کالمز

ماحولیاتی بے خبری اور موسمیاتی جنگ (قسط دوم)

 تحریر: دیدار علی شاہ

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں گلیشئیرزتیزی کے ساتھ پگل رہے ہیں مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ایریزونا یونیورسٹی میں سائنسدانوں کے ایک گر وپ نے پاکستان میں گلیشئیرز پر تحقیق کی ہے۔انھوں نے پچھلے 50برسوں میں قراقرم اور ہندوکش کے گلیشئیرز میں ہونے والے تبدیلیوں کا ڈیٹا اکھٹا کر کے اس پر تحقیق کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کی پہاڑی چوٹیوں پر واقع گلیشئیرز باقی دنیا کے گلیشئیروں کے برعکس بڑھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان گلیشئیرز میں تقریباً تین ہزار سے زائد جھیل موجود ہے۔جن میں سے 33کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔موسمی تبدیلی کے باعث اگر ان جھیلوں میں کسی قسم کی تبدیلی آگئی تو گلگت بلتستان اور کے پی کے میں 70لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ماحولیاتی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ کرہ ارض پر درجہ حرارت میں اضافے کی صورت میں پاکستان جو کہ گرم خطہ میں واقع ہے شدید گرمی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔اور اس پورے خطے میں ایک ارب پینسٹھ کروڑ افراد متاثر ہوں گے۔ جس میں خاص کر افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال، اور پاکستان شامل ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں عوامی اور حکومتی دونوں سطح پر ماحولیاتی تبدیلی عدم توجہی کا شکار ہے۔ہمارے ملک میں یہ بات عام ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہمارا مسئلہ نہیں ہے جو کہ غلط ہے۔اس ملک میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ اسکول، کالج میں بھی آگاہی مہم ناگزیر ہے۔تاکہ ان کے علم میں یہ بات آجائے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے کیونکہ ایک درخت سالانہ پچیس کلو کاربن ڈائی استعمال کرتا ہے۔پلاسٹک کے استعمال سے گریز کرے۔زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کی کوشش کرے تاکہ گاڈی کے فیول کم سے کم استعمال ہو۔اب یہ ضروری ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی معاشرتی تبدیلیاں اپنا ئیں،جن سے ماحولیاتی تبدیلی کو کم کیا جاسکے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکے۔

پاکستان بین الاقوامی سطح پر 2015کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق متعددمعاہدوں کا فریق ملک ہے۔اور دوسری طرف اس ملک میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے EPAنہ فعال ہے اور نہ کھبی ان قوانین پر عملدرآمد کی ہے۔

پاکستان میں اب صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کے لئے بنائے گئے عالمی قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ازسرنوجائزہ لے کر پالیسی بنانا ناگزیر ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ کے لئے کچھ سال پہلے دنیا کے150سے زائد ممالک نے ہائیڈرو فلورو کاربن، یعنی گرین ہاوس گیس، ہائیڈروجن،فلورین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کومحدود کرنے کے لئے معاہدہ کیا ہے۔ کیونکہ یہ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ ہے۔اس معاہدے کے مطابق مختلف ممالک کے لئے تین الگ الگ طریقہ کار واضع کیا گیا ہیں۔پہلے معاشی طور پر مضبوط ممالک جس میں یورپ اور امریکہ شامل ہے، وہ ایچ ایف سی گیسوں کے استعمال کو چند سالوں کے اند 10فیصد کم کرئیں گے۔

دوسرے چین، لاطنی امریکہ،اور جزیر ہ نما ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 2024 تک ایچ ایف سی گیسوں کو مکمل طور پر بند کردیں۔

پھر آخر میں وہ ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان، انڈیا، ایران، عراق اور خلیجی ممالک شامل ہے 2028تک ان گیسوں کو ترک کرنے کو کہا گیا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دنیا پیرس معاہدے میں طے پانے والے اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کو ان خطرناک گیسوں کے اخراج میں فوری کمی لانا ہوگا۔

ہمارے ملک پاکستان میں عموماًیہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہمارا مسٗلہ نہیں ہے بلکہ یہ مغرب کا مسٗلہ ہے۔ اس کی وجہ آج تک یہاں پر نہ آگاہی ہوئی ہے اور نہ بہتر طریقے سے نصاب کے اندر شامل ہے۔آگاہی کے لئے ضروری ہے کہ ان کو سمجھایا جائے کہ ایک سروے کے مطابق کراچی، سندھ اور پنجاب میں کئی سالوں سے آنے والے گرمی کی لہر سے اب تک پانچ ہزار افراد کی موت اسی ماحولیاتی تبدیلی سے ہوئی ہے۔اور ساتھ ساتھ برف باری میں کمی، دریاوں میں پانی کی کمی، زرعی پیداوار میں کمی، پھلوں کے پیداوار میں کمی اور گلیشرز کا آہستہ آہستہ پگلنا، اگر گلگت بلتستان میں موجود یہ گلیشرز تیزی کے ساتھ پگل گئیں تو ہمارے ملک پاکستان خشکی میں تبدیل ہوجائے گا۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں صرف30 دن کا پانی ذخیرہ کیاجاسکتا ہے۔آئی ایم ایف اور یو این ڈی پی کے ایک رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔

پاکستان میں لوگوں کے اندر ماحولیاتی آلودگی سے متعلق شعور اجاگر کر کے کچھ ایسے تدابیر ہے جسے اپنا کر ملک کو کسی حد تک ماحولیاتی تبدیلی سے بچایا جاسکتا ہے۔جس میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے، ماحول دوست مشینوں اور ذرائع آمدورفت کو فروغ دیا جائے، فیول اور ڈیزل کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے، کھادوں کے زیادہ استعمال کو کم کیا جائے، زراعت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لئے آبپاشی کے طریقوں کو موثر بنایا جائے، صنعتوں سے نکلنے والا دھواں اور فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے، جنگلات کے کٹاو کو کم سے کم کیا جائے، بجلی بنانے کے طریقوں کو موثر، کم قیمت اور ماحول دوست بنایا جائے، کوڑا کرکٹ کو جلانے سے پرہیز کیا جائے، چیزوں کی ری سائیکلنگ کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے، پانی کے ضیاع کو روکا جائے اور ماحول دوست انرجی کے ذرائع کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔

یوں تو دنیا ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمینگ کو روکنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے مگر دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک اس کے برعکس کام بھی کر رہے ہیں۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے مطابق دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کی جا چکی ہے جو موسم کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ زلزلہ پیدا کر سکتا ہے، اور سیلاب کی صورت حال بھی پیدا کرسکتاہے۔ایسے مصنوعی طریقے استعمال کر کے اسے ہتھیار بنا

کر اپنے دفاعی مقاصد حاصل کرنا غیر قانونی ہوگا۔ان تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ دنیا میں قدرتی وسائل سمت پانی پر قبضہ کرنے کی کوشش کرئیں گے اور یہ تیسری جنگ عظیم موسمی جنگ ہوگی۔ ختم شُد

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button