فیچرکالمز

جنت نظیر پھنڈر میں زیر زمین پھلتا پھو لتا ما حو لیا تی طو فان

فیچر سٹو ری: فدا علی شاہ غذریؔ

یہ وادی یوں تو خو ش منظر بہت ہیں
نصیبوں میں مگر پتھر بہت ہیں

گلگت بلتستان کی دلکش اور حسین وادیوں کی محبت میں گرفتار کسی شاعر نے شاید حسین و جمیل وادی پھنڈر کے لئے یہ شعر کہا ہو گا جو با لکل اس وادی کی حالات زار کی خو ب منظر کشی کر تاہے۔ کرہ ارض پر مو جود گلگت بلتستان کی یہ وادی کسی با کمال مصور کی تخیلا تی کما لات کا مظہر لگتی ہے اور ہر دیکھتی آنکھ یقین کر نہیں پا تی کہ اتنی خو بصورت شاہکار بھی کو ئی تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن یہ وادی کسی انسا نی تخلیق یا تخیل کا مظہر ہر گز نہیں بلکہ”یا مصورُ“ کی ایک اعظیم شا ہکار ہے جو اپنی کمال ِ قدرت کو انسانوں پر عیاں کر تا ہے۔

سیا حوں کی جنت وادی پھنڈر قدرتی حُسن سے ما لا مال ہے اور ہر آئے روز سیا حت اورسیا حوں کی منزل بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ یہ خو بصورت وادی پہلی نظر میں با لکل ایک خیا لی فن پا رے کا روپ دھا ر لیتی ہے جو کما ل مہارت سے کسی کا غذ پر اُتارا گیا ہو لیکن جوں ہی گمان کی آ نکھ یقین کا منظر سمو لیتی ہے تو انسا نی آ نکھیں اس کے حسین نظاروں سے خیرہ ہوکر رہ جا تیں ہیں۔ قیا س کیا جا رہا ہے کہ آ ج سے سینکڑوں سال پہلے پھنڈر ایک خو بصورت جھیل کی شکل میں مو جود تھا اور اسی جھیل کی وجہ سے ہی اس کا نام پھنڈر پڑ گیا۔”پھن“ کھوار زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہتھیلی کا ہے اور ڈار بھی اسی زبان میں گہرے پا نی کے لئے استعمال ہو تا ہے اگر ہم ان دونوں لفظوں سے وجود پا نے والے ”پھنڈر“ کے معنی دیکھے تو وہ ہتھیلی کی طرح گہر ے پا نی کے معنی دیتا ہے۔

نام کی وجہ تسمیے سے یہ قیاس یقین میں بدل جا تا ہے کہ یہاں بسنے والے مکینوں کی را ئے اور معلومات درست ہیں۔ بزرگ فر ما تے ہیں کہ اس وادی کا مو جودہ روپ اس کا تیسرا روپ ہے جب وہ خو بصورت جھیل خشک ہوا تو یہاں نہایت گھنا جنگل اُگ آیا تھا اور مقا می آبادی جو دالو مل اور سیر بل میں آباد تھیں، اُس جنگل سے مستفید ہو رہی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ مقامی آبادی جنگل سے بہت تنگ آچکی تھیں کیونکہ مختلف انواع کے درندہ صفت جنگلی جانور لو گوں کے مال مو یشیوں کے لئے خطرہ ثا بت ہو ئے تو لو گوں نے جنگل کو ختم کر نے کے لئے مختلف حر بے استعمال کر نا شروع ہو ئے حتی کہ کسی ایک بزرگ کے قیام پر ان سے اس جنگل کے بارے شکا یت کی گئی کہ کس طرح جنگل اُ ن کے لئے وبال جان بن چکا ہے۔ لوگوں کے اسرار پر بزرگ نے دعا مانگی اور وہ جنگل آہستہ آہستہ ختم ہو نا شروع ہوا اور یوں پھنڈر اپنا تیسرا روپ د ھار لیا اور قرب و جوار کے اونچے مقا مات دالومل اور سیر بل سے لوگ یہاں آکر آباد ہو گئے۔

وادی پھنڈر اپنے تیسرے روپ میں دنیا بھر میں مشہور بھی ہوا اور محبت کی وادی بن کر اپنی خو بصورتی سے شہروں سے اُکتا ئے ہو ئے چہروں کو فر حت بخشتی ہے اور ڈھیر ساری محبتیں بانٹ اور سمیٹ رہی ہے۔ اس کے دلدادے سیاح جہاں تین مو سموں بہار، گر ما اور خزان کے منا ظر سے خوب محظوظ ہو تے ہیں تو وہاں اس کے چو تھے موسم یعنی سر ما میں یہاں کے مکین مو سم کی سر د مہری سے پناہ ما نگ رہے ہیں۔ اسی اثنا مجھ سمیت کچھ مکین وادی پھنڈر کے چو تھے روپ سے نہا یت خا ئف اور پر یشان ہیں کیو نکہ نیک خواہوں اور سیا حوں کو ظا ہری منا ظر اتنے بھا جا تے ہیں کہ ظا ہری آ نکھ وادی میں سر اُ ٹھا تے کسی بھی ما حو لیاتی یا مو سمی تغیر اتی عمل سے متوقع مسا ئل پر تو جہ مر کوز نہیں کر پا تی جبکہ مستقل رہا ئشی مکینوں کی نظر نو مبر کے وسط سے مارچ تک سرد و سخت لمحوں کی تیا ری پر مر کوز رہتی ہے اور اسی طرح پھنڈر چپکے چپکے اپنا چو تھا روپ دھار رہا ہے جو کہ ایک انتہا ئی ہیبت ناک روپ ہے۔آج کی نشست میں پھنڈر کے ممکنہ روپ پر گفتگو کر تے ہیں۔


وادی پھنڈر میں زیر زمین ایک ما حو لیاتی طو فان سر اُ ٹھا رہا ہے جو مستقبل قریب میں قرب و جوار کی آبادی کے لئے بھی درد سر بنے گا اور تقر یباً تیرہ ہزار نفوس اس طو فان سے براہ راست متا ثر ہو نگے۔ بظاہر ما حو لیاتی و مو سمیاتی تغیر کے اثرات و محر کات اور ممکنہ حل کی طرف ما ہرین کا دھیان بھی ہے اور دنیا بھر میں ما حو لیاتی پیچد گیوں کے حوا لے سے مفکرین، دا نشور اور سا ئنس دان پر یشان بھی، وہ ہماری زمین کو ان تغیرا تی مشکلات سے نکا لنے کے لئے سر جو ڑ رہے ہیں۔ ہمارا ملک پا کستان دنیا کے اُن دس مما لک میں شامل ہے جہاں ما حو لیاتی پیچد گیاں سر اُ ٹھا چکے ہیں لیکن حقیقت پسندانہ تجز یئے سے یہ بات سا منے آتی ہے کہ ما حو لیاتی مسا ئل اور پیچد گیوں پر سر کاری، غیر سر کا ری،سماجی تنظموں اور مقامی لو گوں کا تو جہ کم جبکہ خطرات کا حجم اور رفتار قدرے زیا دہ ہیں۔ ہمارے ہاں ما حو لیا تی پہلو پر بات بہت کم کی جا تی ہے اور یہ مو ضو ع ہمیشہ دیار غیر کی آواز قرار پا کر نظر انداز رہتاہے لیکن اب وقت آیا ہے کہ ہم ستر کی دھا ئی والا رویہ مزید نہیں اپنا سکتے کیو نکہ ما حو لیا تی پہلو ہمارے وجود کا مسئلہ ہے۔ تین بنیا دی محر کات جن کی وجہ سے ہماری دنیا پگل رہی ہے زمین پر مختلف نو عیت کی گندگی، درختوں کی بے جا کٹا ئی، گرین ہاوس اثرات سے اوزون میں کمی کے سبب دنیا گلو بل وارمنگ کے خطرہ ناک شعاوں کے زیر سا یہ ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایسی چیزیں ہیں جو پہلے کبھی ہمارے وہم و گمان میں نہ تھیں اب ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن کر نہایت قر یب آرہی ہیں۔
سر زمین پھنڈر عا لمگیر نو عیت کے ما حو لیاتی خطرات کے علاوہ زیر زمین ایک اور ما حو لیا تی طو فان کو جنم دے رہی ہے جو فی الحال ان سنی، ان دیکھی اور ان محسو س شدہ مگر ایک پیچیدہ مسئلہ بن کر ا ُ بھر رہا ہے۔ سینکڑوں گھرا نے اس وقت خا مو شی سے انسا نی فضلاء کو ٹھکا نے لگا نے کی تگ و دو میں ہر سال گڑ ھے کھود رہے ہیں جو زیر زمین تین فٹ کی دوری میں پا نی کی موجود گی سے چند مہینوں یا پھر سال کے اندر اندر بھر
جا تے ہیں اور یہ عمل دو بارہ دہرا یا جا رہا ہے۔ اس وادی میں ایسا کو ئی گھر نہیں رہا جس کے صحن میں زمین کا کو ئی ایسا گو شہ مو جود ہو جو گٹر کے لئے نہ کھودا گیا ہو۔ گڑ ھے کھو د نے کا عمل جہاں مقا می لو گوں کے لئے ذہنی و جسما نی اذیت کا باعث ہے وہاں یہ عمل ما حو لیا تی آلو دگی کا پیش خیمہ بن کر اُ بھر رہا ہے جو آئندہ چند عشروں میں طو فان کی صورت پو رے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے گا کیو نکہ گیلی زمین اور پا نی کے اندر انسا نی فضلے میں مو جود بیکٹریا نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ ام الاجراثوم بن کر انسا نی صحت اور ما حول پر حملہ آور بننے کے لئے اپنی پوری فیملی آباد کر رہی ہیں۔ یہ رو ایتی گٹر کا نظام جو ہرسال زمینی خا صیت کے سبب اُ بل کر ما حول کو آلودہ کر نے لگا ہے جس کا با قاعدہ مشا ہدہ کیا
جا سکتا ہے پھنڈر کے میدا نی علاقے (گلو غ تا بُک) اس نظام سے بہت متا ثر ہو ئے ہیں اور خد شہ ہے کہ آ ئندہ سالوں میں اس کے اثرات لو گوں کی صحت پر وبا ئی امراض کی صورت پڑ نا شروع ہو گا۔ ہر سال اُ بلتے گٹر کے گڑ ھے مقا می آ با دی کے لئے معا شی پہلو سے بھی اذیت ناک ثا بت ہو رہے ہیں کیو نکہ اس پُر اشوب دور میں جہاں عا م آدمی مہنگا ئی تلے دب رہا ہے وہاں سا لا نہ کم ازکم تیس ہزار رو پے گیلی زمین پر گڑھا کھو دنے پرخرچ ہو جا تے ہیں اوراجتما عی طور پر تقریباً ۰۸۱ ملین رو پے سا لانہ اہل پھنڈر اس مد میں خرچ کر تے ہیں جو کہ غور طلب پہلو ہے۔


زیر زمین اس ما حو لیا تی طو فان کا شکار صرف انسان ہی نہیں بلکہ زمین کے اوپر اور پا نی کے اندر مختلف انواع کے حیات (با ئیو ڈا ئیورسٹی) بھی ہیں جو برا ہ راست اس مسئلے سے منسلک ہیں۔ خیا ل کیا جا سکتا ہے کہ ما ضی قر یب میں ٹراوٹ ما ہی کا مسکن دریا ئے پھنڈر آج اس نا یاب
مچھلی سے تقر یباً خا لی ہوچکا ہے، ممکن ہے کہ ٹراوٹ مچھلی اس ما حو لیا تی طو فان کا پہلا شکار ہو جو اپنی نسل کھو چکی ہے کیو نکہ دریا پھنڈر انسا نی آبادی کے دو نوں اطراف بہہ رہا ہے جو برا ہ راست گٹر سسٹم سے متا ثر ہے تا ہم یقین سے کچھ کہنا قدرے مشکل ہے کیو نکہ یہ مو ضو ع تحقیق کا مو ضوع ہے۔ مستقبل قر یب میں یہ مسئلہ ایک سنگین انسا نی و دیگر حیا تیا تی مسئلہ بن کر اُ ٹھے گا جس کی روک تھام کے لئے بھر وقت کو ئی عملی قدم نہ اُ ٹھا یا گیا تو پھنڈر اپنا چو تھا روپ ایک خطرہ ناک ما حو لیا تی طو فان کی صورت اختیار کر ے گا جو حکام اور عوام دو نوں کے لئے پر یشا نی کا باعث ہو گا۔

اب اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کسی مجا وزہ حل کی طرف بڑ ھتے ہیں تا کہ ممکنہ ما حو لیا تی طوفان کا مقا بلہ ممکن ہو۔ اس بات میں کو ئی دو را ئے نہیں کہ بہتر منصو بہ بندی و پیش بندی میں دنیا کے تمام مسا ئل کا حل مو جود ہے لیکن اس کے لئے با ہمی مشاورت اور معانت دو نوں درکار ہیں۔ شیخ سعدی کے بقول مشاورت، اتحاداور اتفاق میں اتنی بر کت ہے کہ شہد کی مکھیاں بھی با ہمی مشاورت اور اتفاق سے شہد جیسی میٹھی چیز جنم دیتی ہیں تو کا ئنات مسخر کر نے والے خدا کا انسان یکجا ہو ئے تو کیا کچھ انجام نہیں د یا جا سکتا۔

وادی پھنڈر کے مکین زیر زمین سر اُٹھا تے ما حو لیا تی طو فان سے نہا یت خا ئف ہیں اور اس کے مقا بلے کے لئے تیاری کر رہے ہیں اس حوا لے سے پھنڈر رورل سپورٹ پرو گرام (ایل ایس او) نے ایک گر ینڈ جر گے کا انعقاد کیا جس میں علاقے کے اکابرین، سیا سی نمائندے، بزرگ اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شریک ہو کر ایک سیر حا صل بحث میں حصہ لیئے اور اس مسئلے پر تشو یش کا اظہار کر تے

ہو ئے حکومت گلگت بلتستان، آغا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک اور دیگر این جی اوز سے در خواست کی کہ اس سنگین ما حو لیا تی طوفان سے نمٹنے کے لئے مقا می آ بادی کے ساتھ مل کر کام کا آ غاز کیا جا ئے تا کہ گو شۂ جنت وادی پھنڈر اپنی خو بصورتی سے سیا حوں کو متو جہ کر سکے اور سیا حت کا بول بالا رہے۔ مقا می قیادت اور اہل دانش اس بات پر متفق ہو ئے کہ اس ما حو لیا تی طوفان کا روک تھام ایک منظم سیوریج نظام سے ممکن ہے جس کے زریعے انسا نی فضلے کو وادی میں مو جود خشک جگہوں (مٹی کے ٹیلے مو جود ہیں) میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور ٹر یٹمنٹ اور ری

سا یئکلنگ کے بعد زرعی استعمال میں لا یا جا سکتا ہے۔ پھنڈر رورل سپورٹ پروگرام کے چیئر مین حا صل مراد نے شر کا ء کو یقین دلایا کہ اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمیں اداروں اور مقا می لو گوں کی مدد کی ضرورت ہے اور انشا ء اللہ ہم اداروں کیساتھ اس حوا لے سے بات چیت کو آگے بڑ ھا کر نہ صرف ان کی تو جہ مبذول کر وئیں گے بلکہ نظام سیوریج کے لئے با قا عدہ پرو پوزل جمع کر وائیں گے تا کہ ادارے فنڈ کا اجرا ء کر سکے اور اس پر کام شروع ہو۔ انہوں نے عوام پر واضح کیا کہ کمیو نٹی کی مدد کے بغیر کو ئی چیز کا میاب نہیں ہو سکتی اس لئے اہل پھنڈر پر اپنے علاقے کو ما حو لیا تی مسا ئل سے نکا لنے کے لئے قر با نی دینی ہو گی تا کہ اگلی نسل اس وادی میں پر سکون زندگی گزار سکے۔ ڈاکٹر حمزہ خان نے سیوریج کے نظام کو اہلیان پھنڈر کے لئے لائف لائن قرار دیتے ہو ئے حکو مت اور داروں کے ساتھ با ہمی اشتراک کو

بڑ ھا نے پر زور دیا اور اس ما حو لیا تی طو فان کے مقابلے کے لئے ہر قر با نی سے دریغ نہ کر نے کا اعادہ کیا۔

وادی پھنڈر اور مکینوں کی نگا ہیں اس وقت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، اُن کی حکومت اور آ غا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک جیسے فعال اداروں کی طرف ہیں کہ وہ اس حوا لے سے اپنے وسا ئل برو ئے کار لاکر سیا حتی مقام وادی پھنڈر کو ما حو لیا تی طوفان کی نذر ہو نے سے بچا ئیں گے۔ بصورت دیگر سیا حوں کی جنت بہت جلد انسا نی فضلے کی نذر ہو گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button