حولیو بابا!
تحریر: نورالہدی یفتالی
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر
بزرگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی پتے اور ٹہنی کی، جس طرح ایک ٹہنی پتوں کو ہرا بھرا رکھنے کا ذریعہ ہے بالکل اسی طرح بزرگ لمحہ ہمارے بزرگ ہمارے گھروں کے انگن کی سکون کےضامن ہیں۔ بڑھاپا ایک ایسا فطری ہے جس سے ہر کسی کو ایک نہ ایک دن گزرنا پڑتا ہے۔ہماری زندگی میں ان بزرگوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
بابا علی مراد شاہ کا تعلق سنھگیے قوم کے ایک معزز قبیلے سے ہے۔آپ کے والد گرامی علی میر خان المعروف خستہ محمد اور تایا علی شیر خان اپنے وقت اور اپنے علاقے کے معزز شخصیت گزرے ہیں۔آپ کے تایا علی شیر خان۱۸۸۵ میں شاہی قلعہ چھترار میں ۲۲ دن تک محصور رہا اس دوران وہ انتہائی بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، علی شیر خان ایک زیرک اور جہاندیدہ شخصیت کے مالک تھے۔کہتے ہیں کی علی شیر خان کم گو تھا اور ہر وقت اپنے باری کا انتظار کیا کرتا تھا، جب بھی اسے بات کرنے کا موقع میسر آتا ہے تو اس کی منطقی باتیں ساری محفل پر حاوی ہو جاتے تھے۔
اس محاصرے کے دوران جب گلگت سے کرنل کے کیلی کے سربراہی میں کمگ چھترار پنچی تو علی شیر خان کی بہادری وفاداری اور دوراندیشی کے ذکر سے متاثر ہو کر اسے پہلے چارویلو پھر حاکم آف ریشن بنا دیا گیا۔ریشن سے لے کر سرغوز تک ایک طویل علاقے پر علی شیرخان حاکم رہے۔بابا علی مراد شاہ کے والد گرامی مہتر چھترار کے منظور نظر شخصیت میں سے تھے۔مہتر چھترار انتہائی قدراور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
آپ کو حولی کے اساقل کے نام سے پکارتے تھے۔اس کی حقیقی وجہ یہ ہے اس زمانے میں لوگوں کے گھروںکے ارد گرد چاردوری کابنانے کا رواج نہیں تھا۔اور اس وقت مہمان خانون کا رواج بھی بہت کم تھا۔اس دور میں علی مراد شاہ کے دولتخانےمیںمہمان خانہ اور گھوڑوں کے لیے اصطبل تھا۔اس زمانے میں اسماعیلی جماعت کے کوئی مشنیری یا مہترچھتراردورےپر آتےتھےتواس مہمان خانے کا استعمال کیا کرتے تھے۔لاسپور ،یارخون کا واحد راستہ بھی اس علاقے سے ہو کر گزرتا تھا، اور اکثر مسافر بھی اس حولی والے گھر میں قیام کیا کرتے تھے۔اس حولی کے بدولت بابا کو اکثر حولیو بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ریشن سے لے کر لاسپور گشٹ تک اپنے قوم میں بابا سب سے زیادہ۱۰۴ عمر پانے والے شخصیت ہیں۔ ہاتھ میں اس کا لاٹھی ہو گا،اونچی آواز میں بات کرتا ہوا بابا اب بھی جوان ہے۔ عمر کے اس حصے میں وہ انتہائی مہمان نواز ہے۔ ۱۰۴ سال کی عمر میں اب بھی وہ باقاعدہ ورزش کرتے ہیں۔اور انتہائی پرہیز گار ہیں۔ کھانے پینے کے لحاظ سے احتیاط کرتےہیں۔ بابا کی شریک حیات بھی اب بھی زندگی کے اس سفر میں خوب ساتھ نبھا رہی ہے۔ دونوں کی محبت اور ہنسی لا زوال ہے۔بابا اب بھی اپنے زمینوں اور جائداد کے ارد گرد گھومنا اس کا معمول ہے۔اولاد سے محبت میں کوئی کنجوسی نہیں ہے۔ خاص کر اپنے پوتوں سے اوراپنے نواسے اور نواسیوں سے حد سے زیادہ محبت ہے۔ہر اولاد کا نام یاد ہے۔ البتہ اپنے لخت جگر کو کسی غلطی پہ ٹھوکنا اور یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، لیکن بابا کی اس طرز و تعمع میں بھی ایک انمول محبت چھپی ہے اپنے اولاد کےلیے۔
بابا علی مراد شاہ ریٹایرڈ اے ڈی آو میر ولی خان کا والد گرامی ہے۔ محبت احترام اور چھترار کی اصل قدیم ایام کی محبت کا حسن علی مراد شاہ بابا کے انگن میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اولاد کی سلسلہ چار پشت تک جاری ہے۔
باباعلی مراد شاہ کا پوتا، اور اپنے دور کے نوجوان شعرا کا نمایندہ شاعر ناصر علی تاثیر جو اے اکے آر ایس پی پاکستان گلگت میں روز معاش کما رہے ہیں ، وہ اپنے بابا سے متعلق کہتے ہیں۔ میرا بابا میرا حوصلہ ہے وہ میرے انگن کا وہ مہکتا ہو گلاب ہے جسکی خوشبو سے ہر وقت ہر لمحہ میرا انگن معتر ہے اس کی اونچی آواز جب بھی میرے کانوں میں سنائی نہ دے تو مجھے بے چینی کا احساس ہوتا ہے۔وہ میرے گھر کی رونق ہے۔
کہتے ہیں کہ بزرگوں کا سایہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ان کے دم سے آپ کی بہت سی پریشانیاں اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔ وہ بچوں کی تربیت میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔گھر کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گھر کی رونق اور شرافت و برکت بزرگوں کے دم سے ہے۔ بزرگ ہمارےگھروں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
بڑھاپے میں انسان بچپن جیسا رویہ اختیار کرلیتا ہے اور اس کی طبیعت میں حساسیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی شخصیت میں اتار چڑھاؤ اور ان کے رویے میں تبدیلی بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔ البتہ آپ کی نرمی اور محبت بھرا انداز ان کی زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔
ان کے ساتھ نشت رکھا کرے یہ بزرگ جینے کا ہنر سکھا دیتے ہیں۔یہ انمول ہوتے ہیں۔ان کی محبت میں کوئی لالچ نہیں ہوتی۔