت کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں۔
میں نے تو ان لوگوں کی بھی تحسین اور تعریف کی ہے جنہوں نے دیامر میں تعلیم کے لیے تھوڑے کچھ اقدامات کیے ہیں اگر چہ ذاتی طور پر انہوں نے مجھے سخت تکلیف پہنچائی تھی۔میں نے ان لوگوں کو بھی دیامر میں تعلیم و ہنر کے لیے بار بار پکارا ہے۔ تحریر کے ذریعے پکارا، تقریر کے ذریعے پکارا اور ذاتی ملاقاتیں کرکے پکارا ، جو میرے ہم مسلک و مشرب اور علاقہ بھی نہیں۔تو میں پاک آرمی کو کیوں نہ ویلکم کہوں جو میرے دکھ درد بانٹنے کے لیے میرے گھرتشریف لاتی ہے۔
میں پولٹیکل سائنس کا طالب علم ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ جنرل صاحب پروایکٹیوو ہیں۔اگر سیاسی زعماء تعلیم کے لیے اتنی سرگرمیاں دکھاتے تو شاید جنرل صاحب کو گھر گھر پہنچنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔انہوں نے ضلع دیامر کو مسلسل نظرانداز کیا مگر جنرل صاحب نےلوگوں کی محرومیوں کا بروقت اندازہ لگایا اور حوصلہ افزائی اور ہمدردی کے لیے بنفس نفیس پہنچ گئے۔اور حتی المقدور مدد بھی کی اور دیامر کے عمائدین ، انتظامیہ اور ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کو ایکٹوو بھی کیا ۔یقینا یہ سب ان لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے جو علاقے کے سیاسی نمائندے ہیں اور جی بی کے منتظمین بھی ۔جنرل احسان محمود اوراس کے رفقاء تو کچھ عرصے میں ٹرانسفر ہوکر چلے جائیں گے مگر یہ طے ہے کہ انہوں نے دیامر اور پورے گلگت بلتستان میں پیار و محبت اور تعلیم کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو بہت دیر تک یاد کیے جائیں گے۔دیامر کے موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر اللہ اور ان کی ٹیم بھی کافی ایکٹیوو ہے۔ان کی سرگرمیاں کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔خدا ہم میں سے ہر ایک کو تعلیم و تعلم اور پیار و محبت کے لیے پروایکٹیوو ہونے کی توفیق عطا کرے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو