کالمز

یہ شیخیاں؟

حمزہ گلگتی

شیخ صاحب کی شیخیوں کو مشاہدات کی روشنی میں اجاگر کرنا جدید افسانہ طرازی ہوگی اور نہ ہی اس سے یہ کشید کرنے کی ضرورت کہ حکومتی مخالفت میں یہ سب کیا جارہا ہے۔اچھے کی تعریف اور برے پہ جائز تنقید کا حوصلہ ہونا چاہیے اورانہیں تحمل سے برداشت کرنے کی ہمت بھی۔گزشتہ دنوں ریلوے کی حالتِ زار پر چیف جسٹس کا شیخ صاحب سے سخت باز پرس کا سن اور پڑھ کر میرے اندر خدشات کا جنم لینا فطری عمل تھا۔سفر میں سب سے زیادہ میری ترجیح ریل گاڑیاں ہوتی ہیں۔اس کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان تھکے تو لیٹنے کی سہولت، بور ہوتو ٹہلنے کی سہولت اور متفکر ہو تو پڑھنے کی سہولت ریل گاڑیوں میں زیادہ ہوتیں ہیں۔میرے لئے سفر میں ڈاکٹروں کی طرف سے ویسے بھی کچھ احتیاطی تدابیر کرنے کا حکم ہے۔کاروں اور دوسری چھوٹی گاڑیوں میں میری طبیعت خراب ہوتی ہے اس لئے ڈاکٹروں نے کچھ متبادل ذرائع کا بتایا ہے۔البتہ ریلوں میں میراسفر پرسکون رہتاہے اس لئے ہمیشہ سے میری ترجیحی سواریوں میں شمارہوتا ہے۔اس بار جب ریلوے کو کیوں نہ بند کی جائے کی خبریں اسلام آباد میں سن رہاتھا تو اتفاق سے میرا کراچی کا ٹکٹ بک ہواہوا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ ایک صاحب نے فون کرکے ریل کے سفر کو غیر تسلی بخش اور ٹرینوں کے پانچ چھ گھنٹے لیٹ ہونے کی معمول کاکہا۔تاہم میں نے تمام خدشات کے باوجود خود سے اس کے مشاہدے کی ٹھان لی۔مشرف دور میں شیخ صاحب اپنے آخری وزارت کے دنوں میں کچھ بہتری کی کوشش کی تھی،البتہ ان دنوں ایک میرج سالون کے نام سے ڈبہ بھی(Marriage Saloon) انٹروڈیوس کرایا تھا جو بری طرح ناکام ہوا۔اتفاق سے مجھے غلام احمد بلور کی وزارت میں بھی ریل کاسفر نصیب کئی بار ہواہے۔ایک عزیز اُن دنوں پشاور سے ٹرین میں سوار ہوا اگلے تین دن بعد کراچی پہنچاتھا۔اس کے بعدمجھے تویہ لگا تھا کہ ریلوے کا حشربھی اسٹیل مل اور پی آئی اے سمیت دوسرے تباہ حال اداروں جیساہوگا مگرنواز دور میں سعد رفیق نے اس ادارے کو دوبارہ سے نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا بلکہ اس میں جدت لاکر آن لائن ٹکٹنگ کا سسٹم بھی رائج کرکے ہمیں ترقی یافتہ قوموں میں شامل کرنے کی ادنیٰ سی کاوش کی۔گھر میں بیٹھ کر ٹکٹ بک کرکے مسرت محسوس ہوتی ہے۔اب کی بار شیخ صاحب کی شیخیوں سے سب خوش تھے۔لیکن نتیجہ الٹا نکلا ہے۔اس وقت پانچ گھنٹے لیٹ ہوکر ہم ابھی حیدرآباد سے آگے نکلے ہیں۔رحمان بابا چند تیزترین ریل سواریوں میں شمار ہوتا ہے۔شیڈول کے مطابق پونے بائیس گھنٹے میں پہنچاناہوتاہے مگراس وقت پچیس گھنٹے سے اوپر ہوا ہے اور اگے مزید سفر باقی ہے۔اس سے اس عزیزکی ایک بات کی تصدیق ہوگئی کہ دیرہونا اب معمول بن گیا ہے۔اسی طرح اس نے غیر محفوظ ہونے کا بھی بتایا تھا چونکہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔مگر رات کو میں بیڈ پہ لیٹا تھاکہ چلتی ٹرین میں عجیب آوازیں شروع ہوگئیں۔سب چونکے۔۔کچھ دیر بعد روک کے عملہ نیچے اترا اور ہتھوڑی مارنا شروع ہوگئے۔ڈیڑھ گھنٹے بعد روانہ ہوا۔کچھ دیر بعد ایسی آوازیں دوبارہ اٹھناشروع ہوگئے۔استفسار پر ایک مسافر نے بتایا کہ ایکسل کا معاملہ تھا اسے زنجیر سے خود سے باندھا گیا ہے۔ فرانس میں رہنے والے ایک پاکستانی بھی تھا وہ بول رہاتھا کہ انہیں فکرہی نہیں کہ اس سے کوئی حادثہ بھی ہوسکتاہے۔ایک اور مسافر کاکہناتھاکہ اس کے پچھلے ہفتے کے سفر میں بھی ایساہی کچھ ہوا تھا۔اب آپ بتائیں کہ ہم اس شیخی نظام کو کیوں نہ بلوری نظام سے تشبیہ دے؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جو یہ خبر میڈیا کی زینت بن گئی تھی کہ تیزگام میں لگی اس آگ کارپورٹ بھی یہی بتارہاہے کہ وہ ناقص انتظامات سے ہواتھا نہ کہ مسافروں کے گیس پھٹنے سے۔ان تمام مشاہدات کے بعد یہ محسوس ہورہا ہے کہ انتظامی امور میں کچھ چیزیں ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ریلوے کا پٹہ بھی بیٹھ جائے گا۔اس لئے گزارش ہے کہ شیخیاں نہ بگھاری جائے بلکہ عملاً کچھ کرکے دیکھایاجائے۔اسٹیل ملز اور دوسرے اداروں میں ترجیحات کانعرہ لگانے والے ایک آسان اور منافع بخش پبلک ٹرانسپورٹ ادارے کو ناقص انتظامات کی بھینٹ نہ چڑھایاجائے تو ان کا احسان ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button