کالمز
خالصہ سرکار اور تحریک حقِ ملکیت و حاکمیت
تحریر : راجہ حسین راجوا
خالصہ سرکار ایک عام لفظ ھے، آج کل گلگت بلتستان میں ہر کوئی اس لفظ سے آشنا ھے، خالص زمین جس میں سرکار کا حق ھوتا ھے وہ خالصہ سرکار کہلاتا ھے، یہ نام ایک سکھ حکمراں سے منسوب ھے جن کا نام خالص تھا، انڈیا میں خالصتان تحریک بھی اسی نظریہ کے بنیاد پر چل رہی ھے، راجہ کو زمینوں پر تصرف کا اختیار تھا، وہی سیاہ و سفید کا ملک ھوتا تھا، رعایہ ان کے باتوں کو من و عن قبول کرنے کی عادی ھوتی تھی، 1846 کو سکھوں کو شکست ھوئی اور ڈوگرہ حکمران آئے وہ بھی اسی نظریے کو لے کر چلے اور لوگوں کے مال پر اپنا حق رکھتے تھے لوگوں اور لوگوں کے انفرادی زمینوں پر بھی مالیہ کے نام سے ٹیکس وصول کرتے تھے 1947 کو ڈوگرہ راج کا خاتمہ ھوا اسکے بعد بھی گلگت بلتستان میں 1974 تک راجہ گی نظام نافذ تھا، 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے سے راجہ گی نظام کا خاتمہ کیا اور لینڈ ریفارمز کر کے راجہ کے تصرف کا خاتمہ کیا. پہلی دفعہ عوام کو ملکیت کا مالک بنایا، اور شہید ذوالفقار علی بھٹو ہی حق ملکیت کے بانی ھیں. اسلیے ہمارے بزرگ جنہوں نے اس دور کے ستم سہے ھیں وہ آج بھی بھٹو کے دیوانے ھیں. گلگت بلتستان میں گندم کی قلت ھوتی تھی یہاں کے عوام کی ڈیمانڈ کے پیش نظر ان کیلے گندم کی سبسڈی دے کر اس مسئلے کو بھی حل کیا، اسلیے پیپلز پارٹی آج بھی اس خطے کی سب سے مضبوط جماعت ھے.
پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان نے 2016 میں حقِ ملکیت و حاکمیت کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور اسے اپنے منشور میں شامل کیا. اس سلسلے میں پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر سے انکے موقف جاننے کیلے انکے چیمبر میں ایک نششت ھوئی ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے لینڈ ریفارمز کر کے یہاں کی عوام کو اس خطے کے زمینوں کا مالک بنایا، بھٹو نے راجہ گی نظام کا خاتمہ کرکے یہاں کی عوام کو پاور فل بنایا. 1977 کو بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ گیا، 1978 کو ضیاءالحق نے ناتو رول نافذ کیا، کشمیر افئیر کے ایک آفسر نے وزیراعظم پاکستان کے اصلاحات کو کلعدم قرار دیا اس خطے کیساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ھو سکتی ھے کہ ایک آفسر وزیراعظم پاکستان جو اس ملک کا چیف ایکزیکٹو ھوتا ھے ان کے کئےگئے اصلاحات کو کلعدم قرار دیتے ھیں. امجد حسین ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم یہاں کے عوام کی جنگ لڑ رھے ھیں کیونکہ ہم سب کو مل کر اس خطے کی دفع کرنی ھے، اس تحریک کا مقصد جی.بی کے عوام کی عزت و وقار کو بحال کرنا ھے جس کیلے ہمیں ان کا ساتھ چاہیے، عوامی مفاد کیلے ہم ہر حد تک جانے کیلے تیار ھیں.
آرڈر پہ آرڈر جاری کر کے ہمیں غلام بنایا جارہاہے اور وفاق سے امپورٹڈ بیوروکریسی کے ماتحت کیا جارہا ہے۔ آرڈر 2020 کے بعد میں نے حق حاکمیت سے دستبرداری کا اعلان کیا ھے. اس آڈر کے ذریعے ہم سے حق حاکمیت چھینا گیا ھے. اب میں یہاں کی عوام کو حاکمیت کے نام پہ بیوقوف نہیں بنا سکتا. ہم یہاں کی عوام کو اس سر زمین کا مالک بنانے کی کوشش کر رھے ھیں. انکا کہنا تھا زمینوں کی تین قسمیں ھوتی ھیں، 1. ویسٹ لینڈ 2. کامن لینڈ 3. پرائیوٹ لینڈ. ویسٹ لینڈ وہ زمینیں جو جنگ کے نتیجے میں حاصل ھوا ھو گورنمنٹ لینڈ کہلاتا ھے آئین پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان میں ایک انچ زمین بھی ویسٹ لینڈ نہیں ھے، یہاں کے عوام نے خود لڑ کر اس خطے کو آذاد کرایا ھے. یہ گھاس چرائی کا زمین ھے اسلامی اصول حریم البلد کے مطابق یہ زمین عوام کی ملکیت ھے. یہاں کے زمینوں پر قبضہ کرنا آئین پاکستان، قانون اور اسلامی اصول کے بھی خلاف ھے. ہم ہر فورم پہ عوامی ملکیت کا دفع کرینگے.
پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین ایڈوکیٹ کا موقف بلکل واضع ھے وہ چاہتے ھیں کہ یہاں کی عوام اپنےمستقبل کے فیصلے خود کرے کسی دوسرے فریق کو یہ حق حاصل نہیں ھونا چاہیے کہ وہ ہم پر اپنے فیصلے مسلط کرے. اس سے پہلے قوم پرست پارٹیوں کے منشور میں اس قسم کی جیزیں شامل ھوتی تھی ہمارے لیے خوشی کی بات ھے کہ وہ ایک قومی پارٹی کے صدر ھونے کے باوجود اسطرح کا واضع موقف رکھتے ھیں. اب گلگت بلتستان کی عوام پہ منحصر ھے کہ وہ اس موقف کا ساتھ دے کر وفاق کو حق ملکیت و حاکمیت پہ قائل کرینگے یا ایک بار پھر غلامی کا ہار گلے میں لٹکا کر پنجابی راج کو قبول کرتے ھیں، یہ تو 2020 میں ھونے والے گلگت بلتستان جنرل اسمبلی کے الیکشن میں پتہ چلے گا. پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی قیادت کی طرف سے بھی سخت بیانات آرھے ھیں کہ اس خطے کے خلاف سازش کرنے والوں کو ہم ہرگز قبول نہیں کرینگے، عبوری صوبے کی بھی خبریں گردش کر رہی ھیں، اگر ایسا ھوا تو کیا ہی بات ھو گی. پارٹی وابستگی اپنی جگہ حق ملکیت و حاکمیت کے تحریک کو کامیاب بنانا ھوگا کیونکہ یہ عہدے آنے جانے والی چیزیں ھیں سب کو گلگت بلتستان کی مستقبل کو سنوارنے کیلے لیے کوشاں رہنا چاہیے، تاکہ ہمارے آنے والی نسلیں ہمیں اچھے الفاظ سے یاد کرے.
|
|